جی ایچ کیو میں دو روزہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے دفاعی صنعت میں خود انحصاری کے لئے نجی شعبے کی شراکت داری کو ضروری قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس ماڈل کو فروغ دینے سے پاکستان کی دفاعی صنعت ترقی کرے گی۔ آرمی چیف نے دفاعی صنعت میں نجی شعبے کی سرمایہ کاری کے فوائد شمار کرتے ہوئے بتایا کہ اس سے ملکی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ پاکستان میں اس وقت اسلحہ سازی کے 14کارخانے کام کر رہے ہیں جن میں سے پاکستان آرڈی ننس فیکٹریز وزارت دفاعی پیداوار کے تحت کام کرنے والا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ آرڈی ننس فیکٹریز میں روائتی اسلحہ و بارود بین الاقوامی معیار کے مطابق تیار کیا جاتا ہے۔ پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شمار ہوتا ہے جنہوں نے روائتی اور غیر روائتی دفاعی ٹیکنالوجی کے حصول کے لئے طویل مدت تک بھاری اخراجات کئے۔ ایٹمی صلاحیت کے علاوہ پاکستان کی مسلح افواج ساڑھے چھ لاکھ کی ریگولر فورس پر مشتمل ہے جبکہ لگ بھگ اتنی ہی تعداد میں ریزرو دستے موجود ہیں۔ ان کی دیگر ضروریات کے ساتھ بنیادی ضرورت انہیں جدید اسلحہ سے لیس رکھنا ہے۔ گزشتہ برس پاکستان نے 11ارب ڈالر کی رقم دفاعی ضروریات کی تکمیل پر خرچ کی۔ یہ جی ڈی پی کا 3.6فیصد بنتا ہے۔ پاکستان کو سماجی و انفراسٹرکچر ترقی کے لے رقوم کی ضرورت ہے مگر خطے کی سکیورٹی بڑی طاقتوں کی پراکسی جنگوں کی وجہ سے دائو پر لگی ہوئی ہے۔ پاکستان کے مشرقی ہمسایہ بھارت نے گزشتہ برس 58ارب ڈالر اپنی دفاعی ضروریات کے لئے مختص کئے۔ یہ رقم پاکستان کے دفاعی بجٹ سے پانچ گنا زیادہ ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 1993ء سے 2006ء کے درمیان پاکستان کے سرکاری اخراجات کا ہر سال 20فیصد دفاعی ضروریات پر خرچ ہوا۔ بھارتی فوج کے پاس 3565جنگی ٹینک ہیں۔ اس کے پاس انفنٹری گاڑیوں کی تعداد 3100ہے۔ بھارت کے پاس 336آرمرڈ گاڑیاں ہیں۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کے پاس 2496ٹینک 1605آرمرڈ گاڑیاں اور 4472آرٹلری توپیں ہیں۔ ایئر فورس کی طاقت میں بھی بھارت کو سامان کی برتری حاصل ہے۔ بھارت کے پاس 814جنگی طیارے ہیں۔ پاکستانی لڑکا طیاروں کی تعداد 425ہے۔ بھارتی نیوی کے پاس ایک ایئر کرافٹ کیریئر جہاز ہے۔16آبدوزیں ‘14تباہ کرنے والی کشتیاں‘13فریگیٹس ‘106گشتی جہاز 75لڑاکا طیارے ہیں۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کے پاس 9فریگیٹس‘8آبدوزیں ‘17گشتی جہاز اور 8لڑاکا طیارے ہیں۔ پاکستان میں ایسے کچھ علاقے ہیں جہاں نجی سطح پر ہلکا اسلحہ تیار ہوتا رہا ہے۔ قبائلی اضلاع خاص طور پر درہ آدم خیل کے علاقہ میں پستول‘ ریوالور ‘ بندوق اور راکٹ لانچر کے گولے اور دستی بم تیار کئے جاتے رہے ہیں۔ نجی شعبے پر اس سلسلے میں کئی پابندیاں عائد رہی ہیں جس کے نتیجے میں قبائلی اضلاع میں تیار کیا جانے والا اسلحہ و بارود کاریگروں کی مہارت کے باوجود بہتر مارکیٹ حاصل نہ کر سکا۔ یقینا ان علاقوں کے نوجوانوں کو روزگار کے نئے مواقع فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے خصوصاً کے پی کے میں انضمام کے بعد ان علاقوں کی تعمیر و ترقی کے لئے نئے سرے سے منصوبے تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ اس موقع پر حکومت اگر تربیت کے ادارے قائم کر کے وہاں اسلحہ سازی کے جدید آلات سے نوجوانوں کو روشناس کرائے تو پہلے سے موجود پیشہ وارانہ صلاحیت کو آسانی سے قانونی حدود میں لا کر ملک کی ضروریات پوری کی جا سکتی ہیں۔ ہمارے سامنے امریکہ کی دفاعی صنعت کی مثال ہے۔ امریکی کمپنیوں نے 2018ء میں 398ارب ڈالر کا دفاعی سازو سامان فروخت کیا۔ صرف ایک کمپنی لاک ہیڈ مارٹن کی سالانہ فروخت 44.9ارب ڈالر رہی۔ دنیا میں ہر سال اسلحہ کے آرڈرز کا حجم اوسطاً 9.6ارب ڈالر بڑھ رہا ہے۔ پاکستان اس ساری صورت حال سے باخبر ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے رواں برس کے دفاعی بجٹ میں اضافہ نہ کرنے کا فیصلہ اس بنا پر کیا کہ پوری قوم معاشی مسائل سے نبرد آزما ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی بشکیک میں روسی صدر ولادی میر پیوٹن سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے دو طرفہ تعلقات میں مزید بہتری کی خواہش ظاہر کی تو روسی صدر نے پاکستان کو ہر قسم کا اسلحہ فروخت کرنے کی پیشکش کر دی۔ وزیر اعظم نے اس پیشکش پر روسی سربراہ کا شکریہ ادا کیا اور ساتھ ہی دو طرفہ تجارت اورکاروبار میں اضافے کا معاملہ اٹھایا۔ بلا شبہ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت میں ایک مدت کے بعد مکمل ہم آہنگی دکھائی دیتی ہے۔ دونوں طرف یہ احساس موجود ہے کہ پاکستان کو اس وقت تک ترقی یافتہ اور خوشحال نہیں بنایا جا سکتا جب تک کہ یہ ملک ہر شعبے میں خود کفالت حاصل نہ کر لے۔ زراعت میں پاکستان اگرچہ برآمدات کے قابل تو نہیں مگر یہ بات قابل اطمینان ہے کہ وہ اپنی غذائی ضروریات کو پورا کر سکتا ہے۔ پاکستان کا درآمدی بل تیل و گیس ‘ کیمیکلز‘ دفاعی آلات اور خوردنی تیل کی درآمد پر خرچ ہوتا ہے۔ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ٹیکسلا میں ہیوی میکنیکل کمپلیکس کے ساتھ الیکٹرونکس اور کیمیکلز کمپلیکس کے منصوبے بھی تشکیل دیے تھے جن پر تسلی بخش انداز میں کام نہیں ہو سکا۔ ان منصوبوں پر کام مزید وقت ضائع کئے بغیر شروع ہونا چاہیے۔دفاعی پیداوار کے شعبے میں نجی سرمایہ کاری سے نئی ٹیکنالوجی ترقی کرے گی۔ معیشت پر زرمبادلہ کی کمی کی شکل میں جو دبائو ہے وہ کم ہو گا۔ سب سے بڑی بات یہ کہ پاکستان کے بین الاقوامی تعلقات صرف دفاعی ضروریات تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ تجارت اور ثقافت کے شعبے بھی آگے بڑھتے نظر آئیں گے۔