ویسے تو رسالت مآبﷺ کے ساتھ حضرات صحابہ میں سے ہر ایک کی محبت اور عقیدت دیدنی ہوتی تھی۔لیکن آپﷺکے ساتھ جس تابعی کی فرط محبت پر صحابہ ؓکرام کوبھی رشک آتاتھا، وہ تاریخ میں اویس قرنی ؒکے نام سے مشہور ہیں۔ آپ ؒ کاپورانام اویس بن عامراور کنیت ابوعمرو تھا اوریمن کے مشہورعلاقے قرن میں583 ء کو پیداہوئے ۔رسالت مآب ﷺ کامبارک زمانہ پانے کے باوجود اویس قرنیؒ دیدارنبی ﷺسے شرف یاب نہ ہوسکے ۔ مورخین اویس قرنی ؒ کی اس محرومی کی دو وجوہات بتاتے ہیں ۔ پہلی وجہ یہ کہ نبی ﷺ کی زیارت کرنے میں اویس قرنیؒ کو والدہ کی علالت اور بڑھاپاآڑے آرہاتھا۔دوسری وجہ یہ کہ گھر کی معاشی ضروریات پورا کرنے میں اویس اکیلے تھے۔شتربانی کے پیشے سے منسلک تھے جس کی وجہ سے وہ آخر وقت تک زیارت ِ نبیﷺ سے محروم رہے ۔ اپنے وصال سے قبل سرکار دوعالمﷺنے حضرت عمرؓ اور حضرت علی ؓ کو یہ وصیت فرمائی کہ’’ میرا خرقہ اویس قرنیؒ کے پاس لے جانا اور ان پرمیرا سلام کہہ کر میری امت کیلئے ان سے دعا طلب کرنا ،کیونکہ اُن کی دعا میری امت کے حق میں مقبول ہوگی ۔آپﷺ نے ان سے یہ بھی کہاکہ جب آپ یمن جائوگے تو اویس کو شتربانوں کے درمیان بیٹھا پاوگے ‘‘۔رسول اللہﷺ کی وصال کے بعد حضرت عمرؓ اور علی ؓقبیلہ قرن گئے اور لوگوں سے حضرت اویس کے بارے میں دریافت کیا ۔ ان کو کہاگیاکہ ’’ہاں ایک دیوانہ آدمی ہم لوگوں سے پَرے زندگی بسر کرتا ہے اور وادی عُرنہ میں شتربانی کرتاہے ۔اپنے وقت کے یہ دونوں کبار صحابہ ؓ جب وادی عرنہ میں پہنچے تو اویس کو نماز میں مشغول پایا۔ سجدے سے سر اٹھا نے کے بعدان دوصحابہ نے ان پر آقاﷺ کا سلام پیش کیا ، جواب میں اویس نے ’’ وعلیکم السلام یا اصحاب رسول اللہ ﷺ‘‘ کہا۔پھریہ دونوں اصحاب اویس کے سامنے بیٹھ گئے ، سروردوعالم ﷺ کا خرقہ مبارک پیش کیا اور امت کیلئے دعائے مغفرت طلب کی۔آپ ؓ نے آقائے نامدار ﷺ کا خرقہ اٹھایا ، چوما اور سربسجود ہوکر روتے ہوئے یہ کہنے لگے ’’ اے اللہ تیرے محبوب ﷺ کاخرقہ اس وقت تک نہیں پہنوں گا جب تک امت محمدیہ نہ بخشی جائے ۔غیب سے صدا آئی کہ آپ کی التجاء سے امت محمدیہ ﷺ کے اتنے لوگ بخش دیئے گئے جتنی تعداد میں بنی ربیع اور بنی مضر کی بکریوں کے بدنوںکے بال ہیں ( تذکرۃ الاولیائ)۔یاد رہے کہ بنی ربیع اور بنی مضر عرب کے دو ایسے قبیلے تھے جو کوفہ میں لاتعداد بکریوں کے مالک تھے اوریہ بھیڑ بکریاں اپنے بالوں کی کثرت کی وجہ سے سارے عرب میں مشہورتھے ۔مشہور تابعی ہرم ابن حبان ؒفرماتے ہیں کہ حضرت اویس قرنی ؓ کا احوال سن کر ان سے ملاقات کی غرض سے میںنے کوفہ جانے کاقصد کیا ۔وہاں کوفہ میں مَیں نے اویس قرنیؓ کودریائے فرات کے کنارے وضو کرتے ہوئے پایااور سلام کیا ۔ جواب میںآپ نے وعلیکم السلام کہا ۔ دست بوسی کے ارادے سے میں ان کی طرف بڑھنے لگا تو انہوںنے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ۔پھر پوچھا کہ’’ اے ابن حبان! اللہ تعالیٰ تجھے لمبی عمر دے ، یہاں کیساآنا ہوا ؟ہرم کہتے ہیں کہ میں نے کہا ’’ اللہ نے مجھے تیرے بارے میں خبردی ہے ،یوں میں آپ کے زیرسایہ چند دن گزارنا چاہتاہوں۔ ابن حبان لکھتے ہیں کہ یہ سن کر آپؒ نے مجھے منع کیااور کہاکہ جائو اللہ تعالیٰ کے سائے میں رہو‘‘۔واپسی پرمیں نے ان سے ایک نصیحت کرنے کی درخواست کی تو فرمایا کہ ’’ جب سونے لگوتو موت کو اپنے سرہانے خیال کرو ،جب اٹھو تواسے اپنے سامنے کھڑی پائو اور کہا کہ کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے والد کوبھی موت آئی ؟حضرت آدم وحواؑ،ابراہیم ؑ،موسیٰ ؑ،آقائے نامدارﷺ اورابوبکروعمرؓبھی اسی موت کے ہاتھوں اللہ تعالی کے ہاں پہنچے ہیں۔ ابن حبان فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق ؓ کی موت کے بارے میں سن کر میں نے پوچھا ’’کیا امیر المومنین حضرت عمر فاروق ؓ بھی رحلت فرماگئے ہیں؟آپ نے فرمایا ہاں مجھے اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ حضرت عمر شہید کردیئے گئے ہیں ‘‘۔ابن حبان کہتے ہیں کہ بعد میں جب ہم مدینہ پہنچے تو حضرت عمر فاروق کی شہادت کی تصدیق ہوگئی ‘‘۔ بلند مقام ومرتبے کی بناء پر اگرچہ امام شعرانی جیسے لوگوں نے بھی حضرت اویس قرنی ؓ کو اصحاب رسول میں شامل کیا ہے لیکن علماء نے امام شعرانی کے اس قول کورد کیاہے کیونکہ حقیقت میں جمہور کے مذہب کے مطابق حضرت اویس قرنیؒ تابعی ہیں اور افضل التابعین مانے جاتے ہیں ۔ان کی فضیلت کی دیگر وجوہ کے علاوہ ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ آپؓ کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے بڑی صراحت کے ساتھ فضائل اور کمالاتبیان کیے ہیں جو دوسرے تابعین حضرات کے بارے میں بہت کم ہیں ۔امام مسلم نے صحیح مسلم میں ’’ فضائل اویس قرنیؒ‘‘میں یہ حدیث نقل کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے اپنے اصحاب سے فرمایا ’’ بے شک ایک شخص تمہارے پاس یمن سے آئے گا ،ان کانام اویس ہوگا ، یمن میں صرف اسے ان کی ماں کی خدمت روکے ہوئے ہیں ‘‘۔مولانائے رومؒ نے بھی اپنی مثنوی میں اویس قرنی ؒ کی والدہ کو ولیہ کہاہے اور لکھاہے کہ وہ اپنے بیٹے کوفرمایا کرتی تھیں کہ تیرے حق میں یہی بہتر ہے کہ میری خدمت میں اپنی زندگی گزار دیں ‘‘۔ مثنوی ہی کے مطابق’’ پیارے آقاﷺ نے ایک دن حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا کہ خدا کے خاص بندوں میں سے ایک شخص ہمارے گھر آئے گا ،اگر میں اتفاقاً گھر پرحاضر نہ تھا تو تم اس نیک مہمان کاخوب خاطر تواضع کرنا ،ان کو میرے آنے تک عزت کیساتھ بٹھانا۔ لیکن اگر وہ میرا انتظار نہ کرسکے تو اُن کا حلیہ ضرور یاد رکھنا کیونکہ اُن کی زیارت کرنے اور حلیہ یاد رکھنے میں سعادت اُخروی ہے ۔چنانچہ ایک روز اویس قرنیؒ اتفاقاً خانہ رسول ﷺ میں وارد ہوئے ، آقاﷺ کے بارے میں پوچھا ، حضرت عائشہ ؓ نے بتایا کہ آپ ﷺ گھر پر موجود نہیں۔یہ سن کر اویس قرنی ؒ واپس ہوئے اور کہا کہ پیارے آقاﷺ کو میرا سلام کہنا۔آپﷺ جب گھر تشریف لائے توحضرت عائشہ ؓ نے اویس قرنی ؓ کی تشریف آوری سے آپ ﷺکو آگاہ کرکے ان کا سلام بھی پہنچایااور ان کا حلیہ بھی آپ ﷺ کے سامنے بیان کیا ۔