ایک معاصر میں چھپنے والی خبر کے مطابق معاشی ماہرین نے حیرت ظاہر کی ہے کہ سٹیٹ بنک نے نئی پالیسی میں سود کی شرح کم کیوں نہیں کی۔ یہ شرح پہلے ہی خطے بھر میں سب سے زیادہ ہے اور اس کی وجہ سے حالات خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ خطے بھر ہی میں نہیں، پاکستان کی تاریخ میں بھی اتنی زیادہ شرح ایک ریکارڈ ہے اور احباب کے غور فرمانے کا ایک مقام ہے کہ جن ادوار میں یہ شرح کم تھی تو ہمارے محب وطن اور نیکوکار تجزیہ نگار دہائی دیا کرتے تھے کہ حکمران سود ختم نہ کر کے خدا رسول سے جنگ کر رہے ہیں اور یہ کہ یہ سود پرست حکمران غزوہ ہند میں رکاوٹ ہیں اور پھر جب تبدیلی سرکار نے شرح سود ریکارڈ حد تک بڑھا دی تو ان نیکو کار ہستیوں کے دل پر کیسی طمانیت اور سکنیت نازل ہو گئی۔ آج کل یہ ہمیں بتا رہے ہیں کہ ریاست مدینہ قائم ہو رہی ہے۔ خیر، اس داستان کو چھوڑئیے۔ ایک اور کہانی، بالکل سچی پیش ہے۔ سود کی عالمگیریت نے لگ بھگ ستر سال پہلے اپنے پر پرزے نکالنے اور پھیلانے شروع کیے تو ایک جرمن ماہراقتصادیات Hjalmar Schachtنے خبردار کیا کہ بہت جلد ساری دنیا کی دولت چند گھرانوں میں سمٹ آئے گی۔ اس نے کہا کہ سود لینے والے کو کبھی گھاٹا نہیں ہوتا جبکہ دینے والے(مقروض) کو فائدہ بھی ہوتا ہے اور گھاٹا بھی، چنانچہ لازم ہے کہ ساری دولت محدود گنتی کے لوگوںمیں مرتکز ہو جائے۔ پھر یہی ہوا اور کارپوریٹ کلچر کے بعد عالمی سودی سرمایہ داری اور بھی مضبوط ہو گئی ہے۔ عالمی سطح پر بھی اور انفرادی ملکی سطح پر بھی۔ پاکستان میں ’’ارتکاز‘‘ کا ایجنڈاایوب خان نے شروع کیا اور ملکی دولت بائیس گھرانوں میں مرتکز کر دی۔ پھر پرویز مشرف اور شوکت عزیز نے اس کار خیر کو آگے بڑھایا، اب دولت چند سو گھرانوں میں آ گئی اور ان کے نیچے کئی ہزار رئیس گھرانے اور بھی جو کھرب پتی نہیں تھے لیکن ارب پتی تھے۔ ان کے نیچے متوسط کلاس کمزور پڑنے لگی۔ مشرف شوکت عزیز کے بعد حالات میں ٹھہرائو آیا اور پھر تبدیلی سرکار آ گئی۔ اس نے اس ایجنڈے کو آگے بڑھایا لیکن شاید غیر مناسب جلد بازی کے ساتھ جس کی وجہ سے بہت کچھ درہم برہم ہو گیا۔ سب کے سامنے کی بات ہے کہ پاکستان کے کارپوریٹ سیکٹر نے جمہوری حکومت کیخلاف ایک جماعت کو کھڑا کیا اور اس پر بھاری سرمایہ کاری کی۔ اندرون ملک سے بھی اور بیرون ملک سے بھی۔ اس سیکٹر کے لوگ سڑکوں پر نہیں آتے لیکن پاکستان میں ان کی بے قراری اتنی زیادہ ہو گئی کہ یہ لوگ سڑکوں پر آ گئے۔ 2014ء کے دھرنے میں ان کی شرکت تھی، پھر ہر جلسے میں اور اڈہ پلاٹ کے جلسے میں تو بہت ہی بھرپور۔ ’’مراعات یافتہ‘‘ گاڑیوں کا ایک بھی جگہ اتنا ہجوم تھا کہ دنیا میں کہیں اور نہیں دیکھا گیا۔ کروڑوں روپے قیمت والی گاڑیوں کی ختم نہ ہونے والی قطاروں نے عقل دنگ کر کے رکھ دی۔ آج ہر شخص معاشی بربادی کا رونا رو رہا ہے لیکن ملاحظہ فرمائیے، کارپوریٹ ہستیاں بتا رہی ہیں کہ ایوب خان کے بعد پہلی بار معیشت درست پٹڑی پر چڑھ گئی ہے اور کیا کھلی نشانی چاہئے دولت کے ارتکاز اور غریب و متوسط طبقے کو نادار سے نادار تر کرنے کے لیے حکومت نے آتے ہی برق رفتار اقدامات کیے۔ آٹھ روپے یونٹ والی بجلی بائیس روپے کی کر دی۔ گیس تین سو فیصد مہنگی کر دی۔ اتنے زیادہ ٹیکس لگائے کہ لوگوں کی چیخیں نکل گئیں۔ جھگی، جھونپڑا گرائو، ٹھیلا اٹھائو مہم چلی، مکان مسمار کیے، روزگار چھینو کی مہم کامیابی سے چلائی گئی اور اب بھی چل رہی ہے۔ ٭٭٭٭٭ وزیر اعلیٰ پنجاب کا اعلان آیا ہے کہ مصنوعی مہنگائی برداشت نہیں کی جائے گی۔ مصنوعی یعنی دو نمبر مہنگائی۔ ایک نمبر کی مہنگائی خود حکومت نے برپا کر دی تو ظاہر ہے، مصنوعی مہنگائی برداشت کرنے کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے لیکن ایک بات پر وزیر اعلیٰ نے غور بھی کیا کہ مصنوعی مہنگائی اب ممکن ہی نہیں۔ یہ تب ہوتی ہے جب خریدار زیادہ ہوں اور انہیں بلیک میل کرنا ممکن ہو۔ خریداروں کی جیب سے پیسے تو حکومت نے اصلی مہنگائی کر کے نکلوا لئے چنانچہ خالی جیب والے اب خریداروں سے گریزاں ہیں۔ دکاندار مال لیے بیٹھے ہیں اور سستا دینے کو بھی تیار ہیں کوئی لینے والا ہی نہیں۔ بات اشیائے ضروریہ تک آ گئی ہے، پیاز، ٹماٹر، آٹا، چینی کچھ بھی تو دسترس میں نہیں رہا۔ ٭٭٭٭٭ مہنگائی کا ذکر چند روز وزیر اعظم نے بھی کیا اور اسے سازش کہا۔ سازشی ٹولے کا نام انہوں نے نہیں لیا۔ بتا دیتے تو اچھا تھا کہ دیکھو، یہ ہے وہ سازشی ٹولہ جس نے بجلی گیس کئی گنا مہنگی کر دی،چینی کی قیمت 48روپے سے ستر پچھتر روپے تک پہنچا دی۔ جس نے سارے یوٹیلیٹی بلز بڑھا دیئے۔ عالمی منڈی کا سستا تیل مہنگا کر دیا، دوائوں کی قیمت میں چار سو فیصد اضافہ کر دیا۔ ہسپتالوں کی مفت سہولیات ختم کر کے انہیں جیب کتروں کے سپرد کر دیا۔ بتا دیتے تو اچھا تھا۔ ٭٭٭٭٭ وزیر اعظم نے تجارتی خسارے میں کمی پر خوشی ظاہر کی ہے۔ کیسی کمی؟ کارخانوں میں استعمال ہونے والے خام مال کی درآمد جبری روک کر یہ کمی حاصل کی گئی، نتیجہ بے روزگاری اور مہنگائی میں براہِ راست اضافہ، کمی کا کچھ ہدف مڈل کلاس کی قوت خرید کم یا ختم کر کے پورا کیا گیا۔یہ فائدہ ہے یا گھاٹے کا سودا، گھاٹا بھی بہت بڑا اور بہت دور رس۔