’’کیا۔۔۔!‘‘ اس شخص کی مدقوق آنکھیں جیسے کسی دھچکے سے باہر نکل آئی ہوں ،ان آنکھوں میں شدید بے یقینی تھی ایسی بے یقینی جس میں کرب کی گہری آمیزش ہوتی ہے اسکی نظریں شیشے کے شوکیس کے پار کھڑے سیلز مین پر تھیں وہ احتجاج کرنے لگا’’ابھی دس دن پہلے ہی تو میں لے کر گیا تھا،آپ لوگوں نے اچھا مذاق بنا لیا ہے ۔۔۔پانچ دس روپے بڑھ جائیں تو چلو بات سمجھ میں آتی ہے ،آپ کس حساب سے ساٹھ روپے کی دوا کے 219روپے مانگ رہے ہو‘‘۔اسکے بلند ہوتے ہوئے لہجے میں احتجاج شامل ہوتا چلا گیا اور آواز بھی بلند ہوتی گئی اسٹور میں موجود خریدار،سیلزمین اس کی طرف دیکھنے لگے اسٹورکا مالک عباسی صاحب بھی اپنی کرسی سے اٹھ کر آگیا۔ ’’ایک منٹ ایک منٹ بھائی صاحب !کیا ہوگیا ہے قیمت ہم نے تو نہیں بڑھائی اورصرف اس دوا کی قیمت تو نہیں بڑھی نوے سے زائد دواؤں کی قیمتیں بڑھی ہیں حکومت نے یہ قیمتیں بڑھائی ہیں یہ تو خود ہمارے لئے عذاب بن گیا ہے ہر شخص آکر سر ہورہا ہے۔۔۔ ‘‘ میڈیکل اسٹور کے مالک کے لہجے میں نرمی کے ساتھ جھنجھلاہٹ بھی تھی لیکن وہ سلیقے سے بات کررہا تھا دوا کے لئے آنے والے شخص کا بلڈ پریشر ہائی ہوچکا تھاوہ اونچی آواز میں میڈیکل اسٹور والے سے الجھنے لگا میں دیکھ رہا تھا کہ غصے سے اسکا بدن کانپ رہا ہے میڈیکل اسٹور والا میرا اچھا شناسا ہے وہ نرم مزاج اور خوش اخلاق شخص ہے وہ گاہک اس پر الٹ پڑا عباسی صاحب نے اسے سمجھانے کی کوشش کی لیکن اس پر جیسے ہسٹریا کا دورہ پڑچکا تھااچانک اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑا شاپر اٹھااکر زمین پر پھینک دیاا ور اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں سے پیٹنے لگا،اسٹور میںاودھم مچ گیافارمیسی کے باہر کھڑا سکیورٹی کارڈ جھٹ سے اندر آگیا اس لحیم شحیم پٹھان نے اس مشتعل شخص کو پیچھے سے دبوچ کر بے بس کردیا، میں نے سیلز مین سے جلدی سے پانی لانے کے لئے کہا اور اسے ایک طرف لے جاکراسٹول پر بٹھا دیا عباسی صاحب بھی گھبرائے ہوئے آگئے اوراسے نرمی سے سمجھانے لگے’’بھائی ! جو دوا چاہئے ایسے ہی لے جاؤ پریشان نہ ہو پلیز۔۔۔‘‘لیکن اس نے کوئی جواب نہیں دیا بس سرجھکائے بیٹھا رہا میں اسکے پاس ہی کھڑااسکا شانہ تھپتھپاتا رہااور عباسی صاحب وہاں لگنے والا رش چھانٹنے لگے انہوں نے تمام سیلز مینوں کوکاؤنٹر پر بھیج دیا عباسی صاحب نے اس شخص کو زبردستی پانی کے دو تین گھونٹ پلائے جس سے اس کی حالت کچھ بہتر ہوگئی اب وہ خاموشی سے سرجھکائے بیٹھا تھااسکی ٹھوڑی سینے سے لگی ہوئی تھی تھوڑی دیر بعد اس نے سر اٹھایا تو جیسے میرا دل کٹ سا گیا اسکی آنکھوں میں نمی تیر رہی تھی وہ خاموشی سے اٹھاعباسی صاحب نے اسے بٹھانے کی کوشش کی لیکن وہ دکان سے باہر نکل گیامیں اسکے پیچھے تیزی سے لپکا کہ اسکی ذہنی حالت اس وقت ٹھیک نہیں تھی اور اس کا ہاتھ پکڑ لیا’’بات سنیں ‘‘میں نے اسے مخاطب کیااس نے پلٹ کراپنی ویران ویران آنکھیں مجھ پرجما دیں’’تھوڑی دیر رک جاؤ آپکی طبیعت بہتر نہیں ہے ‘‘ ۔ ’’نہیں مجھے جانا ہے ‘‘ ساتھ ہی وہ کچھ بڑبڑانے لگا میں صرف اتنا ہی سمجھا آج پھرماں دوا نہیں لے گی…اس کی آنکھیں ایک بار پھر ڈبڈبا گئیںمیں اسے لے کر فارمیسی کے ساتھ بنے چائے خانے پر بیٹھ گیااور اس کے لئے اور اپنے لئے چائے کا کہہ کراسے زبردستی بٹھا دیااب میں اسکی طرف منتظر نظروں سے دیکھ رہا تھامیں چاہتا تھا کہ وہ اپنا جی ہلکا کرلے یہ اسکے لئے ضروری تھا ورنہ اسے برین ہیمرج ہوسکتا تھا،وہ کچھ دیر بعد گلوگیر آواز میں بتانے لگاکہ وہ چھ ماہ پہلے کسی دفتر میں اکاؤنٹنٹ تھا کورونا اسکا دفتر اسکی نوکری سب کھا گیا اب وہ مجبورا ایک سیکیورٹی کمپنی میں اٹھارہ ہزار روپے کی نوکری کررہا ہے سات ہزار روپے ایک کمرے کے مکان کا کرایہ ہے جس میں وہ بوڑھی بیمار ماں اور بیوی دو بچوں کے ساتھ رہتا ہے ،ماں شوگر کی مریضہ ہے جسکی مہینے کی دوا تین ہزار روپے کی آتی ہے اسکے ساتھ اسے کوئی اور عارضہ بھی ہوگیا ہے جس کی دوا دارو الگ سے ہے جتنا گھر کا کرایہ ہے اتنا ہی دواؤں کا خرچ ہے اس نے ماں کی دواؤں کے لئے پیسے بچانے کے لئے ڈیوٹی پر پیدل جاناشروع کردیا کہ دن کے چالیس روپے بچ جائیں گے اب وہ روز سات کلومیٹر پیدل یا لفٹ لے کر ڈیوٹی پر پہنچتا ہے اس طرح وہ بارہ سو روپے ماہانہ بچانے میں کامیاب ہو تو جاتاہے جو ماں کی دوا پرلگ جاتے ہیں اس اخیر غربت میں جب ایک ایک روپیہ معنی رکھتا ہے وہ کسی نہ کسی طرح گھر میں ڈیرے ڈالی غربت اوربوڑھی ماں کی ہڈیوں سے چمٹی بیماریوں سے لڑ رہا تھا کہ مہنگائی کے ساتھ ساتھ دواؤں کی قیمت کہاں سے کہاں پہنچ گئی جو دوا وہ ساٹھ روپے کی لے کر گیا تھا اب اسکے دام 219روپوں کے ہوگئے تھے ۔ وہ نوجوان کچھ دیر میرے ساتھ رہاا ور پھر اپنی جلتی ہوئی آنکھیں میرے پاس چھوڑ کر چلا گیاساری رات وہ دو سرخ متورم آنکھیں میرے سامنے موجود رہیں اسکا گلوگیر لہجہ میری سماعت پر قابض رہا میں تقریبا ساری رات جاگتا رہا صبح نیند کی کرچیوں سے آنکھیں سرخ تھیں میں حیران ہوں کہ حکومتی وزیر مشیر کس طرح سوتے ہیں ،ان کا کسی بے بس غریب سیکورٹی گارڈ سے واسطہ کیوں نہیں پڑتا، حکومت نے 94ادویات کی قیمت میں260فیصد تک اضافے کی منظوری یہ دیتے ہوئے دی ہے کہ اس فیصلے سے یہ ادویات مارکیٹ میں دستیاب ہوں گی یہ الفاظ کھلا اعتراف شکست ہیں ،یہ حکومت مافیاؤں سے لڑ نے آئی تھی لیکن اب مافیاؤں کے سامنے گھٹنے ٹیکے ہوئے گھگھیا رہی ہے،گندم مافیا ننگا ناچ رہی ہے آٹا پچھتر روپے کلو تک پہنچ چکا ہے ۔،تندور پر جو روٹی دس روپے کی تھی آج پندرہ کی فروخت ہورہی ہے جس کا جہاں داؤلگ رہا ہے اس نے عوام پر دانت گاڑ ے ہوئے ہیں عوام کرب سے چلا رہے ہیں اور حکومت کانوں میں’’ائربڈز‘‘لگا رکھے ہیں جس میں صرف شہباز گل ،مراد سعید،فواد چوہدری اور فیاض الحسن چوہان کے راگ سنائی دیتے ہیںایسے میں غریب عوام کا ماتم کیسے سنائی دے گا!!