تحریک انصاف کے مخالفین کی امیدوں کا مرکز اب ریحام خان کی کتاب بن چکی ہے۔ مارکیٹ میں آئے گی تو نہ صرف دھوم مچائے گی بلکہ تحریک انصاف والے منہ چھپاتے پھریں گے۔کتاب کی تقریب رونمائی کی منصوبہ بندی اس طرح کی گئی کہ وہ الیکشن میں موضوع بحث بن سکے ۔عمران خان کے حامیوں کو مایوس ہی نہیں بلکہ شرمندہ کردے۔ کتاب تو آیا ہی چاہتی ہے لیکن کیا یہ کتاب رائے عامہ کو متاثر اور تحریک انصاف کے حامیوں کے اعصاب شل کرپائے گی یا یہ بھی ایک مشق لاحاصل ہی ہوگی۔ لیڈروں اور سیاسی جماعتوں کے درمیان دشنام طرازی اور ایک دوسرے کو گندا کرنے کاروبار ہر دور میں رواں دواںرہا۔ستر کی دہائی میں پیپلزپارٹی کے اخبار مساوات میں مولانا مودودی کی تصویر ایک اداکارہ کے دھڑپر لگا کر چھاپ دی گئی تھی۔ مولانا کے حامی بہت سیخ پا ہوئے ۔ مولانا مودودی نے انہیں اینٹ کا جواب پتھر سے دینے سے منع کردیا۔پیپلزپارٹی نے اپنے مخالفین کی کردار کشی کے لیے مولانا کوثر نیازی مرحوم کی قیادت میں ایک پورا لشکر جمع کررکھاتھا۔ مساوات اخبار ان کا ترجمان تھا جو مخالفین کی خوب بھد اڑاتاتھا۔پروپیگنڈا اور جوابی پروپیگنڈا ہی سیاست کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ کردار کشی کے فن کو جنرل ضیا ء الحق نے باقاعدہ ایک صنعت کا درجہ دیا۔ ان کے سیکرٹری اطلاعات میجرجنرل مجیب الرحمان مشاق پروپیگنڈہ باز نفسیاتی جنگ کے ماہر تھے۔ انہوں نے چن چن کر ایسے لکھاریوں اور صحافیوں کو اپنے گرد جمع کیا جو ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے ڈسے ہوئے تھے۔ پیپلزپارٹی کے ظلم کی وہ وہ دستانیں گھڑی اور سنائیں کہ ہلاکو خان کی یاد تازہ ہوگئی۔ دروغ گوئی، ترغیب و تحریص اور افواہ سازی کو نوے کی دہائی میں زبردست عروج حاصل ہوا۔ اسلامی جمہوری اتحاد کے تشکیل پانے کا محرک ہی پیپلزپارٹی کا راستہ روکنا تھا۔ حسین حقانی کی قیادت میں صحافیوں اور دانشوروں کی ایک بہت بڑی ٹیم پیپلزپارٹی کے مقابلے کے لیے میدان میں اتاری گئی۔مال مفت دل بے رحم۔ وسائل کی کوئی کمی نہ تھی۔ نوازشریف وزیراعلیٰ پنجاب تھے انہوں نے سرکاری خزانے کے منہ کھول دیئے۔ پی پی پی مخالف اداروں نے بھی دل کھول کر اس’’کارخیر‘ میں حصہ ڈالا۔جنرل (ر)اسد درانی سپریم کورٹ میں آج تک یہ مقدمے بھگت رہے ہیں۔ عمران خان سیاست میں ابھی نووارد ہی تھے کہ نون لیگ نے خطرہ بھانپ لیا۔انہیں لگا کہ عمران کی طلسماتی شخصیت اور کرکٹ ورلڈ کیپ کافاتح ہونا ان کے روایتی حلقے انتخاب میں سرنگ لگا سکتاہے۔ خان جہاں جاتالوگوں کا ہجوم اکٹھا ہوجاتا۔ عمران خان نے روز اوّل سے تبدیلی اور عام لوگوں پر مالی وسائل خرچ کرنے جیسے دلفریب نعروں کو اپنایا۔ گفتگو میں وہ ابتدائی دنوں میں زیادہ تاک نہ تھا ‘ اس کے باوجود لوگ اسے توجہ سے سنتے۔ وہ ان کا ہیرو تھا جو شوکت خانم ہسپتال بنا کر خدمت خلق کے میدان میں بھی اپنا سکہ جما چکاتھا۔ شوکت خانم کینسر ہسپتال کی امداد کے لیے شہریوں نے دل کھول کر عطیات دیئے۔ نون لیگ کے عبقریوں نے عمران خان کے خلاف بھی وہی ٹیم میدان میں اتاری جس نے پیپلزپارٹی کو غیر مقبول اور غیر معتبر بنانے میں اپنا لوہا منوایا تھا۔ جمائما خان سے شادی عمران خان کی سیاست کے لیے سم قاتل ثابت ہوئی۔ اسے یہودیوں کا داماد کہا گیا۔ میاں بیوی کی تصویریں اچھالیں گی۔خان کی ناجائز اولاد کا مقدمہ امریکہ کی ایک عدالت میں چلا۔ کہتے ہیں کہ اس مقدمے کے اخراجات بھی پاکستان کے خزانے سے ادا کیے گئے۔ گزشتہ الیکشن میں مولانا فضل الرحمان نے عمران خان کا خوب تعاقب کیا۔ مولانا کی سیاست کا مرکز او رمحور رد عمران خان کے سوا کچھ نہ تھا۔الیکشن کے نتائج آئے تو تحریک انصاف نہ صرف صوبے میں حکومت بنانے میں کامیا ب ہوگئی بلکہ پانچ سال تک ڈٹ کر حکومت کی۔ یہ داستان بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ سیاست میں ایک عصبیت پیدا ہوجاتی ہے۔جسے سیاسی عصبیت کہاجاتاہے۔لوگ اپنے لیڈروں اور جماعتوں کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں وہ ان کی پوجا کرنے لگتے ہیں۔وہ اکثر درست الزامات کو بھی تسلیم نہیں کرتے بلکہ انہیں وہ مخالفین کا پروپیگنڈہ قراردے کر رد کردیتے ہیں۔عمرا ن خان کو لوگوں نے تمام ترخامیوں اور کمزوریوں کے ساتھ قبول کیا ہے۔جو باتیں ریحام خان نے کتاب میں لکھی ہیں وہ پہلے ہی زباں زدعام ہیں۔ عمران خان کی حمایت میں جو مضبوط دلیل دی جاتی ہے وہ ان کے مالی معاملات میں مضبوط کردار کا ہونا ،ملکی ترقی اور خوشحالی کے لیے ان کا ویژن ہے۔ ریحام خان کی کتاب میں کوئی ایسی گیڈر سنگھی نہیں ہوسکتی جو تحریک انصاف کو عوامی سطح پر بے سہارا یا مقتدر اداروں کی نظر میں بے وقعت کردے۔ ایک باخبر دوست نے بتایا کہ ریحام خان نے عمران خان کے ایرانی لابی سے تعلقات کو بڑا چڑھا کر لکھا ہے۔ مقصد عربوں، امریکیوں اور عسکری اداروں کو ان کے خلاف سرگرم کرنا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ ایران کے ساتھ قریبی تعلقات رکھنے والی شخصیات اور اداروں کے بارے میں کافی حساس ہے۔ وہ پاکستان کے اندر ایران کا اثر ورسوخ کم کرنے کی کوششوں میں لگی رہتی ہے کیونکہ ایران اپنے حامیوں کو پاکستان کی خارجی اور داخلی پالیسیوں کو اپنے ڈھب کے مطابق ڈھالنے کے لیے استعمال کرتاہے۔ یہ بھی کہاجاتاہے کہ تحریک انصاف کے اندر قادیانی لابی کے اثر و رسوخ کے بارے میں ریحام خان نے دبے لفظوں میںکچھ انکشافات کیے ہیں۔ اس نوعیت کے الزامات پہلے بھی سننے کو ملے ہیں۔ عمران خان نے اس طرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے مولانا سمیع الحق اور ان کی قبیل کے کئی ایک علماء کو ساتھ ملا رکھا ہے۔ جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کو بھاری مالی امداد دینے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ مذہب کی بنیاد پر اٹھنے والے مخالفانہ پروپیگنڈے کا توڑ کیاجاسکے۔ پاکستان جیسے معاشرے میں جہاں کم شرح تعلیم ، معاشی اور ذہنی پسماندگی کی سطح انتہائی پست ہے وہاں کتابیں محض امراء کے ڈرائنگ روموں میں زیر بحث آتی ہیں۔عصرحاضر میں غلط اور نامکمل اطلاعات کا ایک سونامی آیاہوا ہے۔ سوشل میڈیا اس کی ایک بدترین مثال پیش کرتاہے جہاں ہر شخص نے اپنی مرضی کا اخبار اور ٹی وی چینل کھولا ہوا اور بلاکسی خوف کے اطلاعات پھیلائے جارہاہے۔تحریک انصاف کا سوشل میڈیا جوابی پروپیگنڈے وار میں یکتاہے۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف کو نقصان مخالفین کم اور اس کی کمزور تنظیم زیادہ پہنچارہی ہے۔ یہ حقیقت بارہا آشکار ہوچکی ہے کہ تحریک انصاف کی مرکزی اور صوبائی تنظیمیں کمزور ہی نہیں بلکہ بعض اوقات لگتاہے کہ سیاسی سوج بوجھ سے بھی عاری ہیں۔ الیکٹ ایبلز کی پارٹی کے پاس کوئی کمی نہیں لیکن الیکشن جیتنے کے لیے جس حکمت عملی اور میڈیا اسٹرٹیجی کی ضرور ت ہے وہ تحریک انصاف کے قریب سے بھی نہیں گزری۔ جذباتی اور مناظرہ باز لیڈروں کا ایک ہجوم عمران خان کے اردگر د جمع ہے جو د ن بھر سمارٹ فونز کے ذریعے گلی محلے کی سیاست اور بنی گالہ کا طواف کرتارہتاہے۔ مکرر عرض ہے کہ الیکشن میں نون لیگ کا مقابلہ کوئی خالہ جی کا گھر نہیں۔ خاص طور پر پنجاب میں کسی بڑی تبدیلی کا امکان کم نظر آتاہے۔ رائے عامہ کی سطح پر جو لہر تحریک انصاف کے حق میں اٹھنی چاہیے تھے ابھی تک کم ازکم پنجاب میں نظر نہیں آتی۔ نوازشریف اور مریم نواز کا بیانیہ بک رہاہے ۔ لوگ اس رائے کو قبول نہیں کررہے کہ انہیں پاناما کی سزادی گئی ۔وہ اسے ملٹری سویلین کشمکش کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔تحریک انصاف کی سیاست اور عدالتی طرز عمل اس تاثر کو ہر روز تقویت فراہم کرتاہے۔