آج نئے سال 2020ء کے آغاز کیساتھ معروف روحانی پیشوا حضرت شاہ رکن عالم ملتانیؒ کا 706 واں سالانہ عرس ملتان میں شروع ہو رہا ہے۔ تقریبات تین دن تک جاری رہیں گی ۔ شدید ترین سردی کے باوجود سندھ سے زائرین کی آمد کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ قطب الاقطاب حضرت شاہ رکن الدین والعالم ملتانی ؒنے ابتدائی تعلیم اپنے دادا حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی کے مدرسہ بہائیہ میں حاصل کی ۔ جو کہ ایک بہت بڑی اقامتی یونیورسٹی کی حیثیت رکھتا تھا ۔ آپ شیخ صدر الدین عارف اور بی بی راستی المعروف بی بی پاک دامن ؒ کے فرزند تھے۔ آپ کی ولادت 1251ء جمعہ کے روز ہوئی ۔ آپ کے فیوض و برکات کا تذکرہ تاریخی کتب میں موجود ہے ۔ مدرسہ بہائیہ جو کہ بہت بڑی درس گاہ تھی ، یہاں پورے ہندوستان کے طلبہ کے علاوہ بنگال ، آسام ، انڈونیشیا، تاجکستان ، غزنی ، فارس، روس ، برما ، ترکی اور عرب سے طلبہ پڑھنے آتے تھے اور یہاں سرائیکی زبان کے علاوہ دنیا کے مختلف زبانوں کی تعلیم دی جاتی تھی ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس مدرسے کو بحال کیا جائے۔ حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی کے مزار سے ملحق جو قدیم پرہلاد مندر اور مدرسہ تھا اس کو بھی بحال ہونا چاہئے کہ شریفوں کی حکومت نے لاہور اور آس پاس بہت سے قدیم گرد واروں کو بحال کیا ۔ اس لحاظ سے اسلام کے آنے سے پہلے ایک توحید پرست پرہلاد کی قدیم یادگار ہے کو پہلے بحال کرنے کا یہ فائدہ ہو گا کہ پوری دنیا سے لوگ اسے دیکھنے آئیں گے ۔ ملتان کی عظمت رفتہ کو ایک بار پھر سے بحال کرنے کی ضرورت ہے۔یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ملتان کو مدینۃ الاولیاء ہونے کا شرف حاصل ہے۔ ملتان آج سے نہیں بلکہ ہزار سال سے تہذیب و تمدن کا گہوارا چلا آ رہا ہے ۔ ملتان سے صوفیاء کرام نے ہمیشہ محبت و انسان دوستی کے زمزمے جاری کئے ۔ ملتان کے تقدس کے بارے میں کہا گیا ’’ ملتان ماء بجنت اعلیٰ برابر است ‘ آہستہ پابنہ کہ مَلک سجدہ می کند‘‘۔ اسی طرح سرائیکی کہاوت زبان زدِ عام ہے کہ ’’ جیں نہ ڈٖٹھا ملتان ‘ او نہ ہندو نہ مسلمان‘‘ ۔ اگر ملتان کی قدیم حرفت پر غور کیا جائے تو ملتانی ہنر مندوں نے تاج محل جیسے عجوبوں کو تخلیق کیا ۔ اسی لئے ہندی زبان میں کہاوت شامل ہوئی ’’ آگرہ اگر ، دِلی مگر ، ملتان سب کا پِدر ‘‘ ۔ ملتان کی عظمت بارے حضرت داتا گنج بخش ؒ نے فرمایا ’’ لاہور یکے از مضافاتِ ملتان است ‘‘ ۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ملتان کی عظمت کا ایک زمانہ گواہ ہے ۔ مگر آج کے ملتان کے اہل سیاست نہ خود کو پہچان سکے اور نہ ملتان کو ۔ آج بھی وہ قیادت کیلئے لاہور ‘ لاڑکانہ کی طرف دیکھتے ہیں ۔ اگر گہرائی کے ساتھ غور کیا جائے تو وسیب کی موجودہ غلامی کا باعث بھی وسیب کے یہی اہلِ سیاست ہیں ۔ ہمارے بزرگانِ دین نے اپنی دھرتی ، اپنی مٹی اور اپنے وسیب سے محبت کے ساتھ ساتھ انا و خوداری کا درس بھی دیا ۔ انہوں نے ہمیشہ محبت و اخوت اور انسان دوستی کا پیغام دیا۔ آج کی نفسانفسی ، انتہا پسندی اور عدم برداشت کے دور میں صوفیاء کی فِکر اور پیغام کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ آج میں زائرین کی مشکلات بارے حکام بالا کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں ۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ زائرین کے رہائش کیلئے کوئی مناسب انتظام نہیں ہے ، جونہی عرس شروع ہوتا ہے تو گھنٹہ گھر اور دولت گیٹ کے آس پاس موجود تمام تعلیمی ادارے بند کرا دیئے جاتے ہیں اور وہاں زائرین کو بھیج دیا جاتا ہے۔ ایک تو تعلیم کا حرج ہوتا ہے دوسرا وہاں توڑ پھوڑ کی شکل میں درس گاہوں کی انتظامیہ کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔بتایا گیا ہے کہ عرس شروع ہونے سے پہلے زائرین کے لئے 16 تعلیمی ادارے چار دن کیلئے بند کئے گئے ہیں ۔حالانکہ تعلیم کے حوالے سے ایک ایک پل بھی بہت قیمتی سمجھا جاتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ زائرین کیلئے رہائش گاہیں تعمیر کی جائیں اور داتا دربار کی طرح زکریا کمپلیکس تعمیر کیا جائے ، قدیم لائبریری کو دوبارہ بحال کیا جائے اور زائرین کیلئے وافر مقدار میں ٹائلٹ تعمیر کئے جائیں ۔ زائرین کے بہت سے مسائل اور مشکلات ہیں ، ان مشکلات کے حل کیلئے نا صرف سجادگان بلکہ حکومت کو بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ آج جبکہ مرکز اور صوبے میں اقتدار وسیب کے پاس ہے اور مخدوم شاہ محمود قریشی اس کا اہم حصہ ہیں تو ضروری ہے کہ مسائل کے حل کیلئے بلا تاخیر اقدامات کئے جائیں۔ پہلے ہی لاہور والے طعنے دیتے تھے کہ اقتدار ہمیشہ سرائیکی وسیب کے جاگیرداروں اور گدی نشینوں کے پاس رہا اگر انہوں نے وسیب کے مسئلے حل نہیں کئے تو قصور کس کا ہے؟ اگر آج بھی مسئلے حل نہ ہوئے تو یہی طعنہ ایک بارپھر وسیب کو سننا پڑے گا۔ بعد دیگر عرض کروں گا کہ ہمارے عمائدین جو ملک کی بہت بڑی سیاسی جماعتوں کے اہم عہدوں پر فائز ہیں ، وہ غربت کے خاتمے کیلئے کوئی نظریہ یا منشور دینے کی بجائے غریبوں کو صرف پانی پر دم کر کے دیتے رہے تو مسئلے کس طرح حل ہوں گے؟ آج وسیب کو اعلیٰ تعلیمی اداروں انجینئرنگ ، میڈیکل ، ایگریکلچرل یونیورسٹیوں اور کیڈٹ کالجوں کی ضرورت ہے۔ انہیں سی ایس ایس کے علیحدہ کوٹے کی ضرورت ہے ۔ انہیں ملازمتوں میں برابر حصے کی ضرورت ہے۔ سرائیکی وسیب کے لوگوں کو خطے کی شناخت صوبے اور حقوق کی ضرورت ہے۔ تحریک انصاف کو اپنے وعدے کی تکمیل کیلئے فوری اقدامات کرنے چاہئیں۔ اس کے ساتھ یہ مطالبہ قطعی طور پر غلط نہیں ہے کہ قدیم قلعہ کہنہ قاسم باغ جو کہ اس خطے کا ورثہ ہے پر ناجائز تجاوزات ختم ہونی چاہئیں جیسا کہ پی ٹی سی ایل ٹاور ، پولیس کاؤنٹر سروس اسٹیشن اور اس پر رکھی گئی ملتانی کو قتل کرنے والی توپ اور دوسرے تجاوزات ختم ہونے کے ساتھ اس بات پر بھی غور ہونا چاہئے کہ قلعہ کہنہ قاسم باغ پر حملہ آور انگریزوں کی بڑی قبریں تو موجود ہیں مگر ان حملہ آوروں کا دھرتی کے جن لوگوں نے مقابلہ کیا کی قبروں کا کوئی نشان نہیں ۔ اس کا ایک نقصان یہ بھی ہو رہا ہے کہ کچھ ان پڑھ زائرین ان حملہ آور انگریز سامراج کی قبروں کے بوسے لے رہے ہوتے ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنے وطن کیلئے قربانی دینے والے مجاہدین کی یادگاریں تعمیر کی جائیں ۔ انگریزوں کی آمد سے پہلے کے نقشے میں نواب مظفر خان شہید کا مزارموجود ہے ۔ حملہ آور انگریزوں نے شدید بمباری کر کے نواب مظفر خان شہید کے مقبرے کو بھی مسمار کر دیا ۔ نواب مظفر خان شہید سرائیکی دھرتی کا ہیرو ہے ، اس نے حملہ آور رنجیت سنگھ کا بھرپور مقابلہ کیا اور وطن کا دفاع کرتے ہوئے شہادت پائی، تو ضروری ہے کہ ان کا مقبرہ تعمیر کیا جائے۔