ہمارے ہاں اکثر و بیشتر لوگ یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ وطن عزیز میں جمہوریت کا باقاعدہ سفر وزیراعظم بھٹو سے شروع ہوتا ہے۔فی الحال ہم اس سوشلسٹ اور جمہوری وزیراعظم کے تذکرے میں ذاتی یا نظریاتی قسم کی تفاصیل بیان کرکے کسی کے منھ کا ذائقہ خراب نہیں کریں گے بلکہ قومی زبان کے ساتھ ان کے اور دیگر تمام حکمرانوں کے ’’حسنِ سلوک‘‘ کا جائزہ لیں گے۔۱۹۷۰ء کے الیکشن کے ڈرامے کا ڈراپ سین ہونے کے بعد مسٹر ذوالفقار علی بھٹو مغربی پاکستان کی سکرین پر ایک عوامی اور جمہوری وزیراعظم کے روپ میں جلوہ افروز ہوئے۔ اس بھرم کو قائم رکھنے کے لیے انھوں نے بعض عوامی خواہشات و مطالبات پہ خصوصی توجہ کی۔ جب جمہور کی جانب سے نفاذ اُردو کی شدید خواہش نے سر اٹھایا تو انھوں نے اس عوامی مطالبے کو ۱۹۷۳ء کے آئین کا حصہ بنا لیا۔ چنانچہ آج بھی پاکستان میں نافذ العمل آئین کے آرٹیکل نمبر ۲۵۱ میں واضح طور پر درج ہے:’’پاکستان کی قومی زبان اردو ہے، اسے سرکاری اوردیگر مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے لیے پندرہ سال کے اندر انتظامات کیے جائیں گے۔‘‘ ایک پرزور عوامی امنگ کو میٹھی نیند سلانے کا کیا دلکش طریقہ ہے، ایسی ہی کسی صورتِ حال کو حفیظ جالندھری نے دیکھیے کس خوبصورتی سے الفاظ کا جامہ پہنایا ہے: سر پہ راہی کے، سربراہی نے کیا صفائی کا ہاتھ پھیرا ہے وطن عزیز پر ایک ’’اسلامی‘‘ حکمران کے دور کا آغاز ہوتا ہے۔ وہ اسلامی حکمران کہ مسلمانوں کا امیر المومنین بننے کا خواب جس کی نس نس میں سمایا ہوا تھا۔ یہ پندرہ سال کا طویل و تاریک اور صبرآزما دورانیہ بھی اسی کے دور ِحکومت میں مکمل ہو رہا تھا۔ اس ڈیڑھ دہائی میں اردو کو بطور دفتری زبان تیار کرنے والے ’’دیدہ وروں‘‘ نے تھرمامیٹر کو ’’مقیاس الحرارت‘‘ لاوڈ سپیکر کو ’’آلۂ مکبّر الصوت‘‘ اور انٹرویو کو ’’مواجہہ‘‘ جیسے الفاظ کے گورکھ دھندے میں ڈال کے اس بدقسمت زبان کے ساتھ جو ہاتھ کیا، وہ ایک الگ داستان ہے۔ لیکن ان کے متوازی ڈاکٹر سید عبداللہ اور ڈاکٹر وحید قریشی جیسے مخلص لوگ بھی تھے جنھوں نے اردو کی محبت میں ایسی تقریبات میں جانا ترک کر دیا تھا، جن کے دعوت نامے انگریزی میں چھپے ہوتے۔ وہ نہ صرف بازاروں میں جا جا کر دکان داروں کو اردو میں سائن بورڈ لکھوانے کی تلقین کرتے بلکہ ارباب حکومت کو بھی نفاذِ اردو کے لیے قائل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہے۔ لیکن جب وہ حکومتی حلقوں سے مایوس ہوگئے تو انھوں نے اپنی وفات سے ایک سال قبل ۱۴ اگست 1985ء کو، یعنی اسی مسلم جرنیل کے دورِ حکومت میں ’’نفاذِ اردو ‘‘کا جنازہ پڑھا۔ 1973ء کے آئین میں مختص کیے گئے پندرہ سال گیارہ اپریل 1988ء کو پورے ہو رہے تھے۔ آئین کی رُو سے 12 اپریل 1988ء سے بطور سرکاری زبان اُردو کا نفاذ خود بخود عمل میں آجانا چاہیے تھا۔ پاکستان کے عوام اور اردو نواز حلقے خاصے پرامید تھے کیونکہ قوم کا درد اُن دنوں ہر ٹی وی خطاب میں ’امیر المومنین‘ کی آنکھوں سے چھلکا پڑتا تھا لیکن تاریخ کی آنکھ نے دیکھا کہ افغانستان میں امریکی پالیسیوں کی تکمیل کے صلے میں جہادی ہیرو کا تمغہ حاصل کر لینے والے اس امیر المومنین نے وطنِ عزیز میں نفاذِ اُردو کے لیے مقررہ دورانیے کو بیک جنبشِ قلم "As it Possible" میں بدل کر آئین کی اس شق کو کبھی نہ ختم ہونے والے شک میں مبتلا کردیا۔ حالانکہ اس دوران بہت سے دور اندیش افسران اپنے نام کی تختیاں اور دفتر کی ٹائپ مشینیں تک اُردو میں تبدیل کر چکے تھے لیکن امیر ِ شہر کی باطنی چالاکی نے روشن امید کو ایک معمے کا روپ دے دیا۔ پھراس مقررہ مدت سے ٹھیک چار ماہ اور پانچ دن بعد یعنی ۱۷ اگست ۱۹۸۸ء کو امیرِ شہر خود ایک معمہ بن گئے۔اس جرنیلی حادثے کے بعد ملکی سیاست نے پھر پلٹا کھایا۔ سابقہ وزیراعظم بھٹو کی پھانسی کا پتا نہایت مہارت سے کھیلنے کے بعد ان کی لاڈلی بیٹی پنکی پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم بن بیٹھی۔ مذکورہ محترمہ کے تمام ترلاابالی اور کھلنڈرے پن کے باوجود ان سے نفاذِ اُردو کے سلسلے میں دو طرح سے امید بندھتی تھی۔ قبل ازیں اردو زبان کے سب سے بڑے دونوں حامیوں یعنی سر سید احمد خاں اور قائداعظم کا انگریزی زبان و تہذیب سے گہرا ربط ضبط رہا تھا بلکہ حکیم الامت علامہ اقبال کا بھی قول ہے کہ: ’’یورپ کی آب و ہوا نے مجھے مسلمان کر دیا۔‘‘ اس لیے یہ بات ذہن میں آتی تھی کہ محترمہ بھی ترقی یافتہ ممالک کے مشاہدے کے بعد قوموں کے لیے مقامی زبان کی اہمیت سے پوری طرح آشنا ہو چکی ہوں گی۔ امید کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ جنرل ضیا الحق نے چونکہ ان کے باپ کے نافذ کردہ آئین میں آمرانہ طور پر تبدیلی کی تھی۔ اس لیے انتقامی طور پر بھی قومی زبان کو فائدہ ہونے کا کچھ نہ کچھ امکان تھا۔ محترمہ کو حکومت کے دو مواقع ملے۔ وہ دونوں بار بھٹو کی پیپلزپارٹی میں سے ’’بے دماغ فرماں بردار‘‘ ارکان ڈھونڈتی رہیں۔ اگر کوئی تبدیلی آئی تو یہ کہ وہ مس بھٹو سے مسز زرداری بن گئیں۔ دیگر بے شمار قومی امور کی طرح قومی زبان کے معاملے کو بھی انھوں نے مستقل‘‘ نکرے‘‘ لگائے رکھا۔ زمانہ گواہ ہے کہ بارہ سال تک وہ خود بھی مستقل نکرے لگی رہیں۔ اس تمام عرصے میں ان کے منھ سے ایک بھی جملہ جمہور کی اس زبان کے حق میں نہیں نکلا، یہاں تک کہ مہلت ختم ہوگئی۔ اب ذرا بی بی ہی کی طرح حکمرانی کی کئی اننگز کھیلنے والے ’’بابو‘‘ کا تذکرہ بھی ہو جائے۔ سچ بات تو یہ ہے کہ یہ پاکستان کی بہتر سالہ تاریخ کے سب سے زیادہ دیسی حکمران تھے۔ ہریسہ نہاری سے ناشتہ کرنے اور شلوار قمیض پہننے والے خالص لاہوری، ہوتے ہوتے مسلم لیگی بھی ہوگئے کہ اردو زبان کا نفاذ جن کے منشور اور خون میں شامل ہوا کرتا تھا۔ انگریزی زبان، لباس اور مزاج سے ناآشنا اس شہری بابو کے ادوارِ حکومت میں بھی یار لوگوں کو قومی زبان کے بارے میں ہزاروں طرح کی خوش فہمیاں تھیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ وطن عزیز کی تاریخ میں بھاری ترین مینڈیٹ کے حامل یہ کاروباری حکمران اپنے سنہری ترین ادوار میں بھی اپنے راستے کی رکاوٹیں ہٹانے اور جائیدایں بنانے میں تن، من، دھن سے مصروف رہے لیکن نفاذِ اردو کے راستے میں بچھے ہوئے کانٹوں کو چننے میں رتی بھر توجہ نہ کی۔ زمانہ دیکھے گا کہ قومی زبان کو طاقِ نسیاں کی زینت بنانے رکھنے والے یہ دیسی حکمران بھی ملکی تاریخ کے حافظے میں ایک تلخ یاد کی صورت محفوظ رہیں گے۔ خواتین و حضرات! 2008ء میںہماری قومی بداعمالیوں کا نتیجہ زرداری حکومت کی صورت سامنے آیا ۔ ایسے میں کیا اُردو اور کیا اُردو کا شوربہ…عزت اور جان ہی محفوظ رہ جاتی تو غنیمت تھا۔ صاحبو! موجودہ دور میں نفاذِ اردو کے سلسلے میں ڈھارس کا ایک ہی پہلو باقی رہ جاتا ہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان قومی زبان کی اہمیت کا بار بار تذکرہ کر چکے ہیں۔ انھیں دیگر حکمرانوں کے افسوس ناک انجام کو ذہن میں رکھنے کے ساتھ ساتھ شاعر کے بیان کردہ اس عوامی اور قومی المیے کی جانب توجہ کرکے نفاذِ اردو کی جانب فوری توجہ کرنی چاہیے کہ: مجھ سے وطن کی طرزِ بیاں چھین لی گئی میں وہ ہوں جس سے ، اُس کی زباں چھین لی گئی