اسلام آباد (سٹاف رپورٹر،92 نیوز رپورٹ، مانیٹرنگ ڈیسک، آن لائن) گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم نے اپنے بیان حلفی سے متعلق توہین عدالت نوٹس پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں تحریری جواب جمع کرادیا۔ چیف جسٹس اطہرمن اﷲ نے رانا شمیم کو پیر تک وقت دیتے ہوئے کہاکہ اگر پیر تک بیان حلفی پیش نہیں کرتے تو فرد جرم عائد کردینگے ۔رانا شمیم نے تحریری جواب جمع کراتے ہوئے کہا کہ جو کچھ حلفیہ طور پر کہا، ان حقائق پرسابق چیف جسٹس ثاقب نثار کاسامنا کرنے کیلئے تیار ہوں، ثاقب نثار سے گفتگو گلگت میں ہوئی جو پاکستان کی حدود سے باہر ہے ، میں نے بیان حلفی پبلک نہیں کیا، میرے خلاف توہین عدالت کی کارروائی نہیں ہو سکتی ، اپنی زندگی کے دوران پاکستان میں بیان حلفی پبلک نہیں کرنا چاہتا تھا۔رانا شمیم نے کہا کہ برطانیہ میں بیان ریکارڈ کرانے کا مقصد بیان حلفی کومحفوظ رکھنا تھا لہذا توہین عدالت کی کارروائی واپس لی جائے ۔ رانا شمیم نے کہا کہ اپنا بیان حلفی پولیس کو بھیجا نہ کسی اور کو، بیان حلفی میں بیان حقائق بتانے کو تیار ہوں، سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے حلف نامے کی کاپی جمع کر ارہا ہوں،سوشل میڈیا والے حلف نامے کے مندرجات وہی ہیں جو میرے جواب میں ہیں۔ حلف نامے میں بیان واقعہ 15 جولائی 2018 کی شام 6 بجے کے آس پاس کا ہے ، میں نے مرحومہ بیوی سے وعدہ کیا تھا کہ اس وقت پیش آنیوالی حقیقت کو تحریری طور پر ریکارڈ کراؤں گا، حلف نامے کی شکل میں مرحومہ بیوی سے کیا وعدہ پورا کیا ، عدلیہ کی تضحیک کا ارادہ ہوتا تو پاکستان میں حلف نامہ میڈیا کو دیتا ، بیان حلفی کو زندگی میں عام کرنے کا ارادہ نہیں رکھتاتھا اسلئے مناسب سمجھا کہ بیان ریکارڈ کراؤں اور حلف نامہ پاکستان سے باہر نوٹرائز کراؤں۔ بیان حلفی پوتے کو دیا اور ہدایت کی کہ اسے نہ کھولے ۔ مجھے نہیں معلوم کہ حلف نامہ رپورٹر تک کیسے پہنچا۔عدلیہ کو بدنام کرنے یا مذاق اڑانے کا ارادہ تھا نہ عدالتی کارروائی کو متاثر کرنے کی کوشش کی۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اصل بیان حلفی کہاں ہے ، ججز کی غیرجانبداری پر سوال اٹھا، پوری زندگی کسی کو خود تک رسائی نہیں دی ، عدالتی معاون نے بتایا کہ اگر رانا شمیم کی دستاویز پرائیویٹ ہے تو پھر ان پر توہین عدالت نہیں بنتی۔ عدالت نے کہا کہ توہین عدالت کی کارروائی کسی جج کی عزت بچانے کیلئے نہیں، تاثر دیا گیا کہ مخصوص شخص الیکشن سے پہلے رہا نہیں ہونا چاہیے اور ججز پر دباؤ ڈالا گیا،یہ بیان حلفی شائع کرنا بھی اسی بیانیے کی کڑی ہے ، جسٹس عامر فاروق اس وقت چھٹیوں پر تھے جب اپیلوں پر سماعت تھی کیا چھٹیوں پر موجود جج نے باقی دو ججز کا بھی سمجھوتہ کرایا، تاثر دیا گیا ہائیکورٹ کے تمام ججز نے سمجھوتہ کیا۔یہ کیوں ہوا کہ رانا شمیم نے تین سال بعد بیان حلفی لکھا،اگر ضمیر جاگ گیا تھا تو بیان حلفی کہیں جمع کراتے ۔ عدالت کو سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے غرض نہیں، مسئلہ اس عدالت کے اپیلیں سننے والے بنچ میں شامل ججز پر الزام کا ہے ، آپ کیاچاہتے ہیں مجھ سمیت تمام ہائیکورٹ ججز کے خلاف انکوائری شروع ہوجائے ، رانا شمیم کو بیان حلفی پیش کر کے اچھی نیت ثابت کرنی ہو گی، جو بیانیہ بنایا جا رہا ہے وہ تکلیف دہ ہے ، ان الزامات کا کوئی ایک ثبوت لے کر آ جائیں، اگر اس بیانیے میں ذرا سی بھی حقیقت ہے تو میں ذمہ داری لیتا ہوں۔رانا شمیم کے وکیل لطیف آفریدی نے کہاکہ اصل بیان حلفی رانا شمیم کے نواسے کے پاس ہے ، رانا شمیم کو بیان حلفی لینے کے لیے بیرونِ ملک جانے کی اجازت دیں جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ باہر نہیں جاسکتے ۔ عدالت نے پیر 13 دسمبر تک سماعت ملتوی کر دی۔ سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو میں سابق چیف جج رانا شمیم نے کہا کہ میرے پیچھے ایجنسیاں لگی ہیں ،وہ میری گاڑی کا پیچھا کرتی ہیں، مجھے ہراساں کیا جا رہا ہے ۔ وکیل لطیف آفریدی نے کہا کہ برطانیہ میں انکے پوتے کو بھی ہراساں کیا جارہا ہے ۔