انسان بنیادی طور پرشہرت اور دولت کا دیوانہ ہے ۔یہ اپنے آپ کو مختلف بیماریوں کا شکار کر لے گا لیکن اِس کے اندر سے حرص ، شہرت اور دولت کی چاہت کبھی کم نہیں ہو گی ۔ حضور اقدس ﷺ کا فرمان اقدس ہے۔ کہ اگر اللہ تعالیٰ ابن آدم کو سونے کا ایک پہاڑ عطا کر دے تو یہ پھر دوسرے اور تیسرے کی طلب کرئے گا۔ آدم کی کھوپڑی میں حرص صرف اپنے لیے ۔ذوالقرنین بادشاہ جو سمندروں سے خراج وصول کیا کرتا تھا ایک مرتبہ اُسے سمندر کے کنارے انسانی کھوپڑی ملی جو بڑی بوسیدہ ہو چکی تھی۔ سکندر ذوالقرنین نے پوچھا کہ تمہیں کس چیز نے یہاں تک پہنچایا تو آواز آئی کہ حرص اور لالچ نے آج ہم ذرا اپنے ا ردگردجائزہ لیں اور دیکھیں کہ دنیا میں آج کیا ہو رہا ہے ۔ہر شخص صرف اِس ہوس میں مبتلا ہے کہ بس میں سب سے آگے اور بلند رہوں۔ دولت میں بھی اور شہرت میں بھی چاہے کچھ ہو جائے آج جھوٹی شہرت اور عزت کی خاطر ہم اپنے ضمیر اور اپنی عزت کو داؤ پر لگا دیتے ہیں ۔ لیکن افسوس کہ ہم ا للہ تعالیٰ کی آواز نہیں سنتے کہ جو ہر وقت ہمیں قرآن مقدس کے ذریعے پیغام دے رہا ہے کہ یہ کام مت کرو دنیا عارضی اور فانی ہے۔ انسا ن ا ِس دنیا میں عارضی طور پر بسایا گیا اِس کا ٹھکانہ قبر ہے یہ مٹی سے بنا ہے اورایک دن لازمی ہی مٹی میں دفن کیا جائے گا مال کی حرص نے تمہیں قبروں تک پہنچا دیا ۔تم یقیناً قبروں تک جاؤ گے پھر تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ تم اِس دنیا میںکیاکرتے ر ہے ہیں ۔قرآن پاک کا اتنا خوب صورت اندازمیں بیان ہے کہ اگر سمجھنے والا انسان ہو تو قرآن پاک کی ایک آیت انسان پر فوری اثر کرتی ہے۔اللہ نے ہمیں اِن گنت نعمتوں سے نوازا ہوا ہے ہمارا دل جو دن میں ایک لاکھ مرتبہ روزانہ دھڑکتا ہے اور ہمارے اندر دس ہزار سے زائد رگوں کو خون سپلائی کرتا ہے اسی طرح ہر اعضا کا کوئی نعیم البدل ہی نہیں۔ آنکھوں کے ذریعے ہم دنیا کی خوب صورتی کا نظارہ کرتے ہیں زبان کے ذریعے اعلیٰ سے اعلیٰ کھانوں کا ذائقہ چکھتے ہیں اور اسی طرح ہمارے اندر کا نظام کہ جس کے بدلے آج تک کوئی دوسرا نہیں بنا اور نہ ہی کسی میں یہ طاقت ہے کہ وہ ا نسان کو موت سے بچا سکے یہ سب کچھ ہمارے رب کے ہاتھ میں ہے عزت ،ذلت ، زندگی ، موت، رزق ہر شے کا مالک جب اللہ ہی ہے تو پھر ہم اُس کے دروازے کو چھوڑ کر غیر اللہ کے دروازوں پر کیوں جھکتے ہیں ۔اقبال نے کتنی بڑی اور خوب صور ت بات اپنے اِسی شعر کے ذریعے کہہ دی ہے ۔ بتوں سے تجھ کو اُمیدیں اور خدا سے نا اُمیدی مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے اولیاء اللہ کے ذریعے اُن کو مسلمان کیا اور اُن کو اسلام کی دولت عطا کر دی تو ہمارے آبا ؤ اجداد پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان عظیم ہے کہ اُن کو اور ہمیں حضور اقدس ﷺ کا اُمتی بنا کر دوزخ کی آگ سے بچا لیا ۔لیکن افسوس کہ ہمارے اندر سے آج تک ہندوانہ رسومات ختم نہیں ہو سکیں ۔ہماری شادیوں میں ساری رسومات ہندو کلچر سے آئی ہیں۔ مہندی کی رسومات ، گہانا دولہا کے ہاتھ جو با ندھا جاتا ہے اُسے ہندو راکھی کا نام دیتے ہیں جو دولہا کی بہن اپنے بھائی کے ہاتھ میں باندھتی ہے جو سُرخ اور پیلے دھاگے کا ہوتا ہے ہماری شادیوں میں بھی یہ دھاگہ بہن اپنے دولہا بھائی کو باندھتی ہے جس کو ہماری زبان میں گہانا کہا جاتا ہے اسی طرح کی درجنوں رسومات ہیں جن کا دین ا سلام سے د ور کا بھی واسطہ نہیں ہے ۔لیکن ہم نے اُنہیں اپنی شادیوں پر لازمی قرار دیا ہوا ہے یہ جاہلت اور رسومات اب روز بروز بڑھتی جا رہی ہیں جس کا جس طرح سے دل چاہتا ہے وہ ویسے کر رہا ہے حالانکہ اسلام کے اندر شادی کے موقع پر پورے سنت طریقہ کے مطابق دو چیزیں ہیں ایک نکاح اور دوسرا ولیمہ حضور اقدس ﷺ کا فرمان مبارک ہے کہ نکاح میری سنت ہے اور جس نے میری سنت پر عمل کیا پس وہ مجھ سے ہے۔ نکاح کے ساتھ ہر شخص اپنی استطاعت اور اوقات کے مطابق اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کو بلا کر اُنہیں کھانا کھلا سکتا ہے ۔ لیکن ہماری شادیوں پر تو ولیمہ کھانے کے ساتھ لین دین ہوتا ہے ۔سلامی اور نیندر دی جاتی ہے اور با قاعدہ رجسٹر میں اِس کا اندراج کیا جاتا ہے اور جو غریب بھائی نہیں دے سکتا اُس پر طنز کی جاتی ہے حالانکہ ولیمہ پر رقم لینا شرعی طور پر مناسب نہیں ہے اور بعض علماء کرام نے تو اِسے سود کے مترادف قرار دیا ہے۔ کیونکہ شادی پر ولیمہ کرنا یا کھانا کھلانا خیرات اور صدقہ کے زمرے میں آتا ہے اور ہم لوگ اتنے حرص اور لالچی ہو چکے ہیں کہ ولیمہ پر بھی رقم طلب کرتے ہیں ہم نے بڑے بڑے امیر زادے دیکھے ہیں کہ جن کی شادیوں میں سلامی اور نیندر وصول کرنے کے لیے باقاعدہ طور پر باہر جانے والے راستوں پر اُن کے خاص بندے رجسٹر لیے دروازوں پر بیٹھے ہوتے ہیں اور پیسے وصول کر رہے ہوتے ہیں ۔یہ قطعاً مناسب نہیں ہاں اگر کوئی دوست یا رشتہ دار دولہے کو کوئی تحفہ وغیرہ دیتا ہے۔ تو یہ جائز اور سنت ہے لیکن لازمی ہرگز نہیں آج ہماری تمام قسم کی تقریبات میں ہر کام غیر شرعی ہو رہے ہیں۔ گانے اور ناچنے والوں پر ہم لوگ لاکھوں روپے کے نوٹ اوپر فضا میں پھینکتے اور نچھاور کر کے اپنے رزق کی بے ادبی کر رہے ہوتے ہیں لیکن بڑے خوش ہوتے ہیں اب اِن حالات میں اللہ تعالیٰ ہم پر کیسے راضی ہو سکتا ہے ۔ ہم اپنی غیر ضروری تقریبات پر کروڑوں روپے فضول خرچی کرتے ہیں لیکن ہمیں یہ پتہ نہیں ہوتا کہ ہمارے پڑوس میں کتنے غریب اور بے آسرا لوگ ایسے بھی ہیں کہ جن کو دو وقت کی روٹی تک میسر نہیں ۔ہمیں تو شہرت اور دولت چاہیے اور نام ہو کہ چوہدری صاحب ، خان صاحب اور سردار صاحب نے اپنے بیٹے کی شادی میں کتنے بڑے گلو کار کو بلایا ہے یہ ہے ہمارے معاشرے کے امیروں کی ذہنیت ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں راہ راست پر چلائے اور ہدایت یافتہ لوگوں میں شمار کرئے ۔