علمی و ادبی دنیا میں یہ خبر نہایت رنج و ملال کے ساتھ سنی جائے گی کہ اُردو دنیا کے بلا شبہ سب سے بڑے محقق حافظ محمود شیرانی کے پوتے، شاعرِ رومان اختر شیرانی کے فرزندِ ارجمند، فارسی و اُردو زبان کے مستند محقق، منفرد خاکہ نگار اور ایک قابلِ فخر استاد اور انسان جناب ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی ۱۲ جون 2020ء کو شیخوپورہ میں مختصر علالت کے بعد پچاسی سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ شیخوپورہ، پنجاب(پاکستان) کا ایک ایسا ہونہار اور اتھرا سپوت ہے، جس کا تذکرہ زبان پر آتے ہی لاٹھی اور گولی کا حوالہ آپ کے سامنے مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے ، پنجوں کے بل کھڑا ہو جاتا ہے۔بعض اوقات تو اس کی وحشت اور ہیبت کا یہ عالم ہوتا ہے کہ سوچنے سمجھنے کی جملہ صلاحیتیں اور تفحص و تعقل کے سارے سلسلے ہی لا محدود تعطل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس کے باوجود کچھ ہم جیسے دل جلے ، بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کی بجائے ، علم و ادب اور فضل و دانش کے دور مار، دشوار گزار اور فی زمانہ بیکار حوالوں کی کھوج میں لگے رہتے ہیں ۔ اس سلسلے میں ہم کہیں سے گورو نانک کے شبدوں اور شلوکوں کی جھاڑ پونچھ کرنے لگ جاتے ہیں ، کہیں وارث شاہ کی ہیر کا اولڑا راگ الاپنے میں محو ، کہیں گنگا رام کی دریا دلی کے ڈانڈے تلاش کرنے میںسر تا پا مگن اور کہیں منشا یاد، پروفیسر افضل علوی، پروفیسر صدیق شاہد، پروفیسر اکرم سعید، اصغر علی جاوید، ماسٹر الطاف، انور علیمی، طاہر جمیل، ارشد نعیم، شاہین عباس، ڈاکٹر خالد ندیم، اشرف نقوی، نوید رضا، اظہر عباس، ڈاکٹر اکرم سرا اورنعیم گیلانی کے علمی دھاروں اور ادب پاروں کی بتیاں بال کے بنیرے اوپر رکھنے کی سعی کرنے لگ جاتے ہیں۔ یہاں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ اپنے شہر کے اس بگڑے ہوئے توازن کی کان نکالنے کے لیے ہمیشہ خانوادۂ شیرانی کا علمی وقار اور ادبی معیار سب حیلوں سے زیادہ معاون ثابت ہوتا ہے۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ اس سلسلۂ شیرانیہ میں سب سے وقیع اور وسیع سرمایہ اس خاندان کے سرخیل حافظ محمود شیرانی کے ہاں دکھائی دیتا ہے۔ حافظ شیرانی جیسے محقق اور عالم سے کون واقف نہیں جن کے تحقیقی معجزات کی ضیا پاشیاں آج بھی اُردو ادب کی راہیں متعین کرنے میں ممد و معاون ہیں ۔ بے شمار ناقدین کے نزدیک حافظ محمود شیرانی علمی و ادبی تحقیق کا وہ جِن ہے ، جس نے اردو تحقیق کو پاؤں پاؤں چلنا سکھایا۔ اسی خانوادے کی دوسری نسل میں شاعرِ دل پذیر اختر شیرانی کا طلسماتی نام نظر آتا ہے۔ فطرت، رومان اور روح پرور حقیقت سے لبریز ، جدید اُردو شاعری جن کے گرد جھومر ڈالتی دکھائی دیتی ہے۔ اُردو شاعری پہ اس شاعرِر ومان کا کتنا بڑا احسان ہے کہ اس نے اردو شاعری کا ایک مبہم و مردانہ محبوب سے پیچھا چھڑا کے اسے سلمیٰ، عذرا، ریحانہ، دردانہ جیسے حقیقی، زندگی سے بھرپور مچلتے پھڑکتے، نیارے اور کرارے کرداروں سے معانقہ کروایا۔ مَیں اپنی اس حیرت انگیز تحقیق کا پہلے بھی کہیں اظہار کر چکا ہوں کہ: ’ یہ کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ اُردو شاعری کو زنانہ محبوب سے متعارف کرانے کا سہرا ایک پٹھان کے سر ہے۔‘ پھر اسی نسل کے تیسرے سپوت ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی ہیں، جو ۹ اکتوبر 1935ء کو شیرانی آباد، ضلع ناگور، ریاست جودھ پور میں پیدا ہوئے۔ 1952ء میں میٹرک احمد ندیم قاسمی کی طرح گورنمنٹ ہائی سکول شیخوپورہ سے کیا۔ یہ وہی سکول ہے جہاں ایک زمانے میں ن م راشد کے والد فضل حسین چوہان ہیڈ ماسٹر اور خود راشد عارضی استاد رہ چکے ہیں۔ ۱۹۵۴ء میں ایف اے اور ۱۹۵۶ء میں بی اے اسلامیہ کالج لاہور سے، ۱۹۵۸ء میں ایم اے تاریخ گورنمنٹ کالج لاہور اور 1920ء میں ایم اے فارسی اورینٹل کالج لاہور سے کیا۔ اسی سال فارسی کی تدریس سے وابستہ ہوئے، تدریس کا بیشتر زمانہ گورنمنٹ کالج شیخوپورہ میں گزرا۔ آٹھ اکتوبر 1995ء کو اسی کالج سے ریٹائر ہوئے۔ 1987ء میں ڈاکٹر وحید قریشی کی نگرانی میں اپنے دادا کی علمی و ادبی خدمات پر پی ایچ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ حافظ محمود شیرانی کے مقالات کو تلاش کر کے دس جلدوں میں مرتب کیا، جنھیں مجلسِ ترقیِ ادب نے شائع کیا ، یہ یقینا ان کا وقیع کارنامہ ہے۔ ڈاکٹر صاحب 2003ء سے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، لاہور سے بطور ریسرچ سپروائزر بھی منسلک رہے۔انھیں گھر میں پیار سے ’خوشنود‘ کے اسم سے پکارا اور پہچاناجاتا تھا ۔اس کی وجہ بہ ظاہر یہی نظر آتی ہے کہ انھیں اختر شیرانی کے برعکس پورے قبیلے کی خوشنودی حاصل تھی اور آج ان کی علمی ، ادبی اور تحقیقی کاوشوں سے ایک عالَم آگاہ ہے۔ موجودہ دور میں اگر انھیں عالمِ بے بدل کے لقب سے پکارا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ تیسری نسل تک آتے آتے تو خاندانوں میں پیشے اور پیسے کی روایت کا برقرار رکھنا بھی دشوار ہو جاتا ہے، علم و حلم اور ادب و آگہی کے تسلسل کوایک صدی تک استقامت سے نبھاتے چلے جانا تو علمی معجزات میں شمار ہوتا ہے۔ احباب نے متعدد مواقع پہ تحریری اور زبانی طور پر، اِن خوبروؤں کو حجلۂ عروسی سے باہر لانے کی درخواست کی لیکن ہر بار طرح دے گئے۔ میرے لیے تو یہ بات فخر و مباہات کے زمرے میں آتی ہے کہ شیخوپورہ اور علم و ادب سے گہری وابستگی و عقیدت کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر صاحب سے میرے خاکہ نویسی، پی ایچ۔ڈی، تدریس، تحقیق، اورینٹل کالج، گورنمنٹ کالج شیخوپورہ اور متعدد احباب کے کئی حوالے مشترک ہیں بلکہ ڈاکٹر صاحب کا گھر شیخوپورہ کے اکلوتے سٹیڈیم اور واحد گرلز کالج کے سنگم سے طلوع ہو کے مختلف دیہاتوں کی یاترا پہ نکل جانے والی رہگزر، جس کا پرانا نام ’گھنگ روڈ‘ تھا اور جسے ایک زمانے میں جناب حافظ محمود شیرانی کی نسبت سے ’شیرانی روڈ‘ کا نام دیا گیا،جو ظاہر ہے اس فیملی کے لیے نہیں ، اس گزرگاہ اور علاقے سے وابستہ لوگوں کے لیے توقیر اور اعزاز کی بات ہے۔وہ سڑک ڈاکٹر صاحب کے گھر سے شروع ہو کر میرے شیخوپورہ والے گھر کو چھوتی ہوئی گزرتی ہے، اس حوالے سے میرا اُن سے ایک رشتہ ’ سڑک فیلو ‘ کا بھی بنتا ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب 2003ء میں مجھے پنجاب یونیورسٹی سے پی ایچ۔ ڈی کی ڈگری ملنے کی خبر اخبارات میں شائع ہوئی تو اگلے دن کیک لے کر میرے کالج آ گئے۔ احباب نے اس ڈگری کی خوشی میں ایک تقریب منعقد کی تو نہ صرف اس کی صدارت فرمائی بلکہ ایک طویل اور خوبصورت تحریر ’’ خطبۂ صدارت، جشنِ تہنیت‘‘ کے عنوان سے پڑھی، جو اُن کے خاکوں کے تیسرے مجموعے میں بھی شامل ہے۔ 2018ء میں انھیں عالمی فروغِ اُردو دوحہ، قطر کی جانب سے لائف اچیومنٹ ایوارڈ ملا، تو ان کے اعزاز میں گورنمنٹ کالج شیخوپورہ میں ۳ مئی 2019ء کو ڈاکٹر معین نظامی کی صدارت میں ایک تقریب منعقد کی گئی (یاد رہے کالج کی ادبی تنظیم کا نام پروفیسر اکرم سعید اور پروفیسر خرم عباس ورک کی توجہ سے عرصے سے ’بزمِ شیرانی‘ چلا آ رہا ہے،کالج کی لائبریری بھی موجودہ پرنسپل حافظ ثنااللہ کی ڈاکٹر صاحب سے عقیدت کی بنا پران کے نام سے موسوم کی گئی ہے) اس تقریب میں، مَیں نے ڈاکٹر صاحب کا خاکہ ’سلسلۂ شیرانیہ کا مظہر‘ پڑھا۔ ثقلِ سماعت کی وجہ سے پوری طرح سن نہ سکے، لوگوں کو ہنستے اور تالیاں بجاتے دیکھا تو کہنے لگے: ’تم نے ضرور کوئی شرارت کی ہوگی، مَیں خاکہ پڑھ کے تمھاری خبر لوں گا۔ لیکن افسوس! ان کے خبر لینے سے پہلے آج اُن کی خبر آ گئی۔ ہاشمی فرید آبادی نے حافظ محمود شیرانی کی وفات حسرتِ آیات پر جو قطعہ لکھا تھا، اسی کا ایک شعر ڈاکٹر صاحب کی نذر: پردیسی تھا دنیا سے گیا ، دنیا نے اس کو جانا کم روئے گا اسے اب کون یہاں ، ہاں عالمِ علم کرے ماتم