پی آئی اے سے ریٹائرڈ اقبال درانی میرے خالو ہیں آجکل ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں ان کی مصروفیات کا محور ان کا دس ماہ کا پوتا محمدہے جس کے بعد عمران خان کے حق میں نشر ہونے والی خبریں پڑھنااور ٹاک شو دیکھنا اور ان سے مثبت نتائج اخذ کرکے بیان کرنا ان کی پسندیدہ سرگرمیاں ہیں ۔کل ان سے ملاقات ہوئی کہنے لگے رمضان آگیا ہے ذخیرہ اندوزوں کی باچھیں کھل گئی ہیں ،گائے کا گوشت ہڈی والاساڑھے چھ سو اور بغیر ہڈی ساڑھے سات سو روپے کلو فروخت ہورہا ہے۔ بکرے کا گوشت بارہ سو روپے کلوہوگیا ہے ،افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگے چینی کی بھی قلت ہو گئی ہے میں ان کی بات سن کر خاموش رہاکہ اگر کچھ کہتا تو محفل کا رنگ بدل جاتا۔ خالو کے گھر سے واپسی پر میری پانچ سالہ بیٹی بریرہ نے ترکش آئس کریم کھانے کی ضد کردی ،راولپنڈی میں ایک سپر اسٹور نے ترک آئسکریم پارلر کھول رکھا ہے جہاں ترک ہی ملازم ہیں ۔ترک آئسکریم عام آئسکریم کی نسبت دیر سے پگھلتی ہے اس لئے یہ بریرہ کو پسند ہے میں جب اس اسٹور پر پہنچا تو وہاں کھڑے ہونے کی جگہ نہ تھی ،اسٹور پر آمد رمضان کے حوالے سے لال شربت ،دہی بھلوں،چٹنی،فروزن سموسوں ،پکوڑوں ،کھجوروں اور کولا مشروبات کے ’’باحجاب ماڈل ‘‘کی تصاویروالے اشتہارات صارفین کو متوجہ کر رہے تھے،اسٹور پر رش اس قدر تھا کہ مجھے پارکنگ کی جگہ نہیں مل رہی تھی اسٹور کے شفاف شیشوں کی دیواروں پار تو گویا کھوئے سے کھوا چھل رہا تھا، کہاں کا کورونا اور کیسے سماجی فاصلے ۔۔۔خلق خدا بیسن،گھی،آئل ،شربتوں پر ٹوٹی پڑ رہی تھی،اللہ اللہ کرکے مجھے اسٹور سے فاصلے پر پارکنگ کی جگہ ملی جس کے بعدہی بریرہ کی ترکش آئسکریم لینے کی خواہش پوری ہوسکی گھر پہنچا تو برادر نسبتی عبدالوہاب صاحب کو منتظر پایا، میری رہائش اسلام آباد کی سبزی منڈی سے قریب ہے۔ اسی لئے جب کبھی احباب مناسب نرخ پر سبزی پھل خریدنے منڈی آتے ہیں تو ملاقات بھی ہوجاتی ہے ،حال احوال اور خیر خیریت کے رسمی جملوں کے تبادلے کے بعد عبدالوہاب نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے بتایا کہ رمضان کی شاپنگ تو ہوگئی ،بس سبزیاں رہ گئی تھیں، خیال تھا کہ منڈی سے کچھ مناسب قیمت پر مل جائیں گی لیکن یہاں بھی قیمتیں آسمان پرچڑھی ہوئی ہیں۔ ٹماٹر منڈی میں بھی ستر روپے کلو مل رہے ہیں،لیموں کو تو آگ لگ گئی ہے ایک دم سے ڈھائی سو روپے کلوہو گئے ہیں ،آلو پر بھی فی کلو دس روپے بڑھ گئے ،پچاس روپے کلو فروخت ہورہے ہیں،میں سب سنتا رہااور چپ رہا،عبدالوہاب درست کہہ رہے تھے ،میں نے چند روز پہلے ہی 40 روپے کلو آلو اور 140روپے کلولیموں خریدے تھے اب دکاندار رمضان سے ’’فائدہ ‘‘ اٹھا رہے تھے۔ عبدالوہاب نے تاسف بھرے لہجے میں شکوہ کیا کہ ان لوگوںکو رمضان کا بھی احساس نہیں پتہ نہیں حکومت کیا کررہی ہے۔ آپ بھی ان دنوں کسی بھی عبدالوہاب سے ملیں بلکہ کسی سے بھی ملیں جس سے بھی بات کریں ،ملاقات اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کولگنے والے بڑے بڑے پروںکے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوگی ،خواتین ملیں گی تو سموسوں کی سستی پٹیوں کے ٹھکانے بتا رہی ہوں گی یا پھر دس دن پہلے ہی بیسن،چینی ،مشروبات کی خریداری کی اطلاع دے کراپنی ہوشیاری ثابت کر رہی ہوں گی،،رب العالمین نے ہم پر مہربانی کی ہمیں رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ عطا کیا ،دوزخ سے پرے ہونے کا وسیلہ دیا اور ہم نے اسے کھابوں کا مہینہ بنا لیا ۔آج کا رمضان پکوڑوں، سموسوں، کچوریوں، چنا چاٹ،دہی بھلوں، کھجوروں اور لال ہرے پیلے مشروبات کے یخ بستہ گلاسوں کا نہیں ؟ ہم نے اسے فوڈ فیسٹیول بنا دیا ہے ہماری ساری تگ و دو دسترخوان سجانے تک محدود ہو کر رہ گئی ہے نیوز چینلز لگائیں تو کہیں کوئی چکن پکوڑے بتانے کے طریقے بتا رہا ہوگا تو کوئی ربڑی فالودہ گھر میں تیار کرنے کی ترکیب سمجھا رہا ہوگا،ایک نیوز چینل پرکوئی باورچی کسی گھی بنانے والے کارخانے کے تعاون سے جلیبیاں بنانا سکھا رہا ہوگا اورتو دوسرے پر کوئی آپا خستہ کچوریاںبنانے کے رموز بتارہی ہوں گی ،یہ نہ ہو تو روزے میں بھوک نہ لگنے کے چٹکلے سمجھائے جا رہے ہوں گے۔ بتایا جا رہا ہوگا کہ سحری میں دو چمچ دہی کھا لیں یا الائچی چبا لیںپیاس نہیں لگے گی ،آپ کہیں گے کہ جناب ! علماء کرام بھی موجود ہوتے ہیں،ان کے شو بھی نشر ہوتے ہیں !جی بالکل ایسا ہی شو ہوتے ہیںبلکہ کثرت سے ہوتے ہیں کوئی نیوز چینل ایسا نہیں جو افطار سے دو گھنٹے پہلے زرق برق کڑھائی والے کرتوں واسکٹوں میں ملبوس مرد میزبانوں یاپھر سر کی عقبی ڈھلان پر ٹکا دوپٹہ رکھے خاتون میزبان کا یہ شو نہ دکھاتا ہوان تمام پروگراموں کے پیچھے بھی گھی،کوکنگ آئل، قوت بخش لال شربت اور مصالحہ جات کے کارخانے ہوتے ہیں جن کی تشہیر اس وقت بھی اسٹیج سے بھی ہورہی ہوتی ہے اور پروگرام کے دوران وقفوں میں بھی وہی اشتہار چل رہے ہوتے ہیں ساری ترغیب و تحریص دسترخوان پرپکوڑوں،سموسوں فروٹ چاٹ،دہی بھلوں،چناچاٹ اور مشروبات کے بھرے جگ لانے کی ہوتی ہے۔ ہم ملتے بھی ہیں تو گفتگو یہی ہوتی ہے روزہ تو لگا ہی نہیں، یا بڑا سخت روزہ تھااس کے بعد پھر ہمارا شکوہ مشروبات کی بڑھی ہوئی قیمتوں کا ہوتا ہے ہم ٹھنڈی سانس بھر بھر کر کہتے ہیں جو سیب 120 روپے کلو تھے وہ آج 200 روپے لایا ہوں جو لیموں ڈیڑھ سو روپے کلو تھے وہ آج تین سو روپے کلو مل رہے ہیں۔ہماری فوڈ انڈسٹری نے رحمتوں کے اس مہینے کو کمانے ،دھندے کا مہینہ بنا لیا ہے ان کی ترغیبات اشتہارات نے ہمیں اصل رمضان سے دور اور دسترخوانوں سے قریب کردیا ہے؟ آپ ایسے کتنے افراد سے ملے ہیںجو مسکرا کر کہیںکہ الحمدللہ! لطف آگیا آج ساری نمازیں باجماعت ادا کیں اور تین پارے بھی پڑھے۔۔۔ہم دوستوں کو اچھے کپڑے سینے اور وقت پر دینے والے درزیوں کا بتاتے ہیں پاپوشوں اور پوشاکوں کا بتاتے ہیں مگرایسے کتنے ہیں جو ہم سے کسی مسجد کے خوش الحان قاری صاحب کی قرأت کا ذکر کریں کہ تراویح کا لطف تو وہیں آتا ہے ،فوڈ انڈسٹری کے اشتہارات ہمیں ہانک ہانک کر سپر اسٹوروں میں ٹرالیاں بھرنے پر مجبور کر تے ہیں اور ہم ایسا ہی کرتے ہیں۔