سرِ عنوان،حضرت اقبال کی شہرۂ آفاق نظم’’ابلیس کی مجلس ِ شوریٰ‘‘کے معروف شعر کا مصرعۂ ثانی ہے ،اقبال کے یہ فکر انگیز اور پُر تاثیر اشعار،ان کی زندگی کے آخری سالوں ، یعنی1936ء میں تخلیق اور ترتیب شدہ ہیں،جس میں انہوں نے اسلام اورمسلمانوں کے خلاف شیطانی قوتوں اور یورپ و امریکہ کی ریشہ دوانیوں بلکہ سازشوں کو ایک تمثیل کے پیرائے میں بے نقاب کیا،بیسوی صدی کے آغاز میں دنیا میں متعدد انقلاب رونما ہوئے،جن میں1917ء میں روس کا سیاسی ا نقلاب،1932 ء میں اٹلی کی فاشسٹ ریاست کا وجود، جرمنوں کا نازی ازم اور جاپان و اسپین میں آمرانہ نظام، غرضیکہ دوسری جنگ عظیم1939ئ،مابعد آنیوالے انقلابات کے تناظر میں،اقبال مسلمانوں کو اس حقیقت سے آگاہ کرنا چا ہ رہے ہیں کہ دنیا میں اگر کوئی نظامِ حیات،ابلیسی سسٹم کا خاتمہ کرسکتا ہے،تو وہ صرف اور صرف اسلام ہے،از خود ابلیس اور ابلیسی قوتیں بھی اس راز اور حقیقت سے واقف رہیں، اس لیے وہ اس دین کے ترویج و تشہیر سے ہمیشہ خائف اور اس کو ختم کرنے کے لیے ہمیشہ کمر بستہ رہیں، حضرت اقبال نے ایک’’خیالی اسمبلی‘‘یعنی مجلس شوریٰ تشکیل دی ، جس میں شیطان اپنی سربراہی میں اپنی کابینہ کے مختلف ممبران کی طرف سے پیش کردہ خیالات پر ان کی راہنمائی کرتا اور اپنی فیصلہ کن رائے دیتا ہے: جانتا ہُوں مَیں یہ اُمّت حاملِ قُرآں نہیں ہے وہی سرمایہ داری بندۂ مومن کا دِیں جانتا ہُوں مَیں کہ مشرق کی اندھیری رات میں بے یدِ بیضا ہے پیرانِ حرم کی آستیں عصرِ حاضر کے تقاضاؤں سے ہے لیکن یہ خوف ہو نہ جائے آشکارا شرعِ پیغمبر ﷺ کہیں الحذَر! آئینِ پیغمبر ﷺ سے سَوبار الحذَر حافظِ نامُوسِ زَن، مرد آزما، مرد آفریں مغربی دنیا …جو خود کو ماڈریٹ،روشن خیال،جدّت پسند اور انسانیت نواز۔۔۔رویّوں اور طرزِ عمل کے طور پر معروف اور معتبر رکھنے کے لیے بیتاب اور بیقرار رہتی ہے،لیکن اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ان کا غم و غصہ،تعصب اور تشدّد۔۔۔انسانی اور اخلاقی حدیں عبور کرتا ہوا،اپنے انتہائی نقطے تک پہنچ رہا ہے،جس کا مظاہرہ متمدن دنیا کے روشن ترین ملک کینیڈا کے صوبہ اونٹاریو کے شہر لندن میں گزشتہ دو روز پہلے اس وقت ہوا،جب ایک بیس سالہ نوجوان نے سرِ راہ چہل قدمی کرنے والے ایک پاکستانی خاندان کو اپنی گاڑی کے نیچے کچل دیا۔جن میں اڑتالیس سالہ پاکستانی فزیو تھراپسٹ، سکی چوہتر سالہ والدہ،چوالیس سالہ بیوی اور پندرہ سالہ بیٹی شامل تھی،اس متاثرہ خاندان کا نو سالہ بچہ شدید زخمی حالت میں،ہسپتال میں زیرِ علاج ہے،ازحد تکلیف دہ اور کربناک،اس واقعہ نے پوری دنیا کے مسلمانوں بلکہ عالمِ انسانیت کو مغموم و اداس بلکہ پریشان کردیا ہے، پاکستان کے وزیر اعظم گزشتہ دو اڑھائی سالوں میں قومی اور بین الاقوامی ایوانوں اور اعلیٰ ترین فورمز پر ،عالمی برادری کو مغرب میں’’اسلامو فوبیا‘‘کے بڑھتے ہوئے ان ہولناک اور خوفناک رحجانات کی طرف متوجہ کرنے اور فیصلہ کن اقدامات بروئے کا ر لانے اور مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنے پر مائل بلکہ قائل کرنے کے لیے مسلسل کوشاں ہیں، لیکن تاحال اس پر کوئی موثراور ٹھوس لائحہ عمل سامنے نہیں آسکا اور اسلام کے خلاف اس جنونیت اور درندگی میں آئے روز اضافہ ہورہا ہے،جس پر یقینا اُمّتِ مسلمہ اور بالخصوص مسلم ممالک کی فکر مندی،ایک لازمی،یقینی اور فطری امر ہے،جس کے لیے کسی مشترکہ اورمتفقہ پالیسی کی ضرورت ہے،جناب وزیراعظم نے جس طرح"Convention"کی تیاری اور پھر اُس پر اتفاق رائے کی بات کی تھی،یقینا یہ ایک مستحسن قدم تھا ،بین الاقوامی سطح پر ماضی میں بھی اس نوعیت کے معاہدات،دنیا میں ہوتے رہے،بالخصوص دنیا میںپائیدار امن کے قیام کے لیے بعض ریاستوں اور بین الاقوامی اداروں /تنظیمات جن میںایک اہم نام آئی سی آر سی (International committee of the Red cross) کاہے ،جس نے جنگ کی تباہ کاریوں اور ہولناکیوں سے دنیاکو محفوظ رکھنے کے لیے 1864ء سے لیکر 1949ء تک،مختلف اوقات میں سوئٹزر لینڈ کے دارالحکومت جنیوا میںہونے والے معاہدات پر اقوام عالم کے دستخطوںکا اہتمام کیا،جن کا مقصد جنگوں کو منضبط کرنا،جنگ میںحصہ لینے والے افراد کے حقوق وفرائض،جنگ میں مزید حصہ نہ لینے والوں ،زخمیوں،عام شہریوں کی املاک،ان کی زندگیوں کی حفاظت اور جنگی قیدیوں سے انسانیت پر مبنی سلوک کو یقینی بنانا تھا۔ان معاہدات کی مزید تکمیل 1977ء کے دو اضافی پروٹوکول سے ہوئی ہے۔اسی طرح نیدر لینڈ کے شہر ہیگ میں متعدد معاہدات ہوئے،جنہیں Hague Conventionsکہاجاتا ہے۔ان معاہدات میں جنگی طریقوں کومنظم کیا گیا،یعنی جنگ میں کونسے ہتھیار استعمال کرسکتے ہیں اور کونسے ممنوع ہیں۔ان معاہدات میں ممنوع افعال کو جنگی جرم (War Crime) قرار دیا گیا ہے،جس کیلئے ایک عالمی عدالت International Criminal Courtکا قیام عمل میں لایا گیا ، تاکہ ان قوانین کی عملاً تنفیذکی جاسکے۔جنیوا اور ہیگ کے مذکورہ معاہدات کا بنیادی مقصد انسانوں کی تکالیف کا ازالہ کرناہے۔اسی طرح ریاستوں کے مابین تعاون اور تعلقات کے حوالے سے کئی بین الاقوامی معاہدے موجود ہیں۔اقوام متحدہ کا ادارہ بھی اس حوالے سے،از خود ایک مثال ہے۔بین الممالک تنازعات کے پُر امن حل کیلئے بین الاقوامی عدالت برائے انصاف موجود ہے ۔ یہ تمام تر کوششیں دُنیا میں فروغ امن کے لیے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر وہ عمل جو بین الممالک اور بین المذاہب امن کو سبو تاژ کرنے کا باعث ہو،اُس کا سدّ باب کیاجائے ۔ یہاںیہ نقطہ بھی قابل ذکرہے کہ مغرب اپنی تمام تر جدّت طرازی اور روشن خیالی کے باوجود،حضرت عیسیٰ کی توہین کو قانونی طور پرجرم سمجھتا ہے۔بالخصوص سابقہ ادوار میں تو تقریباً تمام یورپی ممالک میں خدا،یسوع مسیح،روح مقدس اور عقیدہ تثلیث کی توہین کرنے والوں کے خلاف سخت قانون موجود تھے،اور تمام تر ترقی اور آزادی رائے کے باوجود جدید یورپی قوانین میں سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین کرنے والوں کے خلاف قانون کو نکالا نہیں جاسکا ،ممکن ہے ان کے نفاذ اور عملدرآمد میںوہ سختی نہ ہو۔جناب وزیر اعظم کے مذکورہ خطاب کی روشنی میں ضروری ہے کہ دنیاکے تمام ممالک کی ایک ڈپلو میٹک کانفرنس منعقد کی جائے، جس میں ایسے ماہرین شامل ہوں،جو بین الاقوامی قانون کے ساتھ ساتھ تمام مذاہب کے بنیادی عقائد سے بھی بھرپور واقفیت رکھتے ہوں اوروہ مل کرایسی متفقہ قانون سازی کریں جو دنیا بھر کے تمام باشندوں پر تمام مذاہب کی مقتدر شخصیات کے احترام کو لازم ٹھہرائیں۔ ’’جنیوا کنونشنز ‘‘اور ’’ہیگ کنونشنز ‘‘کی طرز پر ایک اور ’’انٹرنیشنل کنونشن‘‘ ترتیب دیا جائے اور اس کی عملی تنقیذکے لیے ایک بین الاقوامی عدالت قائم کی جائے تاکہ دنیا کے تمام مذاہب کے ماننے والے باہم دست وگریباں نہ ہوںاور دنیا کا امن تباہ وبرباد نہ ہو۔ اس ضمن میں پاکستان کا کردار کلیدی ہوسکتا ہے ،جس کے لیے پاکستان کو ایک بین الاقوامی ڈپلو میٹک کانفرنس منعقد کرکے،اس کارِ عظیم میں سبقت حاصل کرنی چاہیے ۔