میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ پاکستان دنیا میں تنہا ہو گیا ہے۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ پاکستان تنہا ہوا یا نہیں مگر میاں صاحب بالکل تنہا ہو چکے ہیں۔ انسان کب تنہا ہوتا ہے؟ اس پر بھی بات ہوگی مگر پہلے کچھ شان رمضان کا تذکرہ ہو جائے۔ قدرت اللہ شہاب نے اپنی کتاب شہاب نامہ میں شان رمضان کا ایک حیران کن واقعہ لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ میں ہالینڈ میں سفیر پاکستان تھا۔ ایک روز چھٹی کے دن ہم ہالینڈ کے خوبصورت جنگلوں میں لانگ ڈرائیو پر نکلے۔ درختوں کے بیچوں بیچ چھوٹی چھوٹی سڑکوںپر میں ہولے ہولے ڈرائیو کر رہا تھا۔ گاڑی کے شیشے کھلے ہوئے تھے جن سے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا اندر آ رہی تھی۔ ہوا اکیلی گاڑی میں نہ آ رہی تھی بلکہ اپنی کمر پر بڑی بھینی بھینی خوشبو بھی لاد کر لا رہی تھی اور ہمیں سحر زدہ کر رہی تھی۔ ایسے سماں میں مجھے قرآن پاک پڑھنے کی آواز سنائی دی۔ کوئی خوش الحانی سے با آواز بلند قرآن مجید کی تلاوت کر رہا تھا۔ مجھے تجسس ہوا کہ یہاں یورپی جنگل میں کون تلاوت کر رہا تھا۔ ہم نے گاڑی ایک طرف کھڑی کی اور خود اس ملکوتی آواز کے تعاقب میں چل پڑے۔ تھوڑا آگے جا کر ہم نے دیکھا کہ ایک ادھیڑ عمر یورپی تلاوت کر رہا تھا۔ تعجب اور تجسس دونوں نے ہمیں وہاں ٹھہرنے پر مجبور کردیا۔ میں نے نظروں سے اس یورپی شخص سے اجازت طلب کی۔ اس نے ہمیں ہاتھ کے اشارے سے بیٹھ جانے کو کہا۔ ہم بیٹھ گئے اور تلاوت سننے میں محو ہو گئے۔ جب وہ تلاوت کر چکا تو علیک سلیک کا مرحلہ طے ہوا۔ میں نے پوچھا آپ کی تلاوت کا کیا ماجرا ہے؟ اس نے کہا میں مسلمان ہوں۔ میں نے تجسس سے پوچھا کہ آپ نے دعوت حق پر کب لبیک کہا؟ اس نے کہا یہ کئی برس پرانی بات ہے۔ ’’میں ایک بحری جہاز کا کپتان تھا۔ میرا جہاز چاولوں کی بوریاں لادنے کے لیے کراچی کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوا۔ ایک روز مزدور جہاز پر بوریاں لاد رہے تھے۔ شدید گرمی کا موسم تھا۔ میں نے دیکھا کہ ایک ادھیڑ عمر مزدور بھاگ بھاگ کر کام کر رہا ہے مگر پسینے میں شرابور ہے اور ایسے کہ جیسے اس کی جان نکلی جا رہی ہو۔ مجھے بہت رحم آیا، میں اس پاکستانی مزدور کو اپنے کیبن میں لایا اور اسے ٹھنڈے پانی کا گلاس پیش کیا۔ اس نے مجھے اشاروں سے سمجھایا کہ وہ کچھ کھا پی نہیں سکتا کیونکہ وہ روزے سے ہے۔ میں سمجھا یہ ان کی خاندانی یا معاشرتی رسم ہے۔ میں نے مزدور سے کہا کہ اسے یہاں کوئی نہیں دیکھ رہا۔ اس نے شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور کہا کہ مجھے میرا خدا تو دیکھ رہا ہے۔ میں اس مزدور کے جذبہ ایمانی سے بہت متاثر ہوا۔ پھر میں نے پڑھے لکھے پاکستانیوں سے اسلام کے بارے میں بہت سی معلومات حاصل کیں اور تھوڑی ہی مدت میں اسلام قبول کرلیا۔‘‘ دیکھئے یہ پاکستانی مزدور اس حدیث قدسی کی عملی و حقیقی تصویر و تفسیر تھا جس حدیث میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا۔ امام غزالی نے اپنی کتاب علوم احیائے دین میں تحریر فرمایا ہے کہ روزہ دار تین طرح کے ہوتے ہیں۔ پہلی قسم کے روزہ دار حلال چیزوں سے خود کو روک لیتے ہیں مگر اپنے نفس کو قابو کرنے کی کوئی تگ و دو نہیں کرتے۔ دوسری قسم وہ ہے جو اپنے بدن کو قرآنی نصیحت کے مطابق آمادہ اطاعت کر لیتے ہیں اور تیسری قسم ان روزہ داروں کی ہے جن کا جسم ہی نہیں ان کا دل بھی روزہ رکھتا ہے اور حالت روزہ میں ان کے اندر حلال چیزوں کے لیے خواہش تک بھی پیدا نہیں ہوتی۔ یہی روزہ داروں کے لیے اعلیٰ ترین درجہ ہے۔ امام غزالی کے ایک اور قول کے مطابق روحانی کامیابی کے لیے نفس کا تکبر سے پاک ہونا از حد ضروری ہے۔ آج ہماری سوسائٹی ہر درجے پر اپنے اپنے رنگ میں تکبر کا شکار ہے۔ البتہ ہمارے سیاستدان بھی تکبر کا شکار ہیں اور اس کا ’’شاہکار‘‘ بھی ہیں۔ میاں نوازشریف تو تکبر کی آخری منزل پر براجمان ہیں۔ تکبر کی آخری منزل کون سی ہے؟ یہ وہ منزل ہے جہاں انسان اپنے جیسا کسی کو نہیں سمجھتا۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ عقل کے اعتبار سے، علم کے اعتبار سے، مال و زر کے اعتبار سے حتیٰ کہ اخلاص کے اعتبار سے اس کا کوئی ہمسر نہیں۔ یہی وہ منزل ہے جس کا مکیں تنہا ہو جاتا ہے۔ انسان کب تنہا ہوتا ہے؟ وہ تب تنہا ہوتا ہے جب وہ اپنی انا کا قیدی بن جاتا ہے۔ جب اسے اپنے اردگرد سب بونے دکھائی دیتے ہیں اور اسے سچے، مخلص اور حق گو دوست، بھائی ہمدم دیرینہ اور پرانے ہمسفر اور ساتھی اپنے دشمن نظر آنے لگتے ہیں۔ وہ صرف چند خوشامدی اور ہاں میں ہاں ملانے والے ’’مشیروں‘‘ کی بات سنتے اور خوش ہوتے ہیں۔ ان کے مخلص ترین ساتھی انہیں آگاہ کرنا چاہتے ہیں کہ ان کے بھارت نواز بیان کے نتیجے میں ان کی پارٹی کے قائدین یوں ٹوٹ کر ان سے الگ ہورہے ہیں جیسے پت جھڑ کے موسم میں پتے رات دن درختوں سے ٹوٹ کر ہوا میں بکھر جاتے ہیں مگر میاں صاحب ان دوستوں کو اذن گویائی نہیں دیتے۔ اب کسی دیدہ ونادیدہ قوت یا کسی خلائی مخلوق کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں، میاں صاحب اپنی پارٹی کی تباہی و بربادی کے لیے خود کافی ہیں۔ میاں نوازشریف پورس کا ہاتھی بن کر پلٹ کر اپنی ہی سپاہ کو روند رہے ہیں۔ میاں نوازشریف خود فریبی کی اس معراج پر ہیں جہاں انہیں خزاں کا موسم بہار لگ رہا ہے۔ میاں صاحب پہلے ختم نبوت کے حلف نامے سے چھیڑ چھاڑے کے نتیجے میں اپنے مذہبی ووٹر سے محروم ہو چکے ہیں اور اب وہ کھلی کھلی پاکستان دشمنی اور بھارت نوازی کی بنا پر اپنے سیاسی ووٹروں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اسی لیے اپنی پارلیمانی پارٹی کی میٹنگ میں ن لیگ کے موجودہ صدر شہبازشریف کو اپنے ارکان اسمبلی کے شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ اس اجلاس میں مسلم لیگی ارکان نے میاں شہبازشریف کو واضح طور پر بتایا کہ میاں نوازشریف کے بھارت نواز بیانیے کے ساتھ ہم اپنے ووٹروں کا ہرگز سامنا نہیں کرسکتے۔ نیز مسلم لیگ ن کا ایلیکٹ ایبل طبقہ روایتی طور پر فوج کے لیے نہایت عزت و احترام کے جذبات رکھتا ہے اور یوں بھی خود میاں نوازشریف تین دہائیوں سے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنے مراسم رکھنے کی شہرت رکھتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کا ووٹر روایتی طور پر اسلام و پاکستان پر اپنی جان چھڑکتا ہے اور بھارت کے پاکستان دشمن رویے کو انتہائی نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اب میاں نوازشریف کہتے ہیں کہ 2008ء میں ممبئی کے ہوٹل پر حملے کے لیے ہماری اجازت سے تخریب کار پاکستان سے گئے تھے۔ 2018ء کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کے متوقع امیدوار میاں صاحب کے پاکستان دشمن بیانیے سے جان چھڑا کر دھڑا دھڑ پاکستان تحریک انصاف میں جا رہے ہیں تبھی تو میاں شہبازشریف، شاہد خاقان عباسی، چودھری نثار علی خان، سید ظفر علی شاہ اور خواجہ سعد رفیق جیسے لوگ انتہائی مضطرب اور بے قرار ہیں۔ تبھی تو عمران خان نے میاں نوازشریف کا شکریہ ادا کیا ہے کہ وہ تحریک انصاف کی انتخابی مہم زور و شور سے چلا رہے ہیں اور روزانہ سیاسی مہاجرین کی ایک بہت بڑی تعداد مسلم لیگ ن سے تحریک انصاف میں بھیج رہے ہیں۔ جنوبی پنجاب کے بعد اب وسطی پنجاب سے بھی اکثر ایلیکٹ ایبلز ن لیگ سے الگ ہو کر تحریک انصاف میں شامل ہورہے ہیں۔ خواجہ سعد رفیق سے ہمارا پرانا تعلق خاطر ہے۔ وہ روایات کا امین اور احترام باہمی کا پاسدار ہے۔ دو روز پہلے مسلم لیگ ن کے ایک اجلاس میں خواجہ صاحب کے ساتھ جو سلوک میاں نوازشریف اور میاں شہبازشریف کی موجودگی میں ہوا وہ انتہائی افسوسناک ہے۔ اجلاس میں سینیٹر آصف کرمانی نے خواجہ سعد رفیق کی مسلم لیگ ن کے ساتھ وفاداری کو چیلنج کردیا۔ اس پر خواجہ سعد رفیق نے شدید احتجاج کیا اور اجلاس سے اٹھ کر چلے گئے مگر میاں نوازشریف یا میاں شہباز شریف میں سے کسی نے خواجہ صاحب کو منا کر واپس لانے کے لیے اپنا کوئی نمائندہ ان کے پیچھے نہیں بھیجا۔ خواجہ سعد رفیق جیسے مخلص ساتھی کے ساتھ یہ سلوک بہت تکلیف دہ ہے۔ اسداللہ غالب نے سچ ہی تو کہا تھا کہ ؎ نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے تھے لیکن بڑے بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے سیاسی پت جھڑ کے اسی موسم میں میاں نوازشریف اکیلے رہ گئے مگر وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ان کے آگے پیچھے میلے ہی میلے ہیں۔