’’رحمن کے مہمان‘‘ حج بیت اللہ کا ایک منفرد اور شاندار سفر نامہ ہے۔ یہ ممتاز صحافی ایڈیٹر اور شاعر محمود شام کے 2017ء میں ادا کئے گئے سفر حج کی روداد ہے۔ لیکن اسے پڑھتے ہوئے قاری ایک عجیب تجربے سے گزرتا ہے۔ وہ صرف شام صاحب کے 2017ء کے سہولتوں سے آراستہ حج کے سفر کی روداد میں ہی شریک نہیں ہوتا بلکہ گزرے زمانوں میں بیتی ہوئی صدیوں کی راہ گزر پر بیک وقت سفر کرتا ہے اور کھٹن حالات‘ سخت مراحل سے گزر کر کئی کئی ہفتوں مہینوں سفر کر کے اللہ کے گھر کی زیارت کو پہنچنے والے فرزندان اسلام کے سفر حج میں بھی شریک ہو جاتا ہے جب حج کے لیے جانے والوں کو یہ پتہ نہیں ہوتا تھا کہ وہ واپس گھر لوٹیں گے بھی یا نہیں۔ ساڑھے تین سو صفحات کی اس کتاب میں ہم شام صاحب کی ہمہ جہت شخصیت کے کئی رنگ دیکھتے ہیں۔ مشاہدہ کرتا ‘ تجزیہ کرتا مختلف زمانوں میں ادا کئے گئے اسفار حج کا موازنہ کرتا ہوا۔ صحافی محمود شام! جذبات و احساسات کے مدوجزر سے گرتا شاعر محمود شام اور اپنی کوتاہیوں‘ گناہوں اور عصیاں پر نادم ہے۔ حاجی محمود شام جو اپنی کتاب کے پہلے ہی باب عرضی حاجی کا آغاز اس پیراگراف سے کرتے ہیں۔ میں اپنے اللہ سائیں کا ہر لمحے شکر کروں پھر بھی کم ہے میں تو اس لائق نہیں تھا کہ بلاوا آتا۔میں یہ 18دن کبھی نہیں بھول سکوں گا78سال کی مسافت میں یہی 18 دن ہیں جو زندگی کا حاصل ہیں کہاں مجھ جیسا عاصی و غافل کہاں یہ مقدس مقامات۔‘‘ جیسا کہ میں نے آغاز میں لکھا کہ اس سفر کی روداد محمود شام صرف حج کے حوالے سے اپنی ذات پرروحانی اور جسمانی تجربے کو بیان نہیں کرتے بلکہ گاہے قاری کو اپنے ساتھ کھینچ کر کئی صدیاں پیچھے لے جاتے ہیں یوں قاری گزرے زمانوں میں جھانک کر دیکھ سکتا ہے کہ نواب مصطفی علی شفیتہ 1839ء اور 1255ھ میں کن مصائب سے گزر کر 2سال اور چھ دن کا کٹھن سفر کر کے اللہ کے گھر پہنچتے ہیں۔ 15شعبان 1255ھ کو ان کا بادبانی جہاز بمبئی سے روانہ ہوتا ہے اور راستے میںجہاز تباہ ہو جاتا ہے ایک ویران جزیرے پر دو سو آدمی پانی کے آٹھ پیپوں کے ساتھ 35دن تک اللہ کے آسرے پر پڑے رہتے ہیں۔ ا ن گنت مصائب میں بھی ان اللہ کے مہمانوں کا صبر اور شکر کمال ہوتا ہے۔۔ کبھی ہمیں محمود شام امام ابو حنیفہؒ کے سفر حج میں شریک کرتے ہیں امام ابو حنیفہؒ نے کل 55حج کئے پہلا حج انہوں نے سولہ برس کی عمر میں اپنے والد کی معیت میں 96ھ میں کیا۔ تاریخ کی مختلف کتابوں سے گہری چھان بین کے بعد شام صاحب نے اس کتاب میں اقتباس بھی شامل کئے ہیں ایسا ہی ایک اقتباس پڑھیے۔ ’’ہم مکہ میں امام اعظم ابو حنیفہؒ کے پاس رہتے تھے آپ کے پاس ارباب فقہ اور اصحاب حدیث کا ہجوم ہو گیا اور بھیڑ تکلیف دہ تھی تو امام صاحب نے فرمایا کیا کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو صاحب خانہ کو کہہ کر ہم سے ان لوگوں کو ہٹوا دے(مقدمہ اعلاء السنن:72) بلا شبہ حج ایک شاندار اور روحانی اور جسمانی تجربہ ہے اور اگر حج کی روداد بیان کرنے والا اظہار بیان پر قادر ہو تو پھر ایسی ہی کتاب وجود میں آتی ہے رحمن کے مہمان مناسک حج کے مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے محمود شام اپنے امڈتے ہوئے جذبات اور احساسات کو جگہ جگہ شعر میں بیان کرتے ہیں۔ چند نمونے دیکھیے: سبز گنبد ہے سامنے میرے یعنی دن رات پھر گئے میرے میں صحابہؓ کے درمیان میں ہوں نہیں لگتا کہ اس جہان میں ہوں ٭٭٭٭٭ اپنے رحمن کا مہمان رہا ہوں کچھ دن ایک اقلیم کا سلطان رہا ہوں کچھ دن روز آتی تھی صبا خلد سے خوشبو لے کر خیمۂ عشق کا دربان رہا ہوں کچھ دن اور اسی مطلع سے انہوں نے اپنی کتاب کا عنوان ’’رحمن کے مہمان‘‘ رکھا مناسک حج میں رمی کا مرحلہ ہے جس میں شیطان کو حجاج کرام کنکریاں مارتے ہیں۔محمود شام لکھتے ہیں۔ وہ رمی تو ایک طرح کی ہماری تربیت ہے کہ ہم شیطان کو کچلتے رہیں۔ شیطان ہمارے اندر بھی ہیں آس پاس بھی ہیں۔ جو ہمیں اللہ سے دور کرتے ہیں اپنے آپ سے دور کرتے ہیں۔ کبھی دولت کے حصول کے بہانے کبھی شہرت کے حوالے سے کبھی ہمیں خبط علم میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ میرے اندر کا شاعر جاگ رہا ہے کہہ رہا ہے: پہلے کنکر پہ ہی شیطان بولا تیرے اندر بھی تو شیطان ہیں بہت کبھی خود کو بھی تو کنکر مارو تجھ سے بھی لوگ پریشان ہیں بہت شہر مدینہ‘ روضہ رسول پر حاضری کا اشتیاق تیز ہوتی ہوئی دل کی دھڑکنیں اور شاعر محمود شام کے دل پر گزرتی ہوئی واردات ان اشعار میں بیان ہوتی ہے: آنکھ میں آ جا دلِ شامِ مدینہ آیا دھڑکنیں روک لے اب دید کا لمحہ آیا گردش دہر ذرا ٹھہر کہ اس شہر میں ہیں جس کی گلیوں سے مقدر کو سنورنا آیا ایک قاری کی حیثیت سے میں یہ ضرور کہنا چاہوں گی کہ یہ کتاب آپ چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے فون پر میسجز کے جواب دیتے اور فیس بک پر کمنٹس اور لائک کرنے کے وقفوں میں نہیں پڑھ سکتے۔ کتاب قاری کا مسلسل ارتکاز اور توجہ طلب کرتی ہے ایک تو نفیس مضمون بھی ایسا ہے کہ شوق کی زمیں پر توجہ کا خیمہ گاڑ کر یہ کتاب پڑھی جائے تو بلا شبہ قاری بھی روح پرورعقیدتوں اور عبادتوں کے اس سفر میں شریک ہو جاتا ہے۔ خصوصاً ان دنوں میں کتاب کا مطالعہ کرنا جبکہ لاکھوں فرزندان اسلام حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کر رہے اور بھی لطف انگیز اور معنی خیز ہے۔ شام صاحب نے جس طرح تاریخ کے مختلف ادوار میں ہونے والے سفر حج کی روداد بھی اپنے سفر کے ساتھ ساتھ بیان کی ہے اس سے مجھے خیال آیا کہ انہوں نے اپنے خیالات کے بہائو میں بہتے ہوئے stream of consciousnessکی تکنیک اپنے بیانیے میں استعمال کی ہے۔ بیسویں صدی میں اس ادبی تکنیک کو سب سے پہلے جیمز جوائس اور ورجینیا وولن نے استعمال کیا لیکن ولیم فاکنر امریکی ناول نگار نے اپنے ناول sound and furyمیں اس تکنیک کو بہترین انداز میں استعمال کیا۔ یہ تکنیک دراصل بیانیے کا ایک انداز ہے جس میں کہانی کا کردار زمان و مکان اور وقت کی قید سے آزاد ہو کر سوچتا اور بولتا ہے۔ گزرے زمانوں میں ہونے والے واقعات کو اپنے آس پاس محسوس کرتا ہے۔ انہیں بیان کرتا ہے یہی تکنیک شام صاحب نے اپنی کتاب میں جا بجا استعمال کی ہے۔ پہلے ہی باب میں لکھا ہے کہ جب میں طواف کے بعد نفل ادا کر رہا ہوں تو مجھے ایسا احساس ہوا کہ میں روشنی کی ایک طویل قطار کے آخری سرے پر کھڑا ہوں حضرت ابراہیم ؑکی آواز آ رہی ہے۔ اے لوگو! پروردگار عالم نے اپنا گھر بنایا ہے لہٰذا تم اس کا حج کرنے کے لیے آئو۔ صدیاں میرے دائیں بائیں سے گزری ہیں مجھے ان صدیوں کی بھی اپنے الفاظ میں صورت گری کرنا ہے اپنے مناسک حج کو بیان کرتے کرتے وہ سرکار دو عالم ﷺ کے اپنے صحابہؓ کے ہمراہ سفر حج کے روح پرور اور تاریخی مناظر بیان کرنے لگتے ہیں اور یوں وقت کی دہلیز پر ماضی اور حال اس طرح مدغم ہو جاتا ہے کہ خود قاری بھی پڑھتے ہوئے خود کو انہی زمانوں میں محسوس کرتا ہے۔ سفر حج کے حوالے سے یہ ایک شاندار کتاب ہے۔