رمضان شروع ہوتے ہی قابض اسرائیلی فوجیوں کی مظلوم فلسطینیوں پر مظالم کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ رمضان کے دوہفتوں کے دوران اسرائیلی فوج کے جنگی طیاروں نے غزہ پرکئی بار جارحیت کی۔ 17 اپریل 2021 ء ہفتے کے روز اور گزشتہ شب کو غزہ پر دوبارہ بمباری کی۔ اسرائیلی جنگی طیاروں نے وسطی غزہ میں خان یونس کے مقام اورالبریج مہاجر کیمپ کے قریب بمباری کی جب کہ جنوبی غزہ میں رفح کے مقام پر بھی ایک میزائل داغا گیا۔ قبل ازیں جمعہ 16اپریل کی شام کو بھی اسرائیلی جنگی طیاروں نے غزہ پر وحشیانہ بمباری کی تھی جس کے نتیجے میں املاک کو نقصان پہنچا تھا۔ دوسری طرف یہودی آباد کاروں نے غرب اردن کے جنوبی شہر بیت لحم کے نواحی علاقے بیت فجار میں فلسطینیوں کے ایک کھیت میں گھس کر زیتون کے بیسیوںدرخت نذرآتش کر دئیے۔ یہودی آباد کاروں نے دیر معلا کے مقام پر فلسطینی شہرہ نسیم طقاطقہ کے فارم میںگھس زیتون کے درخت نذر آتش کر دئیے۔خیال رہے کہ بیت فجار کی اراضی پر اسرائیلی حکومت نے 1977ء سے جبری طور پر ایک یہودی کالونی بنا رکھی ہے۔ایک اندازے کے مطابق بیت لحم میں ایک لاکھ 65 ہزار یہودی آباد کار آباد ہیں جو شہر کی فلسطینی آبادی کا 20 فی صد ہیں۔ کرہ ارض کے جن گوشوں میں مظلوم قومیں اپنی آنکھوں میں بسائے خوابوں کی تعبیر پانے ، فضائوں سے نور اترنے اوراندھیروں میں روشنیاں پھوٹنے کے انتظار میں جابر،غاصب اورظالم قوتوں کے سامنے سینہ سپر ہیں ، انہیں خاک اورخون کے کتنے ہی دریا درپیش ہوں لیکن اس کے باوجودان کی سعی پیہم اور جہد مسلسل میں کوئی ناامیدی اورخود سپردگی ہرگزنہیں پائی جارہی ۔ وہ حق وصداقت کا علم تھامے ہوئے انصاف دلانے کے لئے بارباراورلگاتار اپنی پکار جاری رکھے ہوئے ہیں: سینے چاک ہیں اور خونین قبائیں لیکن انصاف کی پکار سے وہ باز نہ آئے فلسطین اورکشمیر کے تنازعات میں کافی مماثلت ہے دونوںعلاقے جبر و استبداد اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے شکار ہیں۔ دونوںمیں نسل کشی ہورہی ہے کشمیر میں بھارت جبکہ فلسطین میں اسرائیل نسل کشی کررہا ہے۔ اغیاردونوں کی زمینوں پر بالجبر اور فوجی قوت کی بنیاد پر قابض ہیں اسرائیل ایک ناجائز اور جبری ریاست ہے جو فلسطینیوں کی زمین ہتھیا کر ایک سازش کے تحت وجود میں لائی گئی اور امریکہ ، برطانیہ اور بھارت اسرائیل کی سرپرستی کر رہے ہیں۔ جبکہ بھارت اپنے ہم پیالوں کے ہلہ شیری سے مقبوضہ ریاست جموںو کشمیر پرفوجی طاقت کے بل بوتے پر اپنے جابرانہ قبضے اورجارحانہ تسلط کو مستحکم کرنے کیلئے کشمیریوں پر ستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے ۔فلسطین اورجموں و کشمیر میں یکسان معرکہ برپا ہے۔ نہتے اور بے بس اہل فلسطین اوراہل کشمیر کو ہتھیار کوئی نہیں دیتا ،پتھروں اورغلیلوں سے وہ اسلحے سے لیس دشمنوں کے سامنے سینہ سپر ہیں۔ جارح فوجی جدید ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی کے ساتھ دونوں خطوں پر ٹوٹ پڑے تو اہل فلسطین اوراہل کشمیر نے اپنے جگر گوشوں کے لہو سے کوچہ و بازار میں چراغ جلادیئے۔ دونوں گزشتہ ستربرسوں سے مزاحمت سے دستبرار بھی نہ ہوسکے ،تھکنا،جھکنااوربکنادونوں کے سرشت میں شامل نہیں۔غلامی کے اندھیروں کے مقابل ڈٹنے والے دنیا کی اپنی حالت زارکی طرف توجہ مبذول کراتے رہے مگرتوجہ تودورکی بات انکے مظالم کی داستان سننے کے لئے دنیا اس قدربہری ہو چکی ہے کہ مظلومین فلسطین و کشمیر دہشت گرد ٹھہرے اوران مظلومین پر جو ٹینک ، توپ اوربم برسانے والے امن پسند، جمہوریت نواز اور مظلوم ٹھہرے۔یہی بڑی طاقتوں کا کمال ہے کہ کشمیراورفلسطین کے حالات بد سے آنکھیں چرائے بیٹھی ہیں۔ یہ المیہ نہیں تو کیا ہے کہ ایک تاریک ترین رات کے بطن سے لہو کے چراغ جلا کر امید صبح کے پیامبر بن کر ابھرنے والی کشمیری اور فلسطینی نسل ظلمت کے بھنور میں اس طرح پھنسی ہوئی انہیں اس بھنورسے نکالنے کے لئے کوئی اسلامی فوجی اتحاد سامنے آرہا ہے نہ کوئی ناخدا ۔ کئی بین الاقوامی رپورٹس میںجو اعداد و شمار بتائے جاتے ہیں ان کے مطابق 1948ء میں اپنے گھر بار سے بے دخل کئے گئے فلسطینیوں کی تعداد میں اب 9 گنا اضافہ ہو چکا ہے اور اس وقت فلسطین کے اندراوراسے باہرایک کروڑ 24 لاکھ فلسطینی بے گھردربدر کی ٹھوکریں پر مجبور ہیں۔ ان اعدادوشمار میں بتایا گیا ہے کہ وہ فلسطینی جواس وقت فلسطین کی سرزمین پرموجود ہیں ان کی کل آبادی 60 لاکھ 20 ہزار ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کے مطابق اندرون فلسطین رجسٹرڈ اپنے گھروں سے بے دخل کئے گئے فلسطینیوںکی تعداد 5.59 ملین ہے۔اندرون فلسطین یعنی اسرائیل کے زیرقبضہ ارض فلسطین میں رہنے والے فلسطینیوں میں سے 34.8 فی صد کی عمریں 15 سال سے کم ہیں جب کہ 65 سال سے زائد عمر کے افراد کی تعداد 4.4 بیان کی گئی ہے جبکہ28.7 فیصد فلسطینی پناہ گزین اردن میں 58 کیمپوں میں رہتے ہیں۔ شام میں فلسطینی پناہ گزینوں کے 9 کیمپ ہیں۔ لبنان میں 12، مقبوضہ مغربی کنارے میں 19 اور غزہ کی پٹی میں 8 پناہ گزین کیمپ ہیں۔ 1949ء سے جنگ ستمبر 1967ء کے عرصے میں فلسطین سے بے دخل کئے جانے والے شہریوں کی رجسٹریشن نہیں کی گئی۔ ان کی تعداد بھی لاکھوں میں بتائی جاتی ہے۔ اسی طرح اقوام متحدہ کی جانب سے 1967 ء کی جنگ میں بے گھر کیے گئے فلسطینیوں کو بھی اپنے ہاں پناہ گزین کے طورپر رجسٹرڈ نہیں کیا۔ رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ یہودیوں کی غالب اکثریت بیت المقدس کے اردگردقابض ہے۔