مرحوم کی خطائیں غفور الرحیم معاف فرمائے۔ نیکیاں قبول فرمائے اور ان کی مرقد پہ نور برستا رہے۔ رفتید ولے از نہ دلِ ما عبد القادر حسن بھی چلے گئے۔عمر بڑھ گئی تھی اور صحت خراب۔ ویسا ہی مگر دھچکا لگا، جیسے کسی جواں عمر پر۔ جدید کالم نگاری میں ان کی حیثیت ایک استاد کی تھی۔ناچیز سمیت بہت سوں نے ان سے سیکھا۔ ایک بار اچانک کہا: مصرعے کی طرح جملے کا بھی ایک وزن ہوتاہے۔ بے شک اکثر لکھنے والے اس راز سے بے خبر ہیں۔ اب تو ماشاء اللہ انگریزی اور پنجابی کے الفاظ اس کثرت سے استعمال ہوتے ہیں کہ سبحان اللہ۔ قلم کی روانی، خاموشی سے بہتے دریا کی طرح، جس میں کبھی کبھار ہوا کوئی لہر اٹھا تی ہو۔ ایسا کاٹ دار جملہ کبھی لکھتے کہ مدتوں یاد آتا۔مثلاً جنرل محمد ضیا ء الحق کے مشہور زمانہ ریفرنڈم پر۔ ’’بارہ بجے تک منصفانہ او ر اس کے بعد آزادانہ‘‘ آخری برسوں میں قلم کی چھب قدرے کم اور کمزور ہو گئی تھی وگرنہ ایک دور میں ان کی تحریروں نے کہرام بپا کر رکھا تھا۔ وہ ایک رپورٹرتھے اور قابلِ رشک رپورٹر، معتبر سیاسی رہنما جنہیں شریکِ راز کرتے ہیں۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے بعد برپا ہنگامے میں کبھی کبھار ’’غیر سیاسی باتیں‘‘ کے عنوان سے کالم آرائی شروع کی توقاری چونک اٹھے۔ مرحوم کا کہنا تھا کہ سب کچھ خبروں میں سما نہ پاتا تو بے کلی سی ہونے لگتی۔ تب اس سلسلے کا آغاز کیا۔ بیچ میں ایک ہفتہ روزہ جریدے ’’افریشیا‘‘ کا آغاز کیا، جو حوادثِ زمانہ کی نذر ہو گیا۔ یہ مارشل لا کے ایام تھے۔آزاد صحافت کے لیے پیامِ مرگ۔اب دشنام کے دن ہیں۔ ہر نیک و بد پہ چھچھورے لیڈروں اور ان کے فدائین کی یلغار کا موسم۔صحافت پر ایسا برا وقت کبھی نہ آیا تھا۔ انہی دنوں لاہور آنا ہوا۔ اپنی مرسڈیز کار میں بٹھا یا اور شہر کی سڑکوں پر گھومتے رہے۔ عرض کیا: آپ کالم کیوں نہیں لکھتے۔ بولے: ہر روز کون لکھ سکتاہے۔ گزارش کی: میرا خیال تو یہ ہے کہ کبھی کبھار کی بجائے روزانہ لکھنا سہل ہے۔ آدمی ایک خاص ذہنی کیفیت پیدا کر لیتاہے۔ میں اپنے خالہ زاد بھائی سینیٹر طارق چوہدری کے ہاں ٹھہرا ہوا تھا۔ گھر چھوڑنے گئے تو درخواست کی کہ چائے کی پیالی پی لیں۔ گھر میں قدم رکھا، حاجی محمد حسین کی نگاہ ان پر پڑی۔ بولے: کیا تم عبد القادر ہو؟ حیرت زدہ، چند لمحے وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہے۔ خالو جان نے پھر کہا: جب تم ایک چھوٹے سے بچے تھے تو گھر والے تمہیں میرے ہاں چک نمبر 42جنوبی میں چھوڑ گئے تھے۔ بعد میں بار بار اس پر انہوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ نصف صدی پہلے کے چھوٹے سے بچے کو انہوں نے کیسے پہچان لیا اور کس یقین کے ساتھ۔ گاؤں میں تصادم کے باعث بچے کی جان خطرے میں تھی، جس نے 89برس کی عمر پائی۔ کچھ دنوں میں کالم لکھنے لگے اور مسلسل ساڑھے تین عشرے تک۔ ان کے لیے کالم آرائی کوئی مشقت نہیں تھی۔ قلم اٹھاتے اور آدھے گھنٹے میں نمٹا دیتے۔ فیض احمد فیض اور مجید نظامی سمیت کتنے ہی نامور ایڈیٹروں سے تربیت پائی تھی۔ مولانا داؤد غزنوی ایسے عظیم عالم سے قرآنِ کریم کی تفسیر پڑھی تھی۔ فارسی اور اردو ادب کے طالبِ علم تھے۔ فارسی شعر اس بے ساختگی کے ساتھ برتتے کہ رشک آتا۔ دوسری مثال صرف نواب زادہ نصر اللہ خان تھے۔ سیاسی عمل اور سیاسی لیڈروں کو بہت قریب سے دیکھا تھا۔ با ایں ہمہ،سیاست میں ان کا جی کم ہی لگتا۔ تجزیہ نگاری نہیں، کالم نویسی ان کے لیے ادب کی ایک صنف تھی۔ موضوع خواہ سیاست ہی کیوں نہ ہو۔ اعلیٰ ذوق پایا تھا۔ ایک بار کہا: اردو کا اولین کالم نگار اسد اللہ خان غالب تھا۔ ایک زمانے تک نوائے وقت سے وابستہ رہے۔ بھارت پر لکھا گیا ان کا ایک کالم مرحوم مجید نظامی کو خوش نہ آیا تو میر شکیل الرحمٰن کی پیشکش انہوں نے قبول کر لی، برسوں سے جو ان کے طالب تھے۔ اس کالم کے مرکزی خیال پہ نظامی صاحب کو اعتراض تھا۔ یہ کہ بھارت کے مسلمانوں کو سیکولرازم ہی سازگار ہے۔ یہ بات ایسی نہ تھی کہ کہ مدیر نظر انداز نہ کر سکتا۔ نظامی مرحوم مگر اپنے نظریات میں بہت بے لچک تھے۔ نئے اخبار میں مالی اور عملی طور پر مرحوم کی ایسی پذیرائی ہوئی کہ لکھنے والوں نے رشک کیا۔ واقعہ یہ ہے کہ کالم نگاری کی توقیر بڑھانے میں مرحوم کا حصہ ہے۔ اخبار ی دفاتر کی حد تک وگرنہ نامور بھی بے بس نظر آتے۔ پاکستان اور اسلام کے باب میں وہ بے حد جذباتی تھے۔ کسی بھی روایتی پاکستانی کی طرح۔ برہمن سے ایک طرح کی کراہت تھی۔بھارت کے ایک دورے سے قبل انہوں نے لکھا: شاپنگ کا مجھے کوئی شوق نہیں۔ اپنے بچپن میں ہندو کراڑوں سے میں بہت خریداری کر چکا۔ بھارتی حکومت اس پر بگڑی۔ اب یاد نہیں کہ ان کا ویزہ مسوخ کر دیا گیا یا دہلی میں ان سے مغائرت برتی گئی۔ اپنے لیے بہرحال وہ اسے اعزاز سمجھتے تھے۔ اظہار اگرچہ کم ہی کرتے۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان سے گہری نیازمندی تھی۔ ان کے صاحبزادے اظہر کے ولیمے میں شرکت کے لیے سائنس دان وادیٔ سو ن میں ان کے گاؤں پہنچا۔ روایتی مکھّڈی حلوہ کھایا اور بیلوں کا رقص دیکھا۔ خاکسار بھی وہیں تھا، جس نے لاہور کے ولیمے میں شرکت سے گریز کیا تھا۔ شہر کے ہوٹلوں میں ان دنوں کھانا پیش کرنے پر پابندی تھی۔ قدامت پسند آدمی کو یہ ناگوار تھا۔ جنرل مشرف کے عہدِ شباب میں ان کے ہیرو ڈاکٹر عبد القدیر کے ذکر پہ پابندی لگا دی گئی۔ کچھ اور مسائل بھی تھے۔ اکتائے ہوئے تھے کہ نظامی صاحب نے نوائے وقت سے تجدیدِ تعلق کی پیشکش کی۔ پروفیسر احمد رفیق اختر سے انہوں نے مشورہ کیا۔ مختصر ترین الفاظ میں انہوں نے بات نمٹا دی۔ ’’قادر حسن صاحب! اپنی مرضی سے کوئی اسیری کو آزادی پر ترجیح دیتا ہے؟ آپ کا اخبار جیسا بھی ہے، آزادی کی حدود اس میں زیادہ ہیں۔ خلاف معمول اس دن وہ کھلکھلا رہے تھے۔ بولے: پروفیسر صاحب نے مجھے میرے بارے میں سب کچھ بتا دیا، سارا کچا چٹھا۔ کچا چٹھا کیا تھا؟ وہ ایک سادہ سے آدمی تھے۔ چھوٹی موٹی خامی کس میں نہیں ہوتی۔ یہ اپنے آپ پر ہنسنے کی ادا تھی، جو فقط بالغ نظروں کو عطا ہوتی ہے۔ پھر وہ ایک اور اخبار سے وابستہ ہو گئے اور شاد رہے۔ یکسر قدامت پسند، اصلاً وہ ایک دیہاتی تھے۔ ان کی بہترین تحریریں وہ ہیں، جو انہوں نے وادیٔ سون اور اپنے گاؤں کے بارے میں لکھیں۔سرسبز وادی کا گورستان ہی نثر میں شاعری کرنے والے کو زیبا ہے۔ بے شک چھ عشرے تک وہ لاہور میں مقیم رہے۔ دل ان کا اسی دیار میں رہا۔ چلے گئے مگر ان کی یادیں جگمگا تی رہیں گی۔ پیہم اور پے درپے کب نکلتاہے کوئی دل میں اتر جانے کے بعد اس گلی میں دوسری جانب کوئی رستہ نہیں مرحوم کی خطائیں غفور الرحیم معاف فرمائے۔ نیکیاں قبول فرمائے اور ان کی مرقد پہ نور برستا رہے۔ رفتید ولے از نہ دلِ ما