وزیر اعظم عمران خان نے کرتار پور میں سکھ یاتریوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اس بات کی یاددہانی کرائی کہ برصغیر میں ترقی کے لئے تنازع کشمیر کا حل ناگزیر ہے۔ یہ کہا اس لئے بھی درست معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جب کبھی مذاکرات کا سلسلہ چلا اور اس کے نتیجے میں سی بی ایم کئے گئے تو کسی معمولی سے واقعے نے ساری محنت پر پانی پھیرتے دیر نہیں لگائی۔ اعتماد سازی کی ہر تدبیر ریت پر لکھی تحریر ثابت ہوئی جو پانی کی کمزور سی لہر کے ساتھ بہہ گئی۔ دنیا کئی دہائیوں کی سرد جنگ کے خونیں دورسے باہر آئی۔ دو قطبوںمیں تقسیم طاقت کا خاتمہ ہوا۔ دنیا میں طاقت کے متعدد مراکز ابھرے تو بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین نے تنازعات کو طے کرنے کے متبادل طریقوں پر غور شروع کر دیا۔ محققین نے ثابت کیا کہ کسی تنازع کو اگر پرامن طریقے سے طے کرنا مطلوب ہو تو فریقین ایک دوسرے پر اعتماد کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ اعتماد سازی کے اقدامات فوجی اور غیر فوجی دونوں طرح کے ہو سکتے ہیں۔ جب پاکستان اور بھارت کے درمیان اعتماد سازی کے اقدامات کی بات ہوئی تو اس کے لئے دونوں طرف سے عوامی رابطے کھولنے‘ ثقافتی وفود کے تبادلے‘ ریٹائرڈ فوجی افسران کے درمیان مکالمہ اورتجارتی مواقع بڑھانے کی بات ہوئی۔ وقفے وقفے سے یہ سب انتظامات ہوتے رہے مگر بنیادی مسئلہ کشمیر تھا جس پر بھارت کوئی بات کرنے کو تیار نہ ہوا۔ بھارت نے پہلے پارلیمنٹ پرحملے کا الزام عائد کیا۔ پھر بمبئی حملے کا الزام تراش لیا۔ چھوٹے موٹے کئی دوسرے واقعات کو بھی پاکستان کے سر تھوپ کر تعلقات میں مکالمے کی گنجائش کا گلہ گھونٹ دیا۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ کئی برسوں سے بند ہے۔ برسہا برس کی کوششوں کے بعد اب ماہرین یہ سمجھنے لگے ہیں کہ جنوب مشرقی ایشیا کے تنازعات طے کرنے کے لئے سی بی ایم ایمز ناکافی رہے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان گہری سنگین کشیدگی کے ماحول میں سی بی ایم ایمز کام نہیں کر سکتے‘ سی بی ایمز مغرب کے سفارتی ماحول کی چیز ہے جنوب مشرقی ایشیا میں ان کی افادیت نہیں۔ تنازع کشمیر اپنی ہئیت میں گنجلک اور پیچیدہ نہیں۔ بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کا چارٹر رہنمائی کرتا ہے۔ ایک اصول ساری دنیا تسلیم کرتی ہے کہ کسی علاقے کی آبادی کو اس کی مرضی کے بغیر کوئی ملک اپنا غلام نہیں رکھ سکتا۔ اہل کشمیر کا مقدمہ پون صدی پرانا ہے۔ الحاق کا فیصلہ کون کرے اس میں بھی کوئی ناقابل فہم نکتہ نہیں تھا۔ ریاست کا جدید تصور عوام ہی ہیں۔ مہاراجہ کشمیر جانتے تھے کہ کشمیری عوام پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں لیکن مہاراجہ کو اپنی حیثیت کی کچھ ضمانت درکار تھی۔ کانگرسی قیادت نے ورغلا کر مہاراجہ کو قابو کر لیا اور الحاق کی جو شرائط طے کیں ان کو بھارت کے آئین کی شق 370کا حصہ بنا دیا۔ پاکستان کشمیری عوام کے ساتھ کھڑا رہا۔ دونوں ملکوں کے درمیان جو چار جنگیں ہوئیں ان کی بنیادی وجہ تنازع کشمیر ہی ہے۔ بھارت خود اقوام متحدہ میں گیا۔ تسلیم کیا کہ کشمیر متنازع علاقہ ہے اور بھارت وہاں استصواب رائے پر تیار ہے۔ بہتر برس ہو گئے پاکستان اور کشمیری اس وعدے پر عملدرآمد کا انتظار کر رہے ہیں۔ اصول یہ ہونا چاہیے کہ اپنی اس وعدہ خلافی کے باعث بھارت کچھ ایسے اقدامات کرتا جو پاکستان اور اہل کشمیر کو یقین دلاتے کہ بھارت اس مسئلے کو خلوص نیت سے حال کرنے کا خواہاں ہے‘ مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ مودی سرکار نے یکطرفہ طور پرکشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کا خاتمہ کر دیا۔ کشمیر میں ایک سو دنوں سے کرفیو نافذ ہے۔ بھارتی فوجی کشمیریوں کے باغات اور کاروبار کو تباہ کر رہے ہیں۔ گھروں کو نذر آتش کیا جا رہا ہے۔ معصوم بچوں کو حراست میں لے کر نامعلوم مقامات پر منتقل کیا جا رہا ہے۔ کشمیری عفت مآب خواتین کی عصمت دری کی ویڈیوز سامنے آ چکی ہیں۔ ہزاروں کشمیری بھارت سے آزادی کی جدوجہد میں اپنی جانیں قربان کرچکے ہیں۔ ایسے ماحول میں پاکستان کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ چپ سادھے رکھے۔ ساڑھے تین ماہ کے جبر پر عالمی برادری کا ردعمل ہمدردانہ رہا ہے مگر یہ ہمدردی کشمیریوں کے دکھوں پرکوئی مرہم رکھنے کے قابل نہیں۔ تنازع کشمیر پر عالمی برادری کی یہ خالی ہمدردی پرامن طریقے سے جھگڑے طے کرنے کے امکانات کو معدوم کررہی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان بار بار یہ واضح کر چکے ہیں کہ دونوں ملکوں کی قیادت سمجھداری کا ثبوت دے تو کشمیر سمیت تمام تنازعات کو پرامن طریقے سے طے کیا جا سکتا ہے۔ وہ یہ یاد دہانی کراتے رہتے ہیں کہ خطے کے پچاس کروڑ سے زائد افراد خط غربت سے نیچے صرف اس لئے زندگی گزار رہے ہیں کہ بھارت کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کئے ہوئے ہے اور امن کو مسلسل خطرے میں ڈالے ہوئے ہے۔ کرتار پور راہداری کھولنا ایک اہم پیشرفت ہے۔ یقینا اس سے سکھ مت کے کروڑوں پیروکاروں کو اپنے پیشوا کی آخری آرامگاہ پر حاضری کا موقع ملے گا۔ اس سے دوطرفہ تعلقات میں تبدیلی کی جو امید تھی وہ بھارتی سپریم کورٹ کے بابری مسجد پر متعصبانہ فیصلے نے ختم کر دی۔ لے دے کر اب یہی کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان اور بھارتی سکھ ایک دوسرے کے قریب آئے ہیں۔ پاکستان مسلسل ایسے اقدامات کے لئے کوشاں ہے جو خطے میں تعمیر و ترقی کے عمل کو بڑھاوا دیں۔ ایک طرف تجارتی سی پیک راہداری ہے تو دوسری طرف کرتار پور راہداری کھولنے کا کام۔ اس صورت حال میں بھارت کا کشیدگی برقرار رکھنے پر بضد رہنا سکھ مت کے پیروکاروں‘ کشمیریوں اور بھارت میں مقیم مسلمانوں کے لئے خطرات کا سبب بن رہا ہے۔