ظہور قدسی اور طلوع اسلام کے وقت دنیا کی دوسپر پاورز میںسے ’’رومن ایمپائر‘‘ نے بتدریج عیسائیت کو اپنا سرکاری مذہب قرار دیکر ،ایک طرف سلطنتِ روم کو مستحکم اور دوسری طرف عیسائیت کے دائرہ دعوت وتبلیغ کو وسیع سے وسیع ترکردیا ،نبی اکرم ﷺ کی ولادتِ با سعادت سے صرف ڈیڑھ سو سال قبل قیصر قسطنطین نے 313ء میں عیسائیت کو قبول کرکے ،اس کی تبلیغ وتشہیر کے لیے حکومتی وسائل کی ارزانی کو ہر ممکن یقینی بنایا۔رومی حکمرانوں نے عیسائی پادریوں اور راہبوں کے لیے حدود سلطنت میں نہایت شاندار گر جے اورخانقاہیں تعمیرکروائی۔ کِسریٰ (Persia) کی نسبت ’’رومن‘‘اپنے اس سرکاری مذہب کی تبلیغ میں بہت زیادہ گرم جوش تھے ، چنانچہ عرب قبائل جو شام کی سرحدوں کی قریب تھے ،وہ بھی عیسائیت کی طرف مائل تھے ،مزیدیہ کہ مجموعی طور پر عرب ---عیسائیت کے بارے میں نرم سوچ اور رویّے کے حامل تھے ، اس کی ایک اہم وجہ--- عربوں کے قدیم تجارتی قافلوں کا شام کی طرف سفر ، اور عیسائی تاجروں کی جزیرئہ عرب آمد ورفت تھی، جس کے سبب ہر دو طبقات کو ایک دوسرے کے عقائد اور طرزِ معاشرت کوسمجھنے میںمدد ملتی ، رومن ایمپائر نے اہم تجارتی شاہرائوں پر---عیسائی گرجوں اورکرسچن مذہبی اور روحانی شخصیات کو بڑی عالی شان عمارتیں تعمیر کرواکے دیں ،جو دراصل تجارتی قافلوں اور کاروانوں کے لیے ایسی پناہ گاہیںتھی ،جہاں انہیں قیام کی سہولت میسر ہوتی ،یہاں اُن کے سستانے اور ٹھہرنے کے ایسے عمدہ انتظامات تھے کہ اس کی تفصیل پڑھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہے ۔مہکتے پھول اور لہلہاتی کھیتیاں ---حسین مناظر اور رنگین مظاہر ان کو دعوتِ نظارہ دیتے اور ان کے قلب ونظر کو آسودہ کرتے ،ان عیسائی خانقاہوں میں سامانِ طرب سے لیکر اسبابِ لذت کی بہتات اور فراوانی ---اپنی جگہ ، مستزادیہ کہ راہب اپنے ان مہمانوں اور تجارتی کا روانوں کی راہنمائی کے لیے ،رات کی تاریکی میں، شمعیں روشن کرکے ،اپنی خانقاہوں کے باہر کھڑ ے رہتے ،تاکہ شب کی سیاہی گذرنے والے قافلوں کے لیے دقّت کاباعث نہ ہو۔ایساہی ایک قافلہ مکہ سے اس وقت روانہ ہونے کو تھا ، جب نبی اکرم ﷺ کی عمر مبارک 12سال تھی، حضور ﷺکے مونس وغمگسار چچا حضرت ابو طالب--- تجارتی مقاصدکے لیے شام کے سفر پر روانہ ہونے لگے ، تو سیر ت نگارلکھتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ’’آپ کی اونٹی کی مہار پکڑ لی اور فرمایا ،اے میرے چچا! آپ مجھے کس کے سپرد کرکے جار ہے ہیں ، آپ تو جانتے ہیں کہ میرا نہ باپ ہے اور نہ ماں ۔‘‘المختصر ! چچا نے اپنے پیارے بھتیجے کو اپنے ساتھ اونٹنی پر سوار کیا، کئی دنوں کی مسافت کے بعد ، یہ قافلہ ’’بُصریٰ ‘‘ کے مقام پر---ایسی ہی ایک خانقاہ کے نواح میں، شب بسری کے لیے اُترا، اس چرچ یا خانقاہ کا سربراہ ،جو تاریخ میں ’’ بُحیریٰ ‘‘ کے نام سے مشہور ہے ،بُحیرٰی بنیادی طور پر سریانی لفظ ہے ، جس کا معنی عبقری اور’’ Jennies‘‘ کے ہیں ، جبکہ اُس کا اصل نام ’’ جرجیس‘‘ بتایا گیا ہے ،نے ،اپنی خانقاہ کے دریچے سے قافلہ کے پڑائو کا منظر دیکھا ---کہ اس میں ایک نو خیز بچہ ہے، جس پر بادل کا ایک ٹکڑا سایۂ فگن ہے ،اس نے مشاہدہ کیا کہ یہ بچہ جدھر جاتا ہے بادل کا یہ ٹکڑا بھی اُد ھر ہی جاتا ہے ،اس نے یہ بھی ملاحظہ کیا کہ قافلہ جب ایک درخت کے سائے میں اُترا ، تو اس بچے کے لیے سائے میں کوئی جگہ نہ تھی ،اس سے پہلے کہ بچہ دھوپ میںبیٹھتا ، درخت کا سایۂ وہاںتک پھیل گیا، جہاں یہ اولو العزم اور جلیل القدر بچہ بیٹھا تھا ، ’’بحیرٰی‘‘طلبِ دید اور شوقِ زیارت میں اپنی خانقاہ سے نکلا اور قافلے والوں کو دعوتِ طعام پیش کی، کہ اسی بہانے یہ نوخیز ہستی بھی، اس کے ہاں جلوہ گرہو گی ،جسکی جیین پر ازلی سعادتوں او رابدی رحمتوں کی روشنی چمک رہی ہے ، قافلے والے بُحیرٰی کی دعوت پر ، اس کے کلیسا میں پہنچے ،جبکہ حضورﷺ سامان کی حفاظت کے لیے اپنے خیمے ہی میںجلوہ افروز رہے ،بُحیٰری بیتاب ہوگیا کہ وہ ---جس کے لیے میںنے یہ سارا اہتمام کیا ---وہ ماہِ تمام تو جلوہ گرہی نہیںہوا، چنانچہ بحیرٰی کے تقاضے پر ، آپﷺ کے چچا حارث بن عبدالمطلب آپ ﷺ کولیکر آئے ، اس پیکر حُسن وجمال اور نورو کمال کی جلوہ گری سے بحیریٰ کے دل کو قرار آگیا، کھانے کے بعد ، سب کورخصت کرکے ، وہ حضور ﷺ کے قریب آ کر بیٹھ گیا ،اور آپ ﷺ سے چند سوالا ت کیے ،حضور ﷺ اس کے سوالوں کے جواب میں ،جو فرماتے ،وہ ان کی تصدیق کرتا ،بالآخر اس نے آپ کی پشت مبارک سے کپڑا اُٹھا یا ،اور ’’خاتم نبوۃ‘‘ کا مشاہدہ کیا، اس کو بوسہ دیا اور حضرت ابو طالب سے مخاطب ہو کر کہنے لگا ---جو چیز ہمار ی کتابوں میں درج اور ہمارے بزرگوں سے منقول ہے ، اس کے مطابق : ’’یہ سارے جہانوں کے سردار ہیں ،یہ رب العالمین کے رسول ہیں ، انہیںاللہ تعالیٰ رحمت للعالمین بنا کر مبعوث فرمائے گا۔‘‘ اس نے حضرت ابو طالب سے کہا کہ اپنے بھتیجے کو لیکر وطن واپس لوٹ جائیں اور یہودیوں سے بالخصوص ہر وقت ہوشیار رہیں ، اگر انہیں، ان کا ادراک ہوگیا تو وہ انہیں ضرور نقصان پہنچائیں گے ۔ایک روایت کے مطابق حضر ت ابوطالب انہیں لیکر فوراً واپس آگئے جبکہ دوسری روایت کے مطابق شام میں اپنے ضروری تجارتی امور نپٹا کر، فوراً مکہ واپس روانہ ہوگئے،بہر حال ہر دو روایات اس امر کی غماز ہیںکہ آپ ان پیشین گوئیوں پر کسی طرح بھی متردّد نہ ہوئے، بلکہ آپ نے ’’ تَصْدِ یْقٌ بِا لْقَلْب ‘‘ فرماتے ہوئے ،آپ کی نگہبانی اور کفالت کا جو حق ادا کیا ،شاید تاریخِ انسانی میں کوئی چچا اس سے بڑ ھ کر اپنے بھتیجے کے ساتھ محبت ووارفتگی کے مناظر پیش نہ کر سکے ۔قوم کے سوشل بائیکاٹ اور شعبِ ابی طالب میں گذرے کٹھن اور پُر آشوب تین سال کے بعد ، حضرت ابو طالب کا انتقال 10نبوی میں،ایک روایت کے مطابق 25ربیع الاوّل کو،جبکہ بعض روایات میں پندرہ شوال المکرم یا ماہِ ذیقعدہ میں ، اَسّی سال کی عمر میں آپ کا انتقال ہوا،بہر حال خانوادئہ نبوّت ،اہل بیت رسالت اور اصحابِ رسول کی بار گاہ میں عقید توں ،محبتوں اور ادارتوں کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے "92" نے سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے ۔ نبی اکرم ﷺ نے اس سال کو ’’عام الحزن‘‘ قرار دیا ،حضرت ابو طالب ---بنو ہاشم کے سردارتھے ،قبائلی نظام میں کسی قبیلے کے فرد کو گزند پہنچانا ، گویا پورے قبیلے کے ساتھ اعلانِ جنگ کے مترادف تھا ،حضرت ابو طالب نے اعلانِ نبوت کے بعد ، ان دس بر سوں میں ، جس طرح اپنے گھرانے کو آپ کی حفاظت پر کمر بستہ رکھا اور اپنے اشعار کے ذریعے جس طرح بنوہاشم اور بنو مطلب کوآپ کے دفاع کے لیے مستعد کیا ، اس کی کوئی اور مثال پیش کرنا مشکل ہے ۔ اپنی زندگی کی آخری سانسوں میں بھی آپ نے اپنی قوم اور قبیلہ کے سربرآوردہ لوگوں کو اپنے پاس طلب کیا اور ان کو جو وصیت کی اس کے ایک ایک لفظ میں در د مندی اور دلسوزی عیاں ہے : آپ نے فرمایا : ’’ اے گروہ قریش! یہ تمہارے باپ کے بیٹے ہیں ان کے دوست بن جائو۔ جنگوں میں ا ن کے حامی بن جائو۔بخدا ! ہم میں سے جو شخص ان کے راستہ پر چلے گا، ہدایت پائے گا ۔اور جو شخص ان کی ہدایت کو قبول کرے گا وہ سعادت مند ہو جائے گا۔‘‘ حضرت ابو طالب کے انتقال کے بعد ،کفارِ مکہ نے آپ ﷺ کے قتل کا منصوبہ بنایا ، حالات کی نامساعدت یہاں تک پہنچی کہ آپ ﷺ کو طائف سے واپسی پر مطعم بن عدی کی پناہ میں مکہ میں داخل ہونا پڑا ،آپ ﷺ نے اس موقع پر جو الفاظ کہے، اس میں چچا کی رفاقت اور محبت اور فراق کی شدّت کا بھر پور احساس---محسوس ہو سکتا ہے ، آپ ﷺ نے بڑی حسرت سے فرمایا : ’’ اے چچا! کتنی جلدی میں تیرے کھو جانے کو محسوس کرنے لگا ہوں ۔‘‘