طبی ماہرین اور حکومتی بریفنگوں کے مطابق امریکہ کو ایک بار پھر کورونا وبا نے دو راہے پر کھڑا کر دیا ہے۔ کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد میں پہلے سست رفتاری سے جبکہ اب برق رفتاری سے اضافہ ہورہا ہے۔ امریکہ میں روزانہ 51 ہزار مریضوں میں وائرس کی تشخیص ہورہی ہے جو گزشتہ مہینے سے چار گنا زیادہ ہے۔ ممکن ہے کہ امریکہ کے ہسپتالوں میں کورونا کے مریضوں کی تعداد میں گنجائش سے زیادہ اضافہ ہونا شروع ہو جائے جو نہ صرف طبی ماہرین کے لیے مسئلہ ہو بلکہ غیر ضروری اموات کی بھی وجہ بن جائے۔ اگر خدانخواستہ ایسا ہوتا ہے کہ غالب امکان یہی ہے کہ ڈیلٹا وائرس کو مورد الزام ٹھہرایا جائے گا مگر اس پھیلائو کی وجہ نئی قسم نہیں بلکہ امریکیوں کی ویکسین لگوانے میں ہچکچاہٹ ہوگی۔ کیا امریکیوں کا ویکسین لگوانے سے گریز ڈیلٹا ویئر نٹ یا پھر الفا یا دیگر اقسام کے پھیلائو کا سبب نہیں ہوگا؟ کورونا وائرس کا درمیانی سطح کا پھیلائو ہماری سوچ سے کہیں زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے۔ ویکسین لگوانے کے بعد مریض کو اگر کورونا انفیکشن ہو جائے تب بھی وائرس خطرناک اور جان لیوا نہیں رہتا مگر امریکہ میں کم و بیش نصف آبادی ویکسین نہ لگوانے کی وجہ سے غیر محفوظ ہے۔ امریکہ کے تیس فیصد بزرگ شہریوں نے تاحال ویکسین کی پہلی ڈوز بھی نہیں لگوائی جبکہ ملک کی کئی ریاستوں میں یہ شرح اس سے کہیں زیادہ ہے۔یہ امریکیوں کی خوش بختی ہے کہ ان کے ملک کا شمار دنیا کے ان چند ممالک میں ہوتا ہے جن کے پاس ان کی آبادی کی ضرورت سے زیادہ ویکسین موجود ہے مگر امریکہ روس کے بعد دوسرے نمبر پر ہے جہاں لوگ ویکسین لگوانے سے انکار کر رہے ہیں۔ طبی ماہرین پہلے ہی متنبہ کر چکے ہیں کہ اگر آبادی کی غالب اکثریت کو ویکسین نہ لگائی گئی تو کورونا وائرس کے کسی بھی قسم کے تیزی سے پھیلنے کے امکانات موجود ہیں۔ ہاورڈ یونیورسٹی کے ٹی ایچ سکول آف پبلک ہیلتھ کے وبائی امراض کے ماہرین بل ہینچ نے جنوری میں ہی یہ پیش گوئی کر دی تھی کہ امریکی ریاست فلوریڈا کے لیے موسم گرما خطرناک ہو گا۔ آج ملک میں کورونا وائرس کی تشخیص ہونے والے ہر پانچ مریضوں میں سے ایک کا تعلق فلوریڈا سے ہے۔ یہ سچ ہے کہ کورونا کی ڈیلٹا قسم جس طرح ایشیا‘ افریقہ اور شمالی امریکہ میں سرعت سے پھیل رہی ہے اس نے امریکہ کے طبی ماہرین کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ آج امریکہ میں جن مریضوں میں کورونا کی تشخیص ہورہی ہے ان میں 83 فیصد مریض وائرس کی اس قسم سے متاثر ہورہے ہیں مگر امریکہ کے لیے خطرہ صرف ڈیلٹا قسم ہی نہیں یہاں گاما،لامبا اور دیگر ا قسام بھی پھیل رہی ہیں۔ کون جانتا ہے کہ کون کونسی اقسام مستقبل میں امریکیوں کو متاثر کریں گی جن کی ابھی تک دنیا یا امریکہ میں تشخیص ہی نہیں ہوئی۔ دنیا کے کسی بھی کونے میں کورونا سے متاثرہ شخص وائرس کی ایک نئی قسم کا موجب بن سکتا ہے اور دنیا میں مزید انفکیشن کے پھیلائو کی وجہ بھی ہو سکتا ہے۔ ایسا ہو بھی رہا ہے۔ امریکیوں کو ہر اس نئی قسم سے اس وقت تک خطرہ رہے گا جب تک تمام امریکی ویکسین نہیں لگوا لیتے جو اب تک ویکسین لگوانے سے گریز کر رہے ہیں یا جن تک حکومت پہنچ نہیں سکی۔ جن لوگوں نے ویکسین نہیں لگوائی وہی امریکیوں میں بار بار کورونا کی مختلف اقسام کے پھیلائو کی وجہ بنتے رہیں گے۔ یہی نہیں یہ لوگ ان افراد کے لیے بھی مستقل خطرہ بنتے رہیں گے جو ویکسین لگوا چکے ہیں۔ بھلے ہی ایسے افراد کے لیے انفیکشن جان لیوا ثابت نہ ہو۔ اسی وجہ سے بیشتر معاشروں میں عوام کو ماسک پہننے کا کہا جارہا ہے۔ اگر حالات یہی رہے تو ملک میں کورونا پابندیاں مزید سخت ہو سکتی ہیں بلکہ ممکن ہے حکومت کو ماضی کی طرح مکمل لاک ڈائون کی طرف جانا پڑے۔ کاروباری ادارے‘ سکول بند کرنا پڑیں۔ ان حالات میں ویکسین لگوانے والے کچھ افراد کو بھی کورونا انفیکشن پھر سے ہو سکتی ہے کیونکہ وبا کے پھیلائو میں اصل وائرس کے مریض نہ ہونے کے برابر ہوں گے جیساکہ ڈیلٹا وائرس کا معاملہ ہے کہ اب کورونا کے مریضوں کی دو تہائی میں یہ وائرس تشخیص ہورہا ہے۔ ڈاکٹر ہینج کے مطابق وائرس کے پھیلائو کا سب سے بڑا سبب وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے ویکسین نہیں لگوائی۔ اگر وبا دوبارہ پھیلتی ہے تو اس صورت میں کچھ لوگ تو ایسے ہوں گے جن میں بیماری کی کوئی علامت بھی ظاہر نہ ہوگی جبکہ کچھ اچانک سخت بیمار پڑ جائیں گے۔ ان میں کچھ ایسے بھی ہوں گے جنہوں نے ویکسین لگوائی ہوگی مگر وہ اس قدر بیمار ہوں گے کہ ان کو ہسپتال جانا پڑے گا۔ ان افراد سے ان کے بچوں اور دیگر رشتہ داروں کو و ائرس لگنے کا خطرہ ہوگا۔ طبی ماہرین کی اصل پریشانی یہ ہے کہ وائرس کی کچھ ایسی اقسام کاانکشاف بھی ہوا ہے جن کے متاثرہ مریضوں کو مہینوں ہسپتال میں رہنا پڑ رہا ہے۔ اس خطرناک صورتحال سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ویکسین لگائی جائے۔ اس کے لیے محکمہ صحت کے ساتھ میونسپلٹی کارپوریشن‘ تعلیمی اور کاروباری اداروں کو بھی کوشش کرنا ہوگی مگر فی الحال تو یہ مشکل ہی محسوس ہوتا ہے کہ تمام امریکی ویکسین لگوا کر محفوظ ہو سکیں گے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک میں ویکسی نیشن کا عمل کافی حد تک سست ہے۔ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ملک میں روزانہ اوسطاً 5 لاکھ 37 ہزار افراد کو ویکسین لگائی جا رہی ہے۔ ویکسی نیشن کے عمل میں سستی کی ایک وجہ قدامت پسند رہنمائوں کا ویکسی نیشن سے گریز کا طرز عمل بھی ہے جن میں اکثریت ری پبلکن رہنمائوں کی ہے۔ سوشل میڈیا پر کچھ لوگوں کی طرف سے گمراہ کن مہم چلائی جا رہی ہے۔ یہ اسی طرز عمل کا نتیجہ ہے کہ ابھی تک امریکیوں کی کثیر تعداد نے ویکسین نہیں لگوائی اور یہی آج امریکہ کا بنیادی مسئلہ بنا ہوا ہے۔ 39 فیصد امریکیوں نے ویکسین لگوانے سے صاف انکار کیا ہے جبکہ ان میں سے نصف کا کہنا تھا کہ اگر حکومت ویکسین کو لازمی قرار دیتی ہے اور ویکسین لگوائے بغیر کام اور سفر پرجانے کی پابندی لگا دی جاتی ہے تو پھر وہ ویکسین لگوا لیں گے۔ کچھ محض ہچکچاہٹ کا شکار ہیں اگر حکومت تھوڑی سی بھی توجہ دے تو ان افراد کو ویکسین لگوانے پر قائل کیا جا سکتا ہے۔ کچھ لوگوں میں سیاسی رہنمائوں کے ذریعے تحریک پیدا کی جا سکتی ہے کیونکہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سیاسی تقسیم بھی لوگوں کو ویکسین نہ لگوانے پر اکسا رہی ہے۔ ایک سروے کے مطابق ڈیموکریٹس کے حامی 86 فیصد افراد ویکسین لگوا چکے ہیں جب ری پبلکن میں یہ شرح 52 فیصد ہے۔ ان حالات میں بائیڈن کا جولائی کے آخر تک ستر فیصد امریکیوں کو ویکسین لگوانے کا ہدف کس طرح حاصل ہوسکتا ہے؟ (بشکریہ: نیویارک ٹائمز‘ ترجمہ: ذوالفقار چودھری)