پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف پی ڈی ایم کے نام سے بننے والی گیارہ اپوزیشن جماعتوں کی تحریک اپنی عروج پرپہنچ چکی ہے۔بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ پی ٹی آئی حکومت کو چلتا کرنے اورجمہوری نظام کوشفاف بنانے پرمُصر یہ تحریک اب اپنے حتمی مرحلے میں داخل ہوکربات ایوان زیریں اورایوان بالا اور صوبائی اسمبلیوں سے استعفوں تک جاپہنچی ہے۔ استعفوں کے بارے میںابتداء میں دونوںبڑی جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ میں ہچکچاہٹ کاشکار تھیں تاہم منگل کے پی ڈی ایم اجلاس کے دوران میاں نواز شریف کی تجویز کی حمایت کردی کہ تما م جماعتوں کے پارلیمنٹیرین اکتیس دسمبرتک اپنے استعفیٰ پی ڈیم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے ساتھ کے پاس جمع کروائیں، جو بعد میں لانگ مارچ کے بعد قومی اسمبلی کے اسپیکر کو پیش کریں گے ۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی پارلیمنٹ میں اکثریت رکھنے والی بڑی جماعتیں ہیں یوں ان دو دو جماعتوں کے بغیر پی ڈی ایم ایجی ٹیشن پیدا کرنے کی صلاحیت تو رکھتی ہے لیکن موجودہ حکومت کو گھربھیجنے کی پوزیشن میں دکھائی نہیں دیتی ہے، تاہم اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ اپوزیشن کی سیاست میں روح ڈالنے کا کریڈٹ بہرحال جے یوآئی کے قائد مولانا فضل الرحمن کو جاتاہے ۔ مولانا فضل الرحمن کی ماضی کی سیاست اور بہت سی حکومت نواز پالیسیوں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن ان کی سیاسی بصیرت اور وقت آنے پران کااستقلال بھی قابل رشک ہے۔یہ مولانا ہی تھے جوپہلے ہی دن سے موجودہ حکومت کے خلاف میدان میں نکلے تھے اور دیگر جماعتوں کے ساتھ ایک مضبوط اپوزیشن اتحاد بنانے کیلئے سرگرم نظرآتے ہیں۔ پچھلے سال اکتوبرکو شدید یخ بستہ موسم میں دارالخلافہ اسلام آبادمیںپی ٹی آئی حکومت کے خلاف ہزاروں افراد کو جمع کرکے دھرنا دینابھی مولانا فضل الرحمن ہی کے غیرمتزلزل موقف کا ثبوت ہے اورفی الوقت ملک گیر تحریک کوبنیادی ایندھن بھی مولانا ہی فراہم کررہے ہیں ۔مجھے یاد ہے کہ اکتوبرمیں آزادی مارچ کے نام سے اسلام آباددھرنے میں سوائے پشتونخواملی عوامی پارٹی کے اپوزیشن کے باقی کسی جماعت نے مولانا کا مخلصانہ ساتھ نہیں دیا۔ مولانا کی قیادت میں مدارس کے لاکھوں طلباء اور پشتونخوا ملی عوامی کے چند ہزار کارکن جب کراچی اور کوئٹہ سے لاہور پہنچے تو مسلم لیگ ن کی طرف سے اس کا مکمل ساتھ دینے میں انتہائی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیاتھا۔لاہور پہنچنے پرمولانافضل الرحمن جس دھوم دھام سے مسلم لیگ ن کی قیادت کی طرف سے اپنااستقبال چاہ رہے تھے ،اس کا عشر عشیراستقبال بھی مسلم لیگیوںنے نہیں کیا۔حالانکہ میاں محمد نواز شریف جو انہی دنوں لاہورکے سروسز ہسپتال میں زیرعلاج تھے ،نے بذات خود اپنے کارکنوں کو اس مارچ میں بھرپور شرکت کی ہدایت کی تھی ۔یاد رہے کہ مولانا بہت کم غصہ ہوتے ہیں تاہم اسی دن مسلم لیگ ن کی مجرمانہ سرد مہری کوبھانپ کرمرنجان مرنج مولانا کافی غصے میں اور مایوس ہوئے تھے۔بعد میں دھرنے کے دوران بھی دونوں بڑی جماعتوں( پی ایم ایل این اور پی پی پی) کے قائدین آئیں بائیں اور شائیں کرنے لگے تھے۔ احس اقبال دلیل دیتے کہ پارٹی کے تاحیات قائد میاں نوازشریف نے انہیں آزادی مارچ میں صرف ایک روز کیلئے شرکت کا کہاتھا اور جبکہ شہباز شریف کا موقف اس سے بھی زیادہ کمزور دکھائی دیتاتھا۔ اسی طرح اس میدان میںیہی حالت پاکستان پیپلزپارٹی کی بھی رہی اور گومگو کی کیفیت کاشکار نظرآتی تھی ۔پی پی پی کے سیکرٹری جنرل فرحت اللہ بابر سے جب پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت نے ملٹی پارٹیز کانفرنس اور رہبر کمیٹی کے اجلاس کے دوران یہ وضاحت کی تھی کہ وہ غیر معینہ مدت تک جاری رہنے والے دھرنے میں شرکت کرنا نہیں چاہتے ۔ جب ان سے کہا گیا کہ یہ تو فی الوقت صرف دو دن کا دھرنا ہے جس میں پیپلزپارٹی شریک ہوسکتی ہے تو بابر صاحب نے یہ کہہ کرجاں چھڑا لی کہ ’’ اس معاملے پر وہ کوئی تبصرہ نہیں کرسکتے ‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ پشتو کی ایک مشہور کہاوت ’’ ھم ئے زڑہ کیژی ھم ئے ساڑہ کیژی‘‘( دل تواس کا کرتاہے لیکن سردی بھی ان سے برداشت نہیں ہو پا رہی)کے مصداق اپوزیشن کی ان دوبڑی جماعتوں کو عمران خان کی حکومت ایک دن کیلئے برداشت کرنا بھی قبول نہیں تھا لیکن ساتھ ساتھ آزادی مارچ میں بھرپوراور مستقل شرکت کرنے کیلئے بھی تیارنہیں تھیں ۔ آزادی مارچ کے دوران اپنے لاکھوں کارکنوں کو انتہائی منظم اور پرامن طریقے سے اسلام آباد روانہ کرکے مولانا نے سیاسی افق پر ایک اچھا تاثر یہ بھی چھوڑا کہ ان کی جماعت ماضی کی طرح جنونیت اور جذباتیت کی سیاست کی بجائے خالص جمہوری اقدار پر یقین رکھتی ہے۔اور ساتھ ساتھ اسٹبلشمنٹ کو بھی یہ پیغام دیا کہ ان کی جماعت کو ملگ گیر سیاسی جماعت کے بجائے محض کے پی کے یا بلوچستان کی ایک ادنیٰ جماعت سمجھنا ان کی بھول ہے ، یوں اسے دیوار سے لگانے کی غلطی سے گریز کرنا چاہیے۔ بہرکیف مولانا کے بارے میں میری رائے یہ بنی ہے کہ اپوزیشن کے مردہ گھوڑے میں انہوں نے ہی سانسیں پھونک کر میدان کارزار کی طرف ہانک دیاہے ۔ ورنہ کہاں مسلم لیگ ن اور کہاں پاکستان پیپلزپارٹی کے قائدین کاایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر ایک ہی مورچے سے مخالف کو للکارنا؟ یہ مولاناہی کا کمال ہے کہ اس وقت وہ ملک کی دوبڑی جماعتوں کی امامت کرتے نظرآتے ہیں۔ اگر انہی دوبڑی جماعتوں نے مزید بھی مولانا کا مخلصانہ ساتھ دیا تو موجودہ حکومت جو اس وقت حالتِ نزع میں ہے، شاید نہ رہ سکے!!۔