ہاں ہاں نہیں ہے کچھ بھی میرے اختیار میں ہاں ہاں وہ شخص مجھ سے بھلایا نہیں گیا اڑتا رہا میں دیر تک پنچھیوں کے ساتھ اے سعد مجھ سے جال بچھایا نہیں گیا ابراہیم اعوان نے ہماری توجہ کیٹس Keatsکی نیگیٹو کیپیبلٹی negative capibiltyکی طرف دلائی کہ ثانی شعر اس بے پناہ صلاحیت کی طرف نشاندہی کرتا ہے جو قدرت کسی فنکار کو عطا کرتی ہے۔ فنکار میں کیا ہر صاحب دل کو یہ سوچ ملتی ہے۔ بات تو سیدھی ہے کہ دوسرے کا خیال رکھنا حتیٰ کہ پرندوں کا۔ کیٹس بھی جب سبز میدان میں لیٹ کر ککو کی آواز سنتا تھا تو کسی اور جہان میں پہنچ جاتا تھا اپنی ہستی کو بھول جاتا تھا۔ یہ بات فطرت کے شاعروں میں تھی ورڈز ورتھ میں بھی اور پھر اقبال نے بھی یہ جھلک دکھائی۔ اودھے اودھے نیلے نیلے پیلے پیلے پیرہن۔ درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو بہرحال پرندوں کو دیکھ ان کے ساتھ اڑنے لگنا اور اپنی خواہش کو دبا جانا کہ جو پرندوں کو بھی لقمہ بنا لے اور ایک بات ہے لیکن یہ موڈ کی بات بھی تو ہے کہ نازک مزاج شاہاں مجھ پہ طاری ہے خیال لب جاناں ایسے ایک چڑیا بھی جو بولے تو برا لگتا ہے مگر یہ چھوٹی سی پیاری سی مخلوق گھر کے آنگن کی رونق بھی تو ہے۔ اساں چڑیاں دا چنبہ وے بابل اساں اڈ جانا۔ دماغ ایک جگہ کہاں ٹھہرتا ہے کہ دل تخیل کے ہاتھ میں ہے ۔کیا عجب تصور ہے کہ دل کرے غٹکوں غٹکوں۔ انسان بعض اوقات کیفیت کا اسیر ہو جاتا ہے کبھی ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ باراں کے برستے ہی اندر کا موسم بھی بدل جاتا ہے۔ مگر اس موسم میں جب کچے مکانوں کی چھتیں گرتی ہیں تو بندہ دل تھام کے رہ جاتا ہے۔ بس یہی زندگی ہے کہ کوئی ملول ہو جائے یا آگے بڑھ کر کسی کا آسرا بن جائے یہ خدمت بھی تو محبت جیسی ہے جس کو اس کا نشہ ہے وہ موسم سے بھی بے نیاز ہو جاتے ہیں۔ کاش ایسی حالت معاشرے کی عام سطح پر ہو جائے کہ جیسی عدیمؔ نے کسی اور سیاق میں کہی تھی: اس نے کہا عدیم مراہاتھ تھامنا چاروں طرف سے ہاتھ نمودار ہو گئے معزز قارئین!میں تو آپ کا دھیان بٹا رہا ہوں اور آپ کو فطرت کی طرف راغب کر رہا ہوں وگرنہ آپ بھی میری طرح پریشان ہو جائیں گے اور سوچنے لگیں گے کہ یہ جو شاہ محمود قریشی نے کشمیر کی آزادی کے لئے پورے ملک میں دو منٹ کی خاموشی کا کہا ہے اس کا مطلب کیا ہے۔ اس کا اس کے سوا کیا مطلب ہے کہ بس خاموشی ہی بھلی۔ یعنی وہ جو سر پھرے بولتے ہیں ان کے لئے چپ رہنے کا پیغام ہے۔ مجھے تو ان دوستوں پر حیرت ہے جنہوں نے اس رویے کے خلاف دھڑا دھڑ پوسٹیں لگانا شروع کر دی ہیں اور ان گدی نشینوں کا تعلق جا انگریزوں سے جوڑا ہے۔ کسی نے شاہ صاحب کی ہیلری کلنٹن کے ساتھ سر ٹکراتے ہوئے تصویر لگا دی ہے اور کسی مزار شریف پر کسی کے سر پر دست برکت رکھتے ہوئے۔ بہرحال ذاتیات پر اترنے کی ضرورت نہیں وہ کون سا اپنی پالیسی بیان کر رہے ہیں؟ عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا حکومت تو ہر لمحہ کو عذاب بنانے کے چکر میں ہے۔ عید جیسا تہوار ہی کیوں نہ ہو اس نے پٹرول بم گرا دینا ہوتا ہے لوگ ابھی پچھلے حملے سے جل رہے تھے کہ اکٹھا بیس پچیس روپے بڑھایا تھا۔ واقعتاً اب خاں صاحب کی دھمکیوں کی فہم ہونے لگی ہے کہ وہ کیوں کہتے تھے کہ کسی کو نہیں چھوڑوں گا۔ عوام کسی کو اپنی طرف اشارہ نہیں سمجھتی تھی۔ واقعتاً انہوں نے عوام کو رلایا بھی اور اسد عمر کے بقول ان کی چیخیں بھی نکلیں۔دیکھیے اب سانس کب گھٹتا ہے سارا چارہ آئی ایم ایف کھا گئی اور چارہ آپ عوام کو سمجھ لیں باقی رہے وہ سفید ہاتھی جو لمبی لمبی تنخواہیں اور مراعات کھا گئے اور معیشت کی جنگ میں وہ پورس کے ہاتھی ثابت ہوئے۔ ناکام یکسر ناکام: وہ یہ کہتا ہے کہ کیا اس نے بگاڑا اپنا ہم کبھی بیٹھ کے سوچیں گے سلامت کیا ہے سب سے بڑا کارنامہ کیا ہے؟ لاک ڈائون؟ سمارٹ لاک ڈائون، جزوی سمارٹ، لاک ڈائون اور شارٹ پیریڈ لاک ڈائون دوسرا کارنامہ ریلیف در ریلیف نوٹس تفصیلی نوٹس۔اس پر مافیاز مشتعل مافیاز حکومت کی دسترس میں نہیں۔ رایگانی سی رایگانی ہے یہ مرے عہد کی کہانی ہے کون کاٹے پہاڑ راتوں کے کس کی آنکھوں میں اتنا پانی ہے عید بھی صرف حکومت کو راس آئی۔ عوام تو بکروں کی طرح پہلے ہی سے قربانی پر لگے ہوئے ہیں اور انہیں گھبرانے کی بھی اجازت نہیں۔ پے درپے مہنگائی کے تازیانے۔ اوپر سے خان صاحب کی مسکراہٹ دکھائی جاتی ہے۔ کہاں مصطفی قریشی یاد آ گئے۔ بہت یاد آئوں گا سوہنیا۔اور پھر برے نصیب میرے ویری ہویا پیار میرا۔لوگوں کی بنیادی ضروریات ۔ آٹا چینی ہی تو نہیں چاول کھائے جا سکتے ہیں جو بندے کو ذھین بھی بناتے ہیں اس کے ساتھ مچھلی بھی کھائی جا سکتی ہے ہاں یاد آیا کہ جو افورڈ نہیں کر سکتے تو حکومت کے طعام خانے تو موجود ہیں۔ پٹرول کی بجائے اللہ کی دی ہوئی دو ٹانگیں استعمال کریں۔ ورزش کی ورزش باقی سب ٹھیک ہے مگر مجھے رہ رہ کر ان بے چاری بے زبان بھینسوں کا خیال آتا ہے جو کفایت شعاری کے ضمن میں وزارت عظمیٰ نے بیچی تھیں اور ان کی بجائے ہم نے سفید ہاتھی پال لئے تھے۔حکومت کے دو سال ایسے ہیں کہ باقی سارا وقت بھول ہی گیا۔ معصوم نوجوان خاص طور پر طلبا و طالبات تو ڈرتے سانس نہیں لیتے۔ مکمل شرمندگی مگر وہ بے چارے تو سچ مچ تبدیلی چاہتے تھے ایک انقلاب ۔ اب تو لطیفے بن گئے۔ بچے سے کوئی پوچھتا ہے سکول جانا ہے بچہ کہتا ہے سکول کیا ہوتا ہے دوسرا سوال جہاں آپ تعلیم حاصل کرتے تھے بچہ پوچھتا ہے یہ تعلیم کیا ہوتی ہے بس کر یار سعداللہ شاہ۔ ہر وقت کا رونا ٹھیک نہیں کوئی پرامید بھی بات کر لیا کرو۔ زخم وہ دل پہ لگے ہیں کہ دکھانے کے نہیں۔