مریم نواز بے نظیر تو نہیں بن سکتیں مگر کوشش کرنے میں کیا حرج ہے۔ اس سارے شو کے پس منظر میں جو میوزک اوورلیپ کر رہا تھا اس کے بول تھے ’’روک سکو تو روک لو‘‘۔ شیکسپیئر کا ایک مکالمہ بہت خوبصورت ہے"There is a method in madness." پاگل پن میں بھی ایک طریقہ کار ہوتا ہے۔ یہ جو مریم نواز عرف مسلم لیگ (ن) کا شو تھا یہ نہ تو پرویز رشید کی اینٹی اسٹیبشلمنٹ تربیت کا اعجاز تھا اور نہ ہی کوئی مارکس، مائو اور لینن کے نظریات کا اثر تھا۔ ایک خالصتاً سرمایہ دار سیاستدان کی بیٹی کا شو تھا۔ اسی شریف خاندان کی سیاست کا مظہر جو 1981ء سے آج تک عوام کو بریانی کی پلیٹ اور قیمے والے نان کا اسیر سمجھتے ہیں۔ 35 سالوں میں رقصاں عاقبت نااندیش ووٹ کو عزت دینے والوں کو چھوڑ بھی دیں تو ان کے اوپر جو سپورٹرز ہیں اُن میں شامل ہیں گوالمنڈی کے ایسے گھرانے جہاں سے کوئی سپوت ایکسائز انسپکٹر یا نائب تحصیلدار ورنہ اے ایس آئی یا سب انسپکٹر۔ کیا شریفوں سے پہلے آپ نے سٹار پولیس انسپکٹر سنے تھے۔ ایسے افسر جن کی تنخواہ تو لاکھ سوا لاکھ ہوتی تھی اور ہے مگر ان کے ٹور؟ اللہ کی پناہ۔ ایک دو مفرور ہیں، ایک آدھ مر گئے، ایک دو سٹار ہیں۔ یہ سب وہ ہیں جو سپاریاں لے کر بندے پھڑکاتے تھے۔ اُس پر ایک کتاب درکار ہے۔ وہ تو وہ تھے ہی، گوالمنڈی برینڈ لاہوری شکرے بھی تھے جن کی خواندگی الم نشرح تھی۔ مگر ان کی دیکھا دیکھی وہ کلاس بھی بگڑ گئی جو سی ایس ایس کوالیفائی کرکے آتی تھی۔ احد چیمہ سے نبیل اعوان تک اور فواد حسن فواد سے ناجانے کتنوں تک۔ آج کے سٹار افسران کے نام دیکھئے، وہ سب سٹار شریفس کے عہد میں بنے۔ 2018ء میں جب شریفس کے اقتدار کا سورج غروب ہونے کو تھا تو پنجاب کے خادم اعلیٰ نے Payments میں اتنی شاہ خرچی کا مظاہرہ کیا کہ آنے والے ماہ میں تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے کچھ نہ تھا۔ نیب کے دفتر کے سامنے مریم نواز کا شو نہ تو ان کی مقبولیت کا مظہر تھا نہ ورکر کی محبت کا۔ یہ ان ٹکٹ ہولڈرز یا جیتنے والے نمائندگان کی وفاداری کا شو تھا جو مریم نواز اور دیگر شریفس کے عہد میں سنہرے پانیوں سے ہاتھ دھوتے رہے۔ مریم نواز نے کیا کبھی اسّی کنال میں واقع ایک خوبصورت بنگلے کے مالکان سے پوچھا کہ یہ جو آپ پتھر بھر بھر کر گاڑیوں میں میرے لیے لارہے ہو … اس بنگلے کی رجسٹریاں اور انتقال کہاں ہیں؟ کبھی جاوید لطیف سے پوچھا کہ آپ زیرو سے متمول ہیرو کیسے بنے؟ شہر کو برباد کرکے رکھ دیا اس نے منیر … شہر پر یہ ظلم میرے نام پر اُس نے کیا؟ اگر عینک کے شیشے نہ خراب ہوں تو یہ سب کچھ اقتدار کی بے ردا اور بے نقاب جنگ ہے۔ وہ جو ایوان اقتدار کی غلام گردشوں کو بارونق بناتے ہیں اور وہ جو اس رونق میں چراغوں سے تیل چراتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو مالی اعتبار سے کرپٹ نہ تھے مگر ضیاء الحق نے سیاسی منافقت کو سائنس بنادیا۔ وہ جو بیوقوف جاگیردار اپنی زمینیں بیچ کر الیکشن لڑتا تھا، ٹور ٹپے اور چودھراہٹ کے لیے۔ اس کی جگہ ایک ایسا تاجر پاکستان کے پاور پلے میں لایا گیا جس نے کرپشن کو سائنس بنادیا۔ شام کو مزاروں پر حاضری، رات کو ذکر کی محفلوںمیں شرکت اور صبح چھانگا مانگا آپریشن۔ دوپہر کو ٹوٹنے والے بندوں کو نوکریوں کے کوٹے اور سہ پہر کی چائے ایم ایس ایف کے طالب علم لیڈروں کے ساتھ جن میں خواجہ سعد رفیق بھی ایک ہوتے تھے۔ انگریزی میں ایک لفظ ہوتا ہے Benificiary، اس سے مراد یہاں وہ لوگ ہیں جو آپ کی چھتر چھایہ میں پروان چڑھتے ہیں۔ ان میں کسی کے پاس لاہور کی پارکنگ کا ٹھیکہ ہوتا ہے، کوئی مسکراتا ہوا انجمن تاجران فلاں بازار کا صدر، کوئی سٹوڈنٹ لیڈر سے سیاستدان اور پھر ہائوسنگ سوسائٹی کا ڈویلپر۔ پھر یہ سلسلہ زلف یار کی طرح دراز ہوتا ہوتا وہاں پہنچتا ہے کہ جھوٹ سچ، ہنستا مسکراتا سچ لگنے لگتا ہے۔ عام آدمی خوش ہورہا تھا کہ شریف خاندان کی شہزادی اسٹبلشمنٹ کو چیلنج کر رہی ہے۔ نیب کو دھمکی دے رہی ہے۔ بلند آہنگ سے کہہ رہی ہے ’’روک سکو تو روک لو‘‘۔ مسلم لیگ (ن) کے مایوس ووٹر کو پیغام دے رہی ہے عمران کا وقت قلیل ہے، ہمارے اچھے دن آنے والے ہیں۔ عام ان پڑھ ووٹر غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ مریم کے چہرے کی فاتحانہ مسکراہٹ بتارہی تھی کہ وہ جس جس حلقے کو جو جو پیغام دینا چاہتی تھی اس نے دے دیا۔ مگر کیونکر؟ اکثر چنگ چی رکشوں پر ایک شعر لکھا ہوتا ہے ’ہم کو دعائیں دو کہ تمہیں قاتل بنادیا‘۔ پتہ نہیں ہم اسٹبلشمنٹ کو دعا دیں کہ خان کی گورننس کو کہ شریفس کو پاپولر کردیا۔ اس کا کریڈٹ خان کی دو سالہ گورننس کو جاتا ہے۔ اس حکومت کو جس میں عوام کی نہیں خواص کی سنی جاتی ہے۔ جس کا ہر معتبر غیرمنتخب ہے۔ جس کی معیشت کو آئی ایم ایف چلاتا ہے۔ جس میں رزاق دائود، ندیم بابر، خسرو بختیار اور حفیظ شیخ فیصلے کرتے ہیں۔ ایک سیاسی حکومت کو غیر سیاسی سقراطوں سے چلوائیں گے تو بیانیہ یتیم ہوجائے گا۔ پاکستان کو دو بڑے سیاسی قبیلوں نے اغوا کررکھا تھا۔ منی لانڈرنگ اور کرپشن آرٹ کا درجہ اختیار کر گئے۔ اسٹبلشمنٹ نے ان سے جان چھڑا کر نیا تجربہ کر ڈالا۔ پھر؟ ایک تو دھوپ تھی موم کے مکانوں پر۔ اس پر تم لے آئے سائباں شیشے کا۔ عوام کے سر پر موم کی چھت بھی پگھل چکی۔ ایسے میں وہ جنہیں شرمندہ ہونا چاہیے تھے اپنے کرتوتوں پر، بڑی ڈھٹائی سے سر اٹھا رہے ہیں۔ نیب کے سامنے اپنی کرپشن کا جواب دینے کی بجائے نیلسن منڈیلا کی ایکٹنگ کر رہے ہیں۔ جاتی عمرہ کا رقبہ دیکھیں۔ اس کے اندر شاہانہ لائف سٹائل دیکھیں۔ ان کا 35 سالہ ریکارڈ دیکھیں۔ کرپشن کے ثبوت دیکھیں اور پھر ان کے ووٹر کو ڈھول کی تھاپ پر حبس کے موسم میں رقصاں دیکھیں۔ جاتی عمرہ کی اس فلم کے مقابل ہالی ووڈ کی شاہکار فلم ’گلیڈی ایٹر‘ کا ڈائریکٹر ریڈلی سکاٹ اپنی ڈائریکشن بھی بھول جائے۔ اس ملک کا کیا ہوگا؟ بتانے کی ضرورت نہیں۔ بس ان ہی کو سنئے اور سر دُھنیے جو کہہ رہے ہیں ’’روک سکو تو روک لو‘‘۔