معزز قارئین!۔ مَیں اپنی کوتاہی پر معذرت خواہ ہُوں کہ ’’ مَیں چھوٹے بھائیوں جیسے اپنے دوست نامور صحافی رحمت علی رازی کے انتقال پر ، 11 دِن بعد (تحریری طور پر ) اُسے یاد کر رہا ہُوں ۔ برادرِ عزیز ہارون اُلرشید نے تو 16 جون ہی کو اپنے جذبات کو لفظوں کی شکل دے کر اپنے اور رحمت علی رازی کے لا تعداد چاہنے والوں کو پُرسہ دے دِیا تھا ۔ مَیں بھی اپنے سے تقریباً 20 سال چھوٹے دوست کے ’’ پار دیس‘‘ (پردیس بلکہ اصل دیس ) جانے پر بہت اُداس ہوگیا ہُوں ۔ یہ فیصلہ اللہ تعالیٰ کا تھا کہ ’’ حضرت نوح ؑ 950ء سال تک زندہ رہے لیکن، حضرت عیسیٰ ؑصِرف 33 سال کی عُمر میں عالمِ بالا میں چلے گئے۔ 3 سال تک نبوت کی پھر اُن کے مخالفین اُنہیں سُولی تک لے گئے ۔میری رحمت علی رازی سے 1972ء سے واقفیت ہُوئی اور پھر دوستی ہوگئی ۔ 11 جولائی 1973ء کو مَیں نے لاہور سے اپنا روزنامہ ’’ سیاست‘‘ جاری کِیا تو، اُس کے بانی ارکان میں جنابِ مجید نظامی کے انگریزی روزنامہ "The Nation" کے موجودہ ایڈیٹر سیّد سلیم بخاری نیوز ایڈیٹر تھے ، رحمت علی رازی سٹاف رپورٹر اور دوسرے کئی اصحاب جنہوں نے بعد میں اپنے اپنے مقام پر ناموری حاصل کی ۔رحمت علی رازی بھی اُن میں سے ایک تھا / ہے ۔ مَیں نے اپنے ایک کالم میں لکھا کہ ’’ ہندوستان پر قابض انگریزی حکومت نے علاّمہ اقبالؒ کو ۔’’SIR‘‘ کا خطاب دینا چاہا تو اُنہوں نے لِکھا کہ ۔ ’’ مَیں یہ خطاب قبول کرلوں گا لیکن ، اُس سے پہلے حکومت کو میرے ۔’’پرائمری کے اُستاد ‘‘ ۔ مِیر حسن کو۔ ’’ شمس اُلعماء ‘‘ ۔کا خطاب دینا ہوگا‘‘۔ انگریز حکومت نے ایسا ہی کِیا‘‘۔ مَیںنے لِکھا کہ ۔’’میرے شاگرد سیّد سلیم بخاری نے مجھے کئی بار ۔ ’’ شمس اُلعماء ‘‘ ۔ کا خطاب دِلوایا ہے‘‘۔ سیّد سلیم بخاری کی مسلسل ترقی اور عزّت پر فخر کرتے ہُوئے مَیں نے اپنے کالم میں اُسے مخاطب کرتے ہُوئے کسی فلمی شاعر کا مُکھڑا (مطلع) لکھا تھا کہ … ’’ آسمانوں کو تُم دیکھو، اور مَیں تمہیں دیکھتے ہُوئے دیکھوں! …O… رحمت علی رازی کے لئے بھی میرے ہمیشہ یہی جذبات رہے ہیں ۔ جب ، ہم ایک دوسرے سے جپھّی ڈال رہے ہوتے تو، ہمارے کئی مشترکہ دوست بہت خُوش ہوتے۔ اپنے46 سالہ صحافتی سفر میں رحمت علی رازی نے ’’پنجاب یونین آف جرنلسٹس ‘‘اخباری مالکان کی تنظیم "A.P.N.S" اور ایڈیٹرز کی تنظیم "C.P.N.E" میں کئی کار ہائے نمایاں انجام دئیے 23 مارچ 2000ء کو اُنہیں ’’صدارتی تمغہ برائے حُسنِ کارکردگی ‘‘ سے بھی نوازا گیا۔ مَیں جہاں بھی رہا ، قریب یا دُور رحمت علی رازی کے ساتھ رہا اور رحمت علی رازی میرے ساتھ۔ بقول شاعر … مَیںاُن کے دِل کی سمجھتا ہُوں ، وہ میرے دِل کی! پیام آئے نہ آئے، نظر مِلے نہ مِلے! 1994ء میں رحمت علی رازی کی انفارمیشن گروپ کے سینئر رُکن ( موجودہ چیئرمین پیمرا ) پروفیسر مرزا محمد سلیم بیگ سے دوستی ہُوئی تو، رازی سے میری دوستی ’’دو آتشہ ‘‘ ہوگئی ۔ پروفیسر مرزا محمد سلیم بیگ تحریک پاکستان کے کارکن مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری کے بیٹے ہیں (جن کا آدھے سے زیادہ خاندان تحریکِ پاکستان میں سِکھوں سے لڑتا ہُوا شہید ہوگیا تھا ) ۔ مرزا محمد سلیم بیگ اور میری لاہور اور اسلام آباد میں رحمت علی رازی کے ساتھ کئی محفلیں ہوتی رہیں ۔ اب محفلوں کا کیا رنگ ہوگا؟۔ جون 2005ء میں مجھے رحمت علی رازی کا ٹیلی فون آیا اور اُس نے مجھے کہا کہ ’’ Sir‘‘ مَیں اپنے ہفت روزہ ’’ عزم‘‘میں آپ کا انٹرویو شائع کرنا چاہتا ہُوں ‘‘۔مَیں نے کہا کہ ’’ رازی میرا روزنامہ تو "B.Class" ہے ۔ تُم کئی "A.Class" ایڈیٹروں کے انٹرویوز شائع کر چکے ہو؟‘‘۔ تو اُس نے کہا کہ ’’ سر!۔ آپ کا اخبار "B.Class" ہے لیکن ، آپ ایڈیٹر تو "A.Class" ہیں‘‘۔ 7 جولائی 2005ء کے ہفت روزہ ’’ عزم‘‘ میں نامور صحافی مظفر محمد علی (مرحوم) نے میرا انٹرویو شائع کِیا تو، دو ہفتے بعد مجھے رحمت علی رازی نے کہا کہ ’’ سر!۔ آپ سے پہلے حامد میر صاحب کا انٹرویو شائع ہُوا اور دو ہفتے بعد آپ کا ۔ مجھے خُوش کُن حیرانی ہُوئی کہ، مجھے حامد میر صاحب اور آپ کے انٹرویوز تین بار چھاپنا پڑے ‘‘۔ معزز قارئین!۔مظفر محمد علی نے میرے انٹرویو میں میری طرف سے یہ کہا تھا کہ ’’ مَیںصحافت میں مسلح جدوجہد کرتا رہا ہُوں‘‘۔ اِس سلسلے میں مَیں اپنے سینئر صحافی دوست جمیل اطہر قاضی کا تذکرہ کرنا ضروری سمجھتا ہُوں ۔ مَیں برادرِ محترم ، جمیل اطہر اور جناب مصطفی صادق (مرحوم) کے روزنامہ’’ وفاق‘‘ سرگودھا اور لاہور میں 1962ء سے 1970ء کے اوائل تک چار قسطوں میں وابستہ رہا اور جمیل اطہر صاحب سے صحافت کی جدید ’’ "Techniques" سیکھیں۔ مارچ2016ء کو صدر ِ پاکستان جناب ممنون حسین نے جمیل اطہر صاحب کو ’’ تمغہ ٔ امتیاز ‘‘ سے نوازا تو ، 11 مارچ 2016ء کو میرے کالم کا عنوان تھا ’’ جمیل اطہر قاضی! تیتھوں ربّ راضی‘‘۔ مَیں نے اُس میں لکھا کہ ’’ مَیں صحافت میں مسلح جدوجہد تو کرتا رہا ہُوں ‘‘ ۔ یہ الگ بات ہے کہ ’’ مجھے اِس مسلح جدوجہد کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑا ۔ برادرم جمیل اطہر قاضی مجھ سے زیادہ سیانے ہیں ۔ اُنہوں نے روس کے انقلابی لیڈر "Vladimir Lenin" کی تقلید کرتے ہُوئے "One Step Forward two Steps Backward" ۔ کی پالیسی اپناتے ہُوئے ’’ جرأت ‘ ‘ کا مظاہرہ کِیا‘‘۔ (یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ ، رحمت علی رازی ، جمیل اطہر قاضی صاحب کے روزنامہ ’’ جرأت ‘‘ کے بھی ایگزیکٹو ایڈیٹر رہے )۔ معزز قارئین!۔ حاملِ’’تمغہ ٔ برائے حُسنِ کارکردگی‘‘ رحمت علی رازی ’’حُسنِ کلام ‘‘ سے مالا مال تھا ۔ اگرچہ وہ شاعر نہیں تھا لیکن، تھا حسنِ کلام کا ماہر ۔ علاّمہ اقبالؒنے انگریزی شاعر "William Shakespeare" کے بارے میں کہا تھا کہ … حُسنِ آئینہ ٔ حق اور دِل آئینہ ٔ حُسن! دِل انساں کو ترا حُسنِ کلام آئینہ! رحمت علی رازی نے شیکسپیئر کو نہیں پڑھا تھا لیکن ، ’’پنجابی زبان کے شیکسپیئر ‘‘ لوک کہانی ’’ہیر وارث شاہ‘‘ کے مصنف سیّد وارث شاہ اور پنجابی زبان کے دوسرے شاعروں کا کلام اُسے ازبر تھااور جب وہ ، اپنے حُسنِ کلام میں کسی صُوفی شاعر کا تڑکا لگاتا تو، محفل میں ’’نُور کا تڑکا ‘‘ پھیل جاتا ۔ البتہ سیّد سلیم بخاری نے شیکسپیئر پڑھا ہے اور انگریزی زبان کے اپنے ’’گیسوئے تابدار ‘‘ کو اور بھی تابدار کرنے کے لئے شیکسپیئر کا حوالہ دیتے رہے۔ 2006ء میں مَیں نیویارک میں اپنے بیٹے ذوالفقار علی چوہان اور اُس کے اہلخانہ کے ساتھ چھٹیاں گزار رہا تھا تو، لاہور میں چھوٹا بھائی ، درویش صفت ، جاوید اقبال چوہان فوت ہوگیا تھا ، وہ مجھے یاد کرتا رہا اور اب مَیں اُسے یاد کرتا ہُوں ۔ سیّد وارث شاہ … بھائی مَرن تے ،پوندیاں بھج بانہاں! بِناں بھائیاں ، بھرے پروار ناہِیں! یعنی۔ ’’ بھائی مر جائیں تو ، اِنسان کے بازو ، ٹوٹ جاتے ہیں ۔ بھائیوں کے بغیر خاندان کا ہونا نہ ہونا برابر ہے‘‘۔ معزز قارئین!۔مسلکِ صحافت سے وابستہ لوگ بھی تو، بھائی چارے کے رشتے میں منسلک ہوتے ہیں لیکن، کبھی کبھی حضرت داغؔ دہلوی اِس طرح کا معاملہ بھی ہو جاتا ہے کہ … تُم کو ،لیلیٰ سے ہے جو، یکجہتی ؟ اپنا مجنوں سے بھائی چارا ہے! جب ہمارا کوئی دوست یا رشتہ دار اپنی طبعی عُمر پور ی کر کے دُنیا سے رُخصت ہو جاتا ہے تو ، اُس کے لواحقین تو، راضی بہ رضا ہو کر اُسے تاحیات یاد کرتے رہتے ہیں لیکن ، اپنی اپنی زندگی کے جھمیلوں میں مصروف لوگوں کی تو یہ کیفیت ہوتی ہے کہ … تیرے جانے سے رہے ، کچھ دِن اُداس! زندگی پھر آگئی، معمول پر ! اب مَیں کیا کروں؟۔ مجھے اور رحمت علی رازی کے دوسرے دوستوں کو تو ، گِلہ ہی رہے گا ۔ میر تقی میرؔ نے شاید رحمت علی رازی کی طرف سے ہی کہا تھا کہ … کام تھے عشق میں بہت ،پر میرؔ ! ہم ہی فارغ ہُوئے ، شتابی سے! معزز قارئین!۔ مَیں سوچتا ہُوں کہ ’’ یاروں کے یار اور برخوردار رحمت علی رازی کو ، اُوپر جانے کی کیا شتابی تھی؟‘‘۔