پیارے م ۔ن! جہاں رہو، خوش رہو، جس سمت بہو، شدت سے بہو! میاں! جہاں تک مَیں جانتا ہوں، حیرانی تمھاری فطرت میں ایسے ہی کُوٹ کُوٹ کے بھری ہے، جیسے ہمارے تمھارے بچپن میںپرائمری سکول کے ماسٹر اور مسجد کے مولوی ننھے مُنے بچوں میں بہت ساری عادات و صفات کُوٹ کُوٹ کے بھرا کرتے تھے، لیکن اب تم اس بات پہ زیادہ حیران ہونے مت بیٹھ جانا کہ یہ مَیں ایک دم بیٹھے بٹھائے م ۔ن کیسے ہو گیا؟ ’’برخود‘‘ دار! سیدھی سی بات ہے کہ اگر ہماری اُردو میں علی پور چٹھہ کے ایک قصباتی سکول کے منشی کا بیٹا کھڑا کھلوتا، نذر محمد سے ن۔ م ہو سکتا ہے تو تمھاری فارسی میں شہر سرگودھا کے ایک کالجی منشی کا صاحب زادہ بیٹھے بٹھائے معین نظامی سے م۔ ن کیوں نہیں ہو سکتا؟ جب ماہرین لسانیات بھی یہ صاف صاف بتاتے ہوں کہ م۔ ن کی الف بائی ترتیب بھی ن۔ م سے زیادہ درست ہے۔ نہ جانے کسی محقق کی نظر اس نذر پہ کیوں نہیں پڑی جو یہ عقدہ کشائی کرتا کہ اس چشتی زادے کا نہ صرف ن۔ م اُلٹ تھا بلکہ یہ نام رکھنے کے بعد اُس کا ہر ایک کام بھی معکوس الترتیب تھا۔ ماسٹر فضل الٰہی چشتی نے اس فرزندِ غرض مند کو ملک سے باہر کیا بھیجا ، وہ آپے ہی سے باہر ہو گیا۔ پہلے پہل اربابِ وطن کی بے بسی کے انتقام کا لذیذ و غلیظ بہانہ بنا کر شیلا کی جوانی پہ مر مٹا، جیتے جی اس کی محبت کی آگ میں جلتا رہا اور مرتے سار ہی سچ مچ کی آگ میں جل بجھا۔ میاں نظامی! یہ بات میرے مشاہدے میں اسی طرح آئی ہے، جیسے کسی ایکسرے مشین میں چھاتی کا مرض آتا ہے کہ یہ جو تم لوگ ظاہر میں استاد زادے کہلاتے ہو… استاد زادے تم محض نام ہی کے ہوتے ہو، اندر اندر تم خود بڑے استاد ہوتے ہو! لیکن میاں مَیں تمھارے والدِ گرامی کی دور اندیشی کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا، جنھوں نے ایک نہایت اچھا کام یہ کیا کہ تمھیں شہر بدر تو کیا لیکن پکا پکا دل اور ملک بدر کرنے کا خطرہ مول نہیں لیا۔ تم ان سے بھی سیانے نکلے کہ کسی ایک ’’شیلا‘‘ پہ وقت اور جوانی ضائع نہیں کی بلکہ خود کو زمانے بھر کی شیلاؤں کے مرنے کے لیے وقف کر دیا۔اب تم بڑی سہولت سے اپنے نام کے ساتھ ’وقف‘ کی واؤ لگا کے م۔ ن۔ و۔ ہو سکتے ہو۔ اس میں مزے کی بات یہ ہے کہ یہ پورا کا پورا نام بہترین قسم کی الف بائی ترتیب میں آتا ہے۔ اس میں ایک آسانی یہ بھی ہوگی کہ تمھارے بڑے بوڑھے (اگر ظاہری حلیے میں کسی میں تم سے بھی بزرگ نظر کی جرأت ہے!) اسے مُنو پڑھ کے بھی شانت ہو سکتے ہیں۔ پیارے م ن و ! تمہید ذرا طولانی ہو گئی، مَیں کہنا تو فقط یہ چاہتا تھا کہ تم جب سے کُلیہ شرقیہ کے مدارالمہام ہوئے ہو، خود ہمارے پاؤں زمین پر نہیں پڑتے، تمھارے نہ جانے کس کس سیمرغ کی کلغی پر پڑتے ہوں گے؟ لیکن تم شاید ایک مزاح نگار کی دریدہ دہنی سے خوف زدہ ہو، جو دروغِ مصلحت کے ساتھ ساتھ ’فروغِ مصلحت‘ کا بھی قائل نہیں۔ ہماری دلی تمنا تھی کہ اپنے بھائی کو اپنے اس دلبر ادارے کی سب سے بڑی کرسی پر محض اس لیے بیٹھا دیکھتے کہ آیا اس رَتھ پر سوار ہو کر ’’ ویر میرا گھوڑی چڑھیا‘‘ والی فیل آتی ہے کہ نہیں!!! دوسرا موقع تمھیں اس ادارے میں دیکھنے کا یہ ہو سکتا تھا کہ ہم اپنی نثری تصنیف ’’زاویے‘‘ جو تمھاری ہی تقریظ سے مزین ہے، (ہمارے ’بزمِ شیرانی صاحب‘ جسے جیومیٹری کی کتاب سمجھ کے خوف زدہ ہیں کہ اس عمر میں ایک بار پھر سے جیومیٹری پڑھنی پڑھے گی) پیش کرنے کے بہانے آ جاتے لیکن اس میں بھی تمھاری احتیاط پسندی آڑے آ گئی کہ تم نے اس عفیفہ کو قبل از وقت طلب فرما لیا۔ مزید احتیاط یہ کی کہ میری اس نثرِ بے ناب اور جذبۂ بے تاب کے بدلے میں اپنے والدِ گرامی جناب غلام نظام الدین کی ’’شعر ناب‘‘ ارسال فرما دی، جسے مَیں اُس وقت سے دیکھتا جاتا ہوں اور سوچتا جاتا ہوں کہ میرے خاندان میں بھی قلم کاری کا یہ دھندا کوئی ایک آدھ نسل پہلے شروع ہو جاتا تو مَیں موجود کی نسبت مزید کتنا خطرناک ہوتا؟ میاں! یہ کتاب کیا ہے؟ علم و عرفان کی زنبیل ہے، دانش و آگہی کی سبیل ہے، راہِ سلوک کی وکیل ہے، سب سے بڑھ کے فارسی، اُردو اورپنجابی کے بڑے لوگوں کی یکساں سوچ کی دلیل ہے… میاں نظامی! تم جانتے تو ہوگے کہ یہ خاکسار تمھارے اس کُلیہ شرقیہ کے شعبہ ہائے اُردو و فارسی کا باقاعدہ طالب علم رہا ہے۔ اُردو میں میرٹ اور فارسی میں ڈی میرٹ (Hardship) کی بنا پر داخل ہوا۔ اس سے قبل والدہ مجھے یتیمی کا صرف ایک ہی فائدہ سمجھا پائی تھیں کہ یہ ہمارے نبی ؐ کی سنت ہے۔ فارسی میں داخلہ اس کا دوسرا ظاہری ثمر تھا۔ تمھیں بتاتا چلوں کہ میرا چار جماعتیں پڑھا والد ایک خالص دیہاتی کسان یا چھوٹا موٹا زمیندار تھا۔ کالی بندق، چِٹی گھوڑی اور بُوری بھینس کا رسیا۔ ادبی دنیا سے محض اتنا شغف تھا کہ اپنے گرائیں مولوی عبدالستار کی ’یوسف زلیخا‘ وارث شاہ کی ہیر اور میاں محمد بخش کا کلام شوق سے پڑھتا۔ احباب کی محفل میں ترنم سے سناتا۔ زندگی کی پچ پر میری اُس کی ڈھائی تین سال کی پارٹنرشپ رہی۔ اس کے باوجود میرے اندر اس ورثے نے انت کا مُشک مچایا ہوا ہے۔ مَیں تمھارے بارے میں سوچتا ہوں کہ جس کی اپنے فارسی، اُردو، پنجابی ادب میں گُندھے بزرگوار کے ساتھ کم و بیش تیس برس کی رفاقت تھی۔ ایسے بزرگ جو تمام عمر خواجہ بختیار کاکی، رومی، سعدی، خسرو، حافظ، جامی، گرامی، غالب، بو علی، بُلھے شاہ، میاں محمد، خواجہ غلام فرید اور مہر علی شاہ کو اپنے اوپر طاری کیے رہے، جس کی یہ کتاب شاہد ہے۔ ایسے میں تم اگر اِس علم، ادب، ثقافت کے ڈیڑھ سو سالہ تاریخ کے حامل ادارے کے مدار المہام بن بیٹھے ہو تو کون سا تیر مار لیا ہے؟؟؟