ایک بڑا درد سر ہماری وہ دو نسلیں ہیں جن میں سے ایک سوشل میڈیا کے دور میں بالغ ہوئی ہے اور دوسری اس سے ذرا قبل سوشل میڈیا کے دور میں۔ بالغ ہونے والی نسل کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ یہ جس سوشل میڈیا پر اتراتی ہے اس نے اپنی کوئی جگہ تخلیق نہیں کی بلکہ کتاب کی جگہ لی ہے۔ چنانچہ اس نسل کو کسی غیر نصابی کتاب کا لمس ہی نصیب نہیں۔ اس نسل کے کسی نمائندے سے جب بھی ملاقات ہوئی اور بات پڑھنے پڑھانے کی چل نکلی تو استفسار پر اپنے پسندیدہ رائٹر جب بھی بتائے فیس بک کے ہی بتائے۔ نتیجہ یہ کہ ہر بار جی ہی جی میں لاحول پڑھنے پر مجبور ہونا پڑا۔ پھر اس نسل سے ذرا سینئر وہ نسل ہے جو نائین الیون کے آس پاس بالغ ہوئی۔ یہ آخری نسل ہے جسے کسی غیر نصابی کتاب سے مناسبت رہی مگر بدقسمتی دیکھئے یہ مناسبت فکشن سے آگے نہ بڑھ سکی۔ چنانچہ اس نسل سے جب کتاب کی بات کی جائے تو مقامی و غیر مقامی ملا کر کل چھ ناول نگاروں کے سوا ان سے کسی مصنف کا حوالہ حرام ہے جو ملتا ہو۔ ٹالسٹائی، گارسیا مارکیز، پبلو نرودا، قرۃالعین، عبداللہ حسین اور شمس الرحمن فاروقی ان کا کل سرمایہ ہے اور اس نسل کا خیال ہے کہ یہ جو دنیا بھر کی لائبریریوں میں لاکھوں کتب پڑی ہیں یہ سب فکشن ہی ہے۔ لھذا اگر انہوں نے تین مقامی اور تین غیر مقامی بہترین ناول نگاروں کو پڑھ رکھا ہے تو یہی غیر معمولی کارنامہ بہت ہے۔ یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں مزید کچھ پڑھنے کی ضرورت ہی نہیں۔ کہنے کو کہا جاسکتا ہے کہ بھئی اگر وہ ایسا سمجھتے ہیں تو حرج ہی کیا ہے ؟ بولنے کی طرح سمجھنے کی بھی آزادی ہے، سو کوئی کچھ بھی سمجھتا ہے سمجھنے دیجئے۔ صدمہ یہیں سے تو جنم لے رہا ہے کہ سمجھنے کی طرح بولنے کی بھی آزادی ہے۔ نتیجہ اس کا یہ ہے کہ مطالعہ اس نسل کا فقط فکشن کا ہے اور رائے زنی یہ تاریخی و علمی موضوعات پر کرتی ہے۔ چنانچہ ان کے سوشل میڈیا وال پر وہ وہ شگوفے پڑھنے اور سننے کو ملتے ہیں کہ بندہ سر پیٹنے پر مجبور۔ ان شگوفوں کا بھی موضوعات کے لحاظ سے سیزن چلتا ہے۔ مثلا کچھ عرصہ قبل تک "عدلیہ کی آزادی" ہاٹ کیک تھا۔ اور مزے کی بات یہ کہ جب عدالتی فیصلوں میں ناولز کے حوالے آنے لگے تو سوشل میڈیا پر نائین الیون کے آس پاس بالغ ہونے والی نسل میں یہ ثابت کرنے کا مقابلہ چل پڑا کہ کس نے ماریو پوزو کو زیادہ توجہ اور انہماک سے پڑھ رکھا ہے۔ اور ثابت یہاں تک کیا گیا کہ وہ گاڈ فادر سے ججز سے بھی زیادہ حوالے دینے کی اہلیت رکھتے ہیں لھذا انہیں بھی "ماہر قانون" ہی سمجھا جائے۔ عدلیہ کی آزادی کے بعد سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی "ووٹ کو عزت دو" تحریک سوشل میڈیا پر مقبول ہوئی تو یہ فکشن گزیدہ مخلوق اس دعوے کے ساتھ سامنے آگئی کہ ووٹ کو بالکل ویسی ہی عزت دو جیسی امریکہ میں ہے۔ اب انہیں کون سمجھاتا کہ امریکہ میں ووٹ کی عزت ہوتی تو بیلٹ بکس سے ڈونلڈ ٹرمپ برآمد ہوتا ؟ امریکی تو خود اپنے ووٹ کی عزت روسیوں کے ہاتھوں پائمال بتاتے ہیں۔ ایسے ہی ایک "نابالغ دانشور" ملنے آئے اور دوران گفتگو انہیں امریکی ووٹ کی عزت کا مذکورہ حوالہ دیا تو ذہانت کا بھرپور مظاہرہ فرماتے ہوئے گویا ہوئے، مدر آف ڈیموکریسی تو برطانیہ ہے اور وہاں ووٹ کو اتنی تکریم حاصل ہے کہ کئی پاکستانی بھی ایم پی منتخب ہوجاتے ہیں لھذا امریکہ سے زیادہ برطانیہ کا حوالہ معتبر ہے۔ عرض کیا برطانیہ میں بھی کچھ ہی عرصہ قبل جرنیل خبردار کرچکے کہ اگر اپوزیشن لیڈر جرمی کوربن انتخاب جیتے تو وہ اس نتیجے کو قبول نہیں کریں گے۔ چونکہ یہ عظیم صداقت کسی ناول میں تو شائع ہوئی نہیں چنانچہ وہ برخوردار اس سے آگاہ ہی نہ تھے۔ اور یہی نہیں بلکہ اس بات سے بھی بے خبر تھے کہ افغانستان میں تعینات برٹش فوجیوں کی ایسی ویڈیو بھی وائرل ہوچکی جس میں وہ اپنے اپوزیشن لیڈر کی تصویر پر نشانہ بازی کرتے نظر آرہے ہیں۔آج کل سوشل میڈیا پر ان دونوں نسلوں کے ہر دوسرے نمائندے کی وال پر ایک اور جملے کی ہوا چلی ہوئی ہے۔ یہ جملہ ہے۔ "ہم 1971ء کی تاریخ دہرانے کی غلطی کر رہے ہیں" یہ اور اس سے ملتے جلتے اسی مفہوم کے ان جملوں کے ذریعے نئی نسل کے فکشن گزیدہ نمائندے درحقیقت ملک کے ٹوٹنے کا امکان ظاہر کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے ایسا یہ اس لئے کر رہے ہیں کہ انہیں لگتا ہے ایک ملک کے بطن سے دوسرا ملک یوں ہی وجود میں آجاتا ہے کہ ایک گروہ اٹھ کر بغاوت کا اعلان کر دیتا ہے اور پھر اس کی "جدوجہد" کے نتیجے میں ایک نئی ریاست وجود میں آجاتی ہے۔ اس ضمن میں ایک دلچسپ تضاد دیکھئے کہ جب علی وزیر اور محسن داوڑ کی جانب باغیانہ روش منسوب کی جاتی ہے تو یہی فکشن گزیدہ نسل کہتی ہے "ایسا ہرگز نہیں ہے، یہ سب جھوٹ ہے" بھئی اگر یہ جھوٹ ہے تو پھر آپ 1971ء کا حوالہ کیوں دے رہے ہیں ؟ دوسری اور سب سے اہم بات یہ کہ دنیا میں آخر ایسی کونسی ریاست ہے جسے کسی باغی گروہ نے تن تنہا وجود بخشا ہو ؟ کیا کوریا کی تقسیم کسی باغی گروہ کا کارنامہ ہے ؟ کیا جرمنی بھی دو حصوں میں کسی باغی گروہ کی جدوجہد کے نتیجے میں بٹا تھا ؟ کیا ایسٹ تیمور داخلی ہاتھ کا کارنامہ ہے ؟ کیا بوسینیا داخلی جدوجہد کے نتیجے میں وجود میں آیا ؟ کیا اسرائیل بس یوں بن گیا کہ کچھ یہودیوں نے مسلمانوں سے بغاوت کرلی ؟ کیا سوویت یونین کے 19 ٹکڑے کسی داخلی بغاوت کا نتیجہ تھے ؟ اور کیا سانحہ مشرقی پاکستان بھی بس بنگالیوں کی بغاوت کا حاصل تھا ؟ ہماری یہ فکشن گزیدہ نسل یہ جانتی ہی نہیں کہ ریاستیں عالمی طاقتوں کی سازشوں کے نتیجے میں بنتی اور ٹوٹتی ہیں۔ جب عالمی طاقتوں کی سرپرستی حاصل ہو تو پلک جھپکتے ایسٹ تیمور وجود میں آجاتا ہے۔ اور عالمی طاقتوں کی سرپرستی میسر نہ ہو تو کشمیری زمانوں سے غلام چلے آتے ہیں۔ دس فیصد کشمیری بھی ایسے نہیں جو بھارت کے ساتھ رہنے پر آمادہ ہوں۔ پوری وادی پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونجتی ہے اور سبز ہلالی پرچم لہرانا تو وہاں عام معمول ہے۔ لیکن چونکہ عالمی طاقتوں کا مفاد بھارت سے وابستہ ہے سو کشمیر آج بھی بھارت کے شکنجے میں ہے۔ اب یا تو فکشن گزیدہ نسل اس حقیقت سے بے خبر ہے کہ ریاستیں بغاوتوں کے نتیجے میں نہیں بلکہ باغیوں کے عالمی سرپرستوں کے ہاتھوں ٹوٹتی ہیں یا پھر یہ نسل تسلیم کر رہی ہے کہ پی ٹی ایم کے پیچھے کوئی علاقائی یا عالمی طاقت موجود ہے۔ اگر پہلی صورت ہے تو جہل ہے۔ اور دوسری صورت ہے تو ریاستی اداروں کے دعوے کی تصدیق ہے !