خاکم بدہن‘کیسے لکھوں کہ ریاست پاکستان کو خطرہ ہے۔ عزت و وقار تو خاک میں مل گیا، اب اس کی سلامتی کی دعا مانگو۔ یقین کیجیے یہ بات گزشتہ چند روز سے میں نے کئی زبانوں سے اپنے اپنے انداز میں‘ادا ہوتے سنی ہے۔ خدا ہماری حفاظت فرمائے۔ ہم نے بھی کچھ کرنا ہو گا۔ کبھی کوئی تصور کر سکتا تھا کہ پاکستان کی قومی فضائی کمپنی کا طیارہ اس طرح قرق کر لیا جائے گا کہ مسافر اس میں سوار ہوں گے اور وہ پرواز بھرنے کو تیار ہو گا کیا اس سے زیادہ ملک کی بے توقیری ہو سکتی ہے۔ پی آئی اے محض ہماری ایئر لائن ہی نہیں، ہم اس کے بارے میں اچھے دنوں میں کہا کرتے تھے کہ اسلام کے بعد مشرقی اور مغربی پاکستان کو کسی چیز نے ایک کر رکھا ہے تو وہ اردو زبان اور پی آئی اے ہے۔ ہم اسے قومی پرچم بردار کہا کرتے تھے۔ اس سے کچھ ایسا تصور ابھرتا تھا کہ یہ فضائوں میں پاکستانی پرچم لہرا کر ہماری عظمتوں کی علامت ہے۔ ہمیں فخر تھا کہ ہم دنیا کی کئی ایئر لائنوں کی مدد کرتے ہیں۔ امارات کی ایئر لائن ہم نے بنائی۔ اور جانے کتنی فضائی کمپنیاں تھیں جو ہماری معاونت سے چلتی تھیں۔ ہمیں اپنی مہارت اور معیار پر ناز تھا اور بھی بہت کچھ تھا اس ایئر لائن میں‘ مگر اس وقت میں اس کا رونا نہیں رو رہا پاکستان کی بے توقیری کا نوحہ پڑھ رہا ہوں۔ بہت دنوں سے سنتے آئے تھے کہ ہمارے خلاف اتنے مقدمات عالمی عدالتوں میں ہیں کہ کہیں بھی ہمارے اثاثے ضبط ہو سکتے ہیں،ہم سوچتے تھے کہ پہلے تو ہمارے اثاثے ہوں گے ہی کیا‘ پھر انہیں ضبط کرنے کی جرات کون کرے گا اور اس سے بھی پہلے یہ کہ ہم تو ایک مضبوط اور کھری کھوٹے کی پہچان کرنے والا ملک ہیں، ہمارا موقف درست ہوتا ہے ہمارے خلاف کوئی فیصلہ کرے گا ہی کیوں۔اب یوں برطانیہ کی ایک فرم براڈکاسٹ کے حوالے سے خبریں آنے لگی ہیں تو معلوم ہوا ہے کہ برطانیہ میں ہمارے سفارت خانے کے اکائونٹس عدالت کے حکم سے منجمد ہو چکے ہیں ہم نے اربوں وپے کا ہرجانہ دے کر عدالت کے اس حکم کو کالعدم کروایا، چلئے ملائشیا کے عدالتی نظام کو کچھ نہ کہیں‘ مگر برطانیہ کا نظام عدل تو بہترین گنا جاتا ہے۔ یہ خبر تو ہم نے دبا دی تھی۔ مگر اب جو اس کمپنی کے نمائندوں نے بولنا شروع کیا ہے تو بہت سے حقائق سامنے آنے لگے ہیں ہم نے جس کمپنی کو ہرجانہ ادا کیا ہے اس سے ہمارے نمائندے لین دین کرتے رہے ہیں، کمشن مانگتے رہے ہیں وہ کمیٹی بھی کمال کی ہے اس نے پاکستانی اثاثوں میں پاکستان کرکٹ ٹیم کو بھی شمار کیا، جو ان دنوں برطانیہ کا دورہ کر رہی تھی اور یہ درفنطنی بھی لایا کہ نواز شریف کے ایون فیلڈ والے اپارٹمنٹ بھی ضبط کئے جائیں کیونکہ پاکستان کی ایک عدالت نے نواز شریف کے اثاثے ضبط کرنے کا حکم دیا ہے، سو اب یہ حکومت پاکستان کے اثاثے ہوئے نا۔ بس اس سے جو باتیں سامنے آئیں تو ایک داستان طلسم ہوش ربا کھلتی گئی۔ اب سمجھ نہیں آتا کہ اس سارے معاملے میں پرویز مشرف کی حکومت کو ذمہ دار قرار دیں یا عمران خاں کے نمائندوں کو۔ یہی معلوم ہوتا ہے کہ کوئی حکومت نہیں ریاست پاکستان ایک تسلسل سے ایسی راہوں پر چل رہی تھی کہ اس کا ذمہ دار ریاست ہی کو قرار دیا جا سکتا ہے ،ابھی تو جانے کیا کچھ سامنے آئے گا۔انہونی باتوں کی کمی نہیں۔ کیا کبھی سوچا تھا کہ سعودی عرب ہم سے وہ رقم اچانک واپس مانگ لے گا جو اس نے ہمیں دے رکھی تھی، اور ہم اس کی ادائیگی کے لئے چین کے دروازے پر دستک دینے پر مجبور ہو جائیں گے۔اس کا اندازہ ہمیں اسی دن ہو جانا چاہیے تھا جب ہم سعودی طیارے پر بیٹھ کر امریکہ گئے تھے۔ ذرا غور کیجیے یہ مفت خوروں کے لئے ایک اشارہ تھا کہ ریاستیں ایسا نہیں کیا کرتیں۔ طیارہ ضبط ہو سکتا ہے اور قرض بھی واپس مانگا جا سکتا ہے، ہمارے سفارت خانے کا اکائونٹ منجمد ہو سکتا ہے۔ ہم ایسے ڈھیٹ ہیں کہ اس پر بھی کمشن مانگنے جا پہنچتے ہیں۔ کسی کو ملک کی عزت کا خیال تک نہیں اسے کہتے ہیں کہ ریاست ناکام ہو گئی ہے یا ریاست کو خطرہ ہے جو ماضی میں کبھی نہ تھا۔ جو لوگ نہیں مانتے تھے کہ یہ سب کچھ ہو سکتا ہے وہ ان سب باتوں کو ہوتا دیکھ سکتے ہیں۔ خدا کرے ہمارے ایٹمی اثاثے سلامت رہیں۔ لوگ ان کے بارے میں بہت تشویش کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ہم نے کہاں کہاں خرابیاں پھیلا رکھی ہیں، متحدہ عرب امارات ہمارے لئے کبھی کوئی خطرہ نہیں رہا۔ مگر جب سے ہم منگتے بنے ہیں‘ کاسۂ گدائی لئے ان کے سامنے کھڑے ہیں تو ہمیں سمجھ لینا چاہیے تھا کہ یہ تو ہونا تھا ہم نے معمولی سا قرضہ لینے کے لئے ان کی بہت خوشامد کی۔ یہاں کے ولی عہد کو رحیم یار کی شکارگاہ سے اسلام آباد لا کر سرکاری مہمان ظاہر کیا اور یہاں سے گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے ان کا استقبال کیا۔ ہم سمجھے تھے وہ ہمارے برادرانہ رویے پر خوش ہوں گے وہ مگر ہماری اوقات جان گئے۔ مشرق وسطیٰ کے ممالک پر ہمارے بھی بہت احسان ہیں یہ تصور بھی نہ تھا کہ وہ ہر بات بھول جائیں گے۔ ان کے سکیورٹی معاملات ہم سے متعلق رہے ہیں، ہو سکتا ہے اب بھی ہوں یا تو مشرق وسطیٰ کی ساری صورت حال بدل رہی ہے اور ان کو ہماری ضرورت نہیں رہی یا پھر انہیں احساس ہو گیا ہے ہمیں ان کی بہت ضرورت ہے۔ یا پھر مشرق وسطیٰ کا سارا نقشہ بدل گیا ہے اور ہمیں اس کی خبر ہی نہیں ہوئی اور خبر ہوئی بھی تو ہم اس کی سنگینی کا ادراک نہیں کر سکے۔ ان واقعات نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا،ساری عزت خاک میں ملا دی ہے۔ روز ہماری اس بے توقیری میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور ہمیں اندازہ ہی نہیں،ہم کیا کر رہے ہیں، ابھی تو ریکوڈک باقی ہے، جس پر جو جرمانہ ہمیں ہوا ہے۔ ریاست پاکستان اسے ادا کرنے کی متحمل ہی نہیں ہو سکتی۔ رینٹل پاور والے مقدمے نے ترکی نے ہماری عزت رکھ لی۔ مگر آخر کب تک ہمارا رویہ ترکی کے ساتھ بھی مثالی نہیں ہے۔ مثالی تو ایک طرف معمول کے مطابق بھی نہیں ہے، ہمیں تو ایک ہی دھن ہے جس کسی کے پہلی حکومت سے تعلقات اچھے تھے وہ ہمارا دوست نہیں ہو سکتا۔ اس رٹ کو اب بس کیجیے۔ ورنہ ہم کہیں کے نہ رہیں گے اس ملک کو کسی ایک شخص یا ایک حکومت کی ہٹ دھرمی اور انا پرستی پر قربان نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ملک بہت قیمتی ہے اس پر ہزار قربان کئے جا سکتے ہیں۔ ہم نے آدھا ملک گنوایا پھر بھی نہیں سمجھے۔ حالات اس بات کا تقاضا کرتے تھے کہ ہم اپنے رویوں پر نظرثانی کریں۔ آج بھی وہی پرانی بحث ہے کہ ملک کو آئین کے مطابق چلایا جائے۔ آئین کو ہم نے بالائے طاق رکھ کر خالص مصنوعی طریق حکمرانی اپنا رکھا ہے جو ملک آئین پاکستان کے تحت نہیں جا رہا‘ وہ پاکستان نہیں ہے اسے ہم اسلامی جمہوریہ کیا‘ جمہوریہ پاکستان بھی نہیں کہہ سکتے۔ عوام کے منتخب نمائندے بھی آہستہ آہستہ اپنا اعتبار کھوئے جا رہے ہیں۔ نتیجہ اداروں کو مضبوط کرنے کی دھن میں ہم ملک کو کمزور کر رہے ہیں۔ ملک تب مضبوط ہو گا جب یہاں اداروں کی مضبوطی یا بالادستی کی جنگ ختم ہو گی اور ہماری کوشش ملک کو مضبوط کرنے میں صرف ہو گی۔ ہم پہلے ہی بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔پہلے تو اس کا مطلب تھا کہ اپنی صلاحیتوں سے کہیں کم کام کر سکتے ہیں اب مگر اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس سے بھی کم کام کر رہے ہیں۔زندہ رہنے کے لئے ضروری ہے۔ اس میں ملک کی سلامتی اسی ایک نکتہ کو سمجھنے میں پوشیدہ ہے۔