مکرمی ! فلسطین میں گزشتہ کئی روز سے جاری اسرائیلی جارحیت قابل مذمت ہے۔ فلسطین کے مسلمانوں کے لیے زبان پہ دعائیہ کلمات جاری ہوتے ہیں تو ساتھ ہی آنکھیں وہ تمام مناظردیکھ کر احساسِ شرمندگی سے نم ہوجاتی ہیں۔ دکھ ہوتا ہے خون میں لت پت بچوں کو دیکھ کر، بے آسرا بزرگوں کو دیکھ کر، ملبے کے ڈھیر میں دبے شہید مکینوں کو دیکھ کر۔ ہر بار سوشل میڈیا پر اسٹیٹس کے ذریعے، دنیا بھر میں ریلیوں کے ذریعے ان حملوں کی مذمت کی جاتی ہے۔ لیکن آخر کیوں یہ آوازیں عملی اقدامات کی شکل میں کوئی خاطر خواہ اثرات مرتب نہیں کر پار ہیں؟ آخر کیوں ان آوازوں میں اتنا دم نہیں ہے کہ فلسطینیوں کے کانوں میں میزائلوں کی ہر روز گونجتی آوازوں کو دبا سکیں؟ حالیہ ایک فیس بک پوسٹ میں مسجد اقصیٰ کے علاقے کی نشاندہی کی گئی ہے تاکہ قبلہ اول کو صحیح پہچانا جا سکے۔ پوسٹ دیکھ کر یہ سوچا کہ شاید یہی وجہ ہے کہ آج تک ہم فلسطینی مسلمانوں کی مدد نہیں کر پا رہے کہ ہم اب تک قبلہ اول کو ہی نہیں جانتے اور پہچانتے۔ ہمارے پاس علم کا وہ مضبوط ہتھیار ہی نہیں ہے کہ جس کی مدد سے ہم دشمن کو زیر کرسکیں۔ ہم سب کا تاریخ سے ناواقف ہونا بھی ایک اہم سبب ہے۔ ہمیں کوشش کرکے دن کا کچھ حصہ اس مقصد کے لیے بھی صرف کرنا چاہیے کہ ہم اسلامی تاریخ جانیں تا کہ صرف فلسطین ہی نہیں بلکہ دنیا میں جہاں کہیں بھی مسلمان ظلم کا شکار ہیں ان سب کی عملی مدد کر سکیں۔ (حافظہ ضحی تصور‘کراچی)