امریکی خارجہ امور کی معاون نائب سیکرٹری ایلس ویلز نے الزام لگایا کہ ’’سی پیک اتھارٹی کو کرپشن سے متعلق تحقیقات پر استثنیٰ حاصل ہے۔ اگر چین سی پیک منصوبے کو تکمیل پر لے گیا تو پاکستان کو طویل مدتی معاشی نقصان برداشت کرنا پڑ سکتا ہے۔ سی پیک کو دونوں ملکوں کی طرف سے گیم چینجر قرار دیا جا رہا ہے حالانکہ یہ صرف چین کیلئے منافع بخش ہے، امریکا نے پاکستان کو سی پیک سے بہتر ماڈل کی پیشکش کی تھی ۔ راہداری منصوبے سے پاکستان میں بے روزگاری بڑھی کیونکہ چینی کمپنیاں چین سے بندے لے کر آئیں ۔ یہ راہداری پاکستانی معیشت کو بڑا نقصان پہنچانے والی ہے۔ بالخصوص ایک ایسے وقت میں جب بہت زیادہ ادائیگیاں اگلے چار تا چھ برس میںشروع ہو جائیں گی ۔ قرض ادائیگیوں کی تاخیر پاکستان کی معاشی ترقی رک جائے گی ۔‘‘امریکی خارجہ امور کی نائب سیکرٹری کے الزامات پر بحث کا طویل سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ جہاں تک بہتر امریکی پیشکش کی بات ہے تو امریکا سے تعلقات کوئی نئی بات نہیں ۔ تعلقات کی نوعیت کو دیکھنا ہوتا ہے ۔ بڑے ملکوں نے غریب اور پسماندہ ممالک کو ہمیشہ اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا ۔ بڑے ممالک کبھی بھی برابری کی سطح پر تعلقات قائم نہیں کرتے ۔ امریکا اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے بھاری سود پر قرض دیا جاتا ہے تو وہ بھی امداد کے نام پر ہوتا ہے۔ امریکا سے تعلقات کے نتیجے میں آج تک جتنی بھی امداد پاکستان کو ملی ، اس کی پاکستان کو بھاری قیمت چکانا پڑی ۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ جہادِ افغانستان کے مسئلے پر دہشت گردی کا جو عذاب پاکستان پر مسلط ہوا ہے اس کے اثرات شاید صدیوں تک محسوس کیے جاتے رہیں گے ، پاکستان کا امن تباہ ہو گیا ، ہزاروں لوگ شہید ہو گئے ۔ سرائیکی کی ایک کہاوت ہے کہ ’’ ڈاڈھے دی یاری ڈیندے گھندے سئیں ‘‘ ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ طاقتور کبھی کسی کا دوست نہیں ہوتا ، اگر اس سے کوئی چیز لینی ہو تب بھی سئیں سئیں کرنا پڑتا ہے اور اگر کوئی چیز پیش کرنی ہو تو سیں سئیں کر کے پیش کی جاتی ہے ۔ امریکا ہو ، روس ہو یا چین سب کے ساتھ برابری کی سطح پر تعلقات قائم رکھنا مشکل ہے ۔ البتہ ترقی پذیر ممالک کو اپنی انا ، خودداری اور اپنے ملک کے غریب عوام کے مفادات کے تحفظ کیلئے کسی بھی صورت بڑے ملکوں کا آلہ کار نہیں بننا چاہئے ۔ اگر حالات و واقعات پر غور کریں تو تاریخ انسانی طاقت وروں کے بے رحم جبر سے بھری پڑی ہے ۔ آپ زیادہ دور نہ جائیں تو نصف صدی سے بھی کم عرصہ پہلے کی بات ہے ، ذوالفقار علی بھٹو نے تھرڈ ورلڈ کا نعرہ لگایا اور 77 ترقی پذیر ملکوں کا اتحاد قائم کیا ، جس کا مقصد غریب اور ترقی پذیر ممالک کو ترقی یافتہ ممالک کے ظلم اور زیادتی سے بچانا تھا ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اسلامی ممالک کا بلاک قائم کیا اور سب سے پہلے امریکا کو للکارا اور کہا کہ امریکی ہاتھی کے دکھانے کے دانت اور ہیں اور کھانے کے اور ۔ ذوالفقار علی بھٹو کا بس اتنا ہی جرم تھا کہ نہ صرف ذوالفقار علی بھٹو بلکہ ان کے خاندان کو نشانِ عبرت بنا دیا گیا ۔ امریکا نے بھٹو کے خلاف ضیا الحق کو استعمال کیا اور اسے بھی مروا دیا گیا ۔ امریکا نے دینی مدارس کے جن طلباء کو اپنے مقاصد کے تحت روس کے خلاف لڑوایا ، اپنا کام نکلوانے کے بعد ان کو بھی جمع کر کے قتل کرا دیا ۔ یہ تمام باتیں ہماری عبرت اور سمجھنے کے لئے کافی ہیں ۔ روس کی شکست کے بعد چین نئی قوت کے طور پر ابھرا ہے تو اس کے ساتھ امریکا کی سرد جنگ شروع ہو چکی ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چین راہداری کے نام پر مختلف ممالک میں جو بھاری سرمایہ کاری کر رہاہے ، اس میں اس کے اپنے معاشی مفادات بھی ہیں ، مگر اس کا ترقی پذیر ممالک کو بھی فائدہ ہے کہ کم از کم اس کے لیے ترقی کے نئے راستے کھلیں گے ۔ اس موقع پر پاکستان کو کسی بلاک کا حصہ بننے کی بجائے ملک کے بہترین مفاد میں پالیسیاں ترتیب دینا ہونگی ۔ پیپلز پارٹی کے دور میں چین سے مذاکرات ہوئے ‘ جو راہداری منصوبے ترتیب دیئے گئے ، پیپلز پارٹی کے جانے کے بعد ن لیگ نے راہداری منصوبوں کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور ن لیگ نے راہداری میں وہ منصوبے بھی شامل کرا لئے جو کہ سی پیک کا حصہ نہ تھے ، جیسا کہ لاہور اورنج ٹرین ٹرانزٹ منصوبہ ۔ اسی طرح چھوٹے صوبوں اور پسماندہ سرائیکی وسیب کی طرف سے راہداری منصوبے کے روٹ کی تبدیلیوں کی شکایات بھی سامنے آئیں مگر ملک میں مختلف منصوبوں کا جال بچھایاگیا ، جس سے روزگار کے وسائل پیدا ہوئے اور پاکستانی معیشت کی ڈوبتی کشتی کو سہارا ملا ۔ عمران خان بر سر اقتدار آئے تو سی پیک کو بریک لگ گئی اور جاری منصوبے سست روی کا شکار ہو گئے ۔ تجزیہ نگاروں کی طرف سے الزام عائد ہوا کہ اقتدار کے حصول کیلئے تحریک انصاف نے امریکا سے سود ے بازی کر لی اور ایک بار پھر امریکی مفادات کے تابع چین سے دوری اختیار کی جا رہی ہے۔ بظاہر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جاری کشمکش کو امریکی مفادات اور اینٹی امریکی مفادات کے درمیان کشمکش قرار دیا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں ایک بار پھر کہوں گا کہ پاکستان کو اپنی تمام پالیسیاں پاکستان اور پاکستانی عوام کے مفاد کے لئے طے کرنا ہونگی اور اصول وضع کرنا ہوگا کہ آزاد و خود مختار خارجہ پالیسی پر کوئی حرف یا آنچ نہ آئے ۔ چین نے سی پیک میں کرپشن کے امریکی الزامات مسترد کر دیئے ہیں ۔ چینی سفیر ژاؤ جنگ نے پاکستان چائنہ انسٹیٹیوٹ کے زیر اہتمام پانچویں سی پیک میڈیا فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’امریکا سی پیک پر کرپشن کے الزامات لگاتے ہوئے احتیاط کرے ۔ چین نے ہمیشہ پاکستان کی مدد کی ہے ، پاکستان کو ضرورت ہوئی تو قرضوں کی واپسی کا کبھی تقاضا نہیں کریں گے ۔ چینی سفیر نے کہا کہ امریکا سپر پاور ہے ۔ دنیا میں امن و استحکام امریکا کی ذمہ داری ہے۔ ‘‘میں بارِ دیگر یہی بات کہوں گا کہ چین سے بھی تعلقات میں احتیاط کو ملحوطِ خاطر رکھا جائے۔ پاکستان میں وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے اور پاکستان میں افرادی قوت بھی وافر مقدار میں موجود ہے ۔ تو زیادہ سے زیادہ پاکستانی وسائل اور افرادی قوت سے استفادہ حاصل کیا جائے ، اور ہمیں ترقی کیلئے چین یا کسی ملک کی طرف دیکھنے کی بجائے خود ترقی کرنا سیکھنا چاہئے۔ میاں نواز شریف حکومت میں چین کی طرف اس حد تک جھکاؤ کہ پاکستانی قوم کو چینی زبان سیکھنے پر لگا دیا تو یہ عمل بھی کسی طرح درست نہیں ۔ پاکستان کو پاکستانی زبانیں سمجھنے کے مواقع مہیا کئے جائیں ، پاکستانیوں کو سرائیکی ، پنجابی ، پشتو ، سندھی ، بلوچی ، براہوی ، کشمیری ہندکو ، پوٹھوہاری و دیگر زبانیں سمجھانے کے مواقع دیئے جائیں ۔اس کے بعد چینی تو کیا پوری دنیا کی زبانیں سمجھیں کسی کو کوئی اعتراض نہیں ۔