داخلی محاذ پر جارحانہ تیور دکھاتے ہوئے وزیرا عظم نریندری مودی اپنی دوسری مدت حکومت میں سفارتی سطح پر بھارت کو اس خطے میں ایک سپر پاور کے بطور منوانے کی حکمت عملی پر گامزن ہے ۔ اس کے حصول کیلئے چانکیہ کی تجویزکی ہوئی صدیوں پرانی پالیسی سام (گفتگو) دھام (لالچ)، ڈھنڈ ( سزا) اور بھید (بلیک میل) پر عمل پیرا ہے۔ اگر ایک حساس پڑوسی کی حیثیت سے اور استعماری قوتوں کے خلاف محاذ کے لیڈر کی حیثیت سے بھارت خطے میں اپنے آپ کو پیش کرتا، تو شاید پس و پیش کی نوبت ہی نہ آتی۔ ماضی میں کانگریسی حکومتوں نے بھی 1971ء کے بعد خطے میں بھارت کو ایک بارعب پاورکے طور پر منوانے کی کوشش کی، مگر یہ بیل کبھی منڈھے نہ چڑھ سکی۔اس لیے کسی بھی جنوبی ایشیائی ملک کے ساتھ بھارت کے رشتے سدھر نہیں سکے۔ 60 سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود بنگلہ دیش کے سوا کسی پڑوسی، حتیٰ کہ بھوٹان کے ساتھ بھی سرحدوں کا حتمی تعین نہیں ہوسکا ہے۔ اس مقصد کی تکمیل کیلئے بھارت نے اقدامات کئے ہیں ان میں پنجاب میں واہگہ کے راستے پاکستانی تجارتی اشیاء پر 200فیصد ڈیوٹی عائد کرنا اور لائن آف کنٹرول کے آر پار جموں و کشمیرمیں تجارت کو مکمل طور پر بند کرنا شامل ہے۔ مگر حال ہی میں نئی دہلی کے ایک معروف تحقیقی ادارہ بیورو آف ریسرچ آن انڈسٹری اینڈاکنامک فنڈامنٹلز یعنی بریف نے انکشاف کیا ہے کہ اس اقدام سے تو سب سے زیادہ نقصان خود بھارت کو ہی ہوا ہے۔ صرف پنجاب کے شہر امرتسر میں ہی کم و بیش 50ہزا ر افراد نان شبینہ کے محتاج ہو گئے ہیں۔ اس ادارہ کا کہنا ہے کہ یہ وہ افراد ہیں ، جو بطور کمیشن ایجنٹ، مزدور یا ٹرک ڈرائیور یا مال برداری کی صورت میں بھارت،پاکستان ٹریڈ کے ساتھ منسلک تھے۔ تاجروں اور دیگر افراد کو جو نقصانات اٹھانے پڑے ، و ہ اس کے علاوہ ہیں۔ 1947ء سے 1971ء تک بھارت اور پاکستان ایک دوسرے کے سب سے بڑے ٹریڈ پارٹنر تھے۔ اس دوران پاکستان اپنی برآمدات کی 60فیصد ضروریات بھارت سے پوری کرتا تھا اور اسکی 30فیصد درآمدات کی مارکیٹ بھارت میں تھی۔ مودی حکومت کے اقدامات سے قبل 2017 ء میں ہی یہ شرح بمشکل ایک فیصد سے بھی کم ہو کر رہ گئی تھی۔ فروری میں 200فیصد ڈیوٹی عائد کرنے کے بعد پاکستانی اشیاء کی ترسیل کا حجم جو 45ملین ڈالر ماہانہ تھا، گھٹ کر دو ملین ڈالر ماہانہ رہ گیا ہے۔ رپورٹ کے مصنفین آفاق حسین اور نکیتا سنگھلانے بارڈر علاقوں کا دورہ کرنے کے بعد بتا یا ہے کہ امرتسر اور اس کے آس پاس کے علاقوںمیں بسنے والے 9354خاندان جو آسودہ حال زندگی بسر کر رہے تھے، اب بے حال ہو چکے ہیں۔ ان کے مطابق علاقے میں کئی بچوں کے نام اسکولوں سے خارج کر دیئے گئے ہیں ، کیونکہ ان کے والدین پچھلے کئی ماہ سے فیس بھرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ ان کی بھر پور زندگیوں کو ایک طرح سے بریک لگ گئے ہیں۔ ایک پورٹر نے ریسرچ ٹیم کو بتایا کہ وہ فروری سے قبل روزانہ 400روپے کماتا تھا، جس سے اسکی فیملی ایک اچھی زندگی بسر کر رہی تھی۔ اسکے چار بچے اچھے اسکولوں میں زیر تعلیم تھے۔ ان میں سے دو کو پرائیوٹ اسکولوں نے فیس ادا نہ کرنے پر خارج کردیا اور وہ اب سرکاری اسکول میں بھرتی ہو گئے ہیں۔ دیگر دو بچے ذہنی دبائو کا شکار ہوکر نشہ کی لت میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ بزرگ پورٹر نے بریف کی ٹیم کو بتایا کہ وہ بے بسی کی حالت میں اپنی فیملی اور بچوں کی کیفیت دیکھ کر کڑنے کے سوا کچھ نہیں کر پاتا ہے۔ اسی طرح امرتسر کے ایک اور رہائشی نے2016 ء میں بینک سے قرض لیکر تین ٹرک خریدے تھے۔ ان دنوں واہگہ پر جدید انٹگریٹڈ چیک پوسٹ زیر تعمیر تھا اور ان کو بتایا گیا تھا کہ اگلے چندبر سوں میں اس پوائنٹ پر تجارت کا حجم کئی گنا بڑھ جائیگا۔جب بینک میں قسطیں بھرنا مشکل ہو گئی تو اس نے دو ٹرک اونے پونے داموں بیچ دیئے۔ ٹرک یونین کے صدر کلوند ر سنگھ کا کہنا ہے کہ اب حالت یہ ہے کہ بینک بھی ٹرک واپس لینے سے منع کرتے ہیں۔ کئی افراد نے تو ٹرکوں کو ردی کے بھائو میں بیچ کر قرضے اتار ے ہیں۔ بھارت میں پاکستان کی چار اشیاء خشک کھجور، سینڈا یا معدنیاتی نمک، سیمنٹ اور جیپسم کی خاصی مانگ رہی ہے۔ پاکستانی خشک کھجور بھارت کی 99فیصد ضروریات پوری کرتا ہے۔ موجودہ 200فیصد ڈیوٹی کی صورت میں ایک 24ٹن لدے ٹرک کی قیمت 1600گنا زیادہ ہو گئی ہے۔ جس سے دہلی اور اسکے اطراف کی منڈیوں میں خشک کھجور کی قیمت 300گنا زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اس ریسرچ ٹیم کے بقول لدھیانہ کی کئی کتائی ملیں بندھ ہو گئی ہیں۔ ان کے مال کی کھپت ہی 300کلومیٹر دور بارڈر کے دوسری طرف فیصل آباد میں تھی۔ پچھلے سال فروری میں بالاکوٹ پر فضائی حملوں کے بعد جب پاکستان نے بھارت کیلئے فضائی راہداری بند کردی تو اسکے نتیجے میں بھارتی فضائیہ کمپنیوں کو 80ملین ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ بھارت کی نیشنل ایر لائنزایئر انڈیا سب سے زیادہ متاثر ہوئی اور اسکو 74ملین ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔ ایئرانڈیا کی روزانہ کی 21فلائٹس متاثر ہو گئیں۔ مجموعی طور پر روزانہ 400پروازوں کو پاکستانی فضائی حدود سے بچتے ہوئے ایران کی بھیڑ بری فضائی حدود میں پرواز کرتے ہوئے 450کلومیٹر اضافی اڑان بھرنی پڑی ۔ جس سے مسافروں کو کرایہ میں 20سے30ہزار روپے مزید بھرنے پڑے۔بھارت کے سابق سفار ت کار ارون سنگھ کے مطابق پاکستان کو سبق سکھانے کی نیت سے کئے گئے اقدامات کا جو اثر بارڈر پر رہنے والی آبادی اور تجارت پر پڑا ہے، اس کا ادراک کیا جانا چاہے تھا۔ اسی طرح کشمیر میں کور کمانڈر رہ چکے لیفٹیننٹ جنرل ستیش دواء کے مطابق بھارت اور پاکستان کے درمیان تنائو کا خمیازہ بہر حال بارڈر کے مکینوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ رپورٹ کے ایک خالق آفاق حسین کا کہنا ہے کہ سب سے بدقسمت فیصلہ لائن آف کنٹرول کو بند کرکے جموں و کشمیر کے دونوں اطراف کے مابین ٹریڈ کو بند کرنا تھا۔ ایک جائزے کے مطابق 11سال کے وقفہ کے دوران رخنوں کے باوجود کشمیر کے دونوں حصوں کے درمیان 75بلین ڈالر کی تجارت ہوئی تھی، جس سے 1,70,000روزگار دن مہیا ہو گئے تھے۔ مال برداری کے روپ میں بھی 9.2ملین ڈالر کی کمائی اس تجارت کے ذریعے ہوگئی تھی۔ بھارتی حکومت کی دلیل تھی کہ اس تجارت کی آڑ میں ملک دشمن عناصر اپنے مفادات کی تکمیل میں لگے ہوئے ہیں ۔ بھارتی وزارت داخلہ کے بیان کے مطابق اس تجارت کو عسکریت کو فنڈز فراہمی ،نشیلی ادویات کی تجارت، ہتھیاروں کی سپلائی اور جعلی کرنسی کے کاروبار کیلئے استعمال کیا جا رہا تھا۔ 2008ء میں امرناتھ یاترا ایجی ٹیشن اور جموں میں ہندو انتہاپسندوں کی طرف سے اقتصادی ناکہ بندی کے رد عمل میں کشمیری عوام اور تاجروں نے پارمپورہ اور سوپور کی منڈی سے ٹرکوں میں سوار ہو کر اوڑی کی طرف مارچ کیا تھا۔ یہ راہداری حریت کے سینئر قائد شیخ عبدالعزیز اور 64 دیگر افراد کے لہو اور قربانیوں کی دین ہے۔ اشد ضرورت ہے کہ چکوٹھی کی طرف شیخ صاحب کی یاد میں کوئی پوانٹ موسوم کیا جائے یا کوئی کتبہ لگایا جائے‘ جس میں شیخ صاحب اور اس لائن کو کھولنے کے مطالبے کو لے کر شہید ہونے والے افراد کے نام کندہ کروائے جائیں، تاکہ اگلی نسل تاریخ سے نابلد نہ رہے۔بقول آفاق حسین اگر کشمیر میں امید کی کرن کو روشن رکھنا ہے تو لائن آف کنٹرول موجود اس روشن دان کو کھولنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس کیلئے سفارتی سطح پر بھارت پر بین الاقوامی دبائو بنانا چاہئے۔