آج سے ستائیس سال پہلے پوری مسلم امہ یورپ کے ایک خطے بوسنیا میں مسلمانوں کے قتل عام کا ماتم کر رہی تھی۔ بلقان کے اس ملک کے خوبصورت لوگ آرتھوڈوکس چرچ کے ماننے والے سرب باشندوں کے ہاتھوں بدترین دہشت گردی کا شکار ہورہے تھے۔ یہ جنگ تقریبا چار سال تک جاری رہی اور اس میں پانچ لاکھ کے قریب مسلمان لقمہ اجل بنا دیے گئے تھے۔ یہ میڈیا اور سوشل میڈیا کا دور نہیں تھا، مگر اسکے باوجود بھی جو تصویریں، خبریں اور فلمیں حکومتی ذرائع ابلاغ تک پہنچتی تھیں وہی اسقدر خوفناک اور دل دہلا دینے والی تھیں کہ راتوں کی نیند حرام کر دیتی تھیں۔ یہ وہی جنگ تھی جسکے بارے میں سربیا یعنی سابقہ یوگوسلاویہ کے سربراہ ملا سووچ نے یورپی یونین کے سامنے یہ سوال رکھا تھا کہ "اب یہ تمہیں فیصلہ کرنا ہے کہ تم عین یورپ کے وسط میں ایک مسلمان ملک چاہتے ہو یا نہیں"۔ اس سوال کے بعد پورا یورپ مسلمانوں کے قتل عام پر ایک خاموش تماشائی بن گیا تھا۔ جیسے ہی بوسنیا کے مسلمانوں کی آزادی کی جدوجہد دنیا بھر میں پذیرائی حاصل کرنے لگی اور دوسرے ملکوں کے مسلمان جو جذبہ جہاد سے سرشار تھے، انہوں نے بوسنیا کا رخ کرنا شروع کیا تو پھر دنیا بھر کی طاقتوں پر ایک خوف سوار ہوا کہ کہیں یہ ملک عالمی جہاد کا مرکز نہ بن جائے۔ اس لیے کہ سب طاقتیں چاہتی ہیں کہ جنگ کا میدان امریکہ اور یورپ سے باہر کسی اور جگہ سجتا رہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے یہ ایک مشترکہ حکمت عملی ہے کہ جنگ جنوبی امریکہ، افریقہ، مشرق وسطیٰ، جنوبی ایشیاء یا مشرقِ بعید میں کہیں بھی ہوتی رہے اور ہمارا اسلحہ بکتا رہے، لیکن جنگ کو یورپ اور امریکہ کی سرحدیں عبور نہیں کرنا چاہئیں۔ اسی لیے فوراً اقوام متحدہ کے دستے بوسنیا بھیج کر وہاں امن زون بنائے گئے۔ فورابعد نیٹو نے وارننگ دی،جنگ بند کرو اور پھر کروشیا اور سربیا کے ٹھکانوں پر بمباری کی گئی اس بمباری میں امریکی فضائیہ بھی شامل ہو گئی اور اسکے بعد بوسنیا کے مسلمانوں اور کروشیایوں اور سریوں کو ملا کر ایک ایسی سیکولر جمہوری حکومت قائم کی گئی جسکے خدوخال میں کہیں بھی اسلام شامل نہ تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب روس مکمل طور پر اپنی تباہی اور زوال کے راستے پر گامزن تھا۔ یہی وجہ ہے کہ سربیا کے وہ روس نواز حکمران جنہوں نے امریکہ اور نیٹو کی بات نہیں مانی تھی اور بوسنیا سے جنگ جاری رکھی تھی انہیں عالمی عدالت انصاف کے کٹہرے میں لاکر سزائیں سنائی گئیں۔ اس چار سالہ جنگ سے دو مقاصد حاصل کیے گئے، ایک یہ کہ اب آزادی صرف اس شرط پر مل سکتی ہے اگر آپ سیکولر جمہوری طرز زندگی اختیار کریں گے اور دوسرا یہ کہ روس کو یہ باور کرا دیا گیا تھا کہ سوویت یونین کے زوال کے بعد وہ اپنی حدود تک محدود رہے اور علاقائی بالادستی کے خواب دیکھنا چھوڑ دے۔ لیکن بیس سال کا عرصہ گزرنے کے بعد روس نے اتنی انگڑائیاں لے لی ہیں کہ دنیا کو ہر لمحے یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کسی بھی وقت جنگ کا بگل بج سکتا ہے اور اگر ایسا ہوگیا تو پھر یہ جنگ صرف اس خطے تک محدود نہیں رہے گی جہاں سے شروع ہوئی تھی، بالکل ویسے ہی دنیا میں پھیل جائے گی جیسے پہلی جنگ عظیم بھی اسی بوسنیا کے شہزادے کے قتل ہونے سے شروع ہوئی تھی اور اس نے دنیا بھر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ بلقان کی دو جنگوں نے خلافت عثمانیہ کی بالا دستی کو یورپ سے نکال باہر کیا اور بلغاریہ، یونان، مونٹی نیگرو، سربیا جیسے علاقے ترکوں کے ہاتھوں سے نکل گئے تھے۔آج روس جس حیثیت میں ہے، یوں لگتا ہے وہ اپنے ارد گرد کے تمام ممالک سے امریکہ اور نیٹو کے سائے کو بھی دور کردینا چاہتا ہے۔ یوکرین کا معاملہ روس کی جانب سے ایک جارحانہ قدم تھا۔ شام میں اپنے مفادات کے حوالے سے وہ جنگ میں کودا اور پھر مشرقِ وسطیٰ میں شام پہلا ملک تھا جہاں امریکہ اپنی مرضی سے اپنی حکمت عملی پوری نہ کر سکا۔ بس دانت پیستا ہوا بشار الاسد کے خلاف زہر اگلتا رہا۔ بوسنیا وہ ملک ہے جسکی علاقائی اہمیت کی وجہ سے امریکا اور یورپ کی رال اس پرشروع ہی سے ٹپکتی رہتی ہے۔ بوسنیا کو 2010ء میں دعوت دی گئی کہ وہ نیٹو اتحاد میں شامل ہو جائے۔ چونکہ بوسنیا کو ایک اسلامی مملکت بننے سے روکنے کے لیے دیگر قومیتوں کے لوگوں کو بھی اسکا حصہ بنایا گیا تھا، اس لیے وہاں ایک کثیر تعداد میں سرب آبادی بھی موجود ہے جو روس کے زیر سایہ ہے۔ اس آبادی کے لیڈر می لورڈ ڈوؤک نے اسکی مخالفت کی اور گزشتہ ماہ اعلان کیا کہ اگر بوسنیا نیٹو میں شامل ہوا تو یہ اس ملک کے خاتمے کا اعلان ہوگا۔نو ماہ بعد بوسنیا کے انتخابات ہو گئے لیکن اسی وجہ سے حکومت نہیں بن سکی۔ گزشتہ ایک سال سے روس سے فوجی قافلے خاص طور پر اس خطے خصوصاً بوسنیا سے مسلسل گزارے جاتے رہے ہیں تاکہ اس بات کا احساس رہے کہ یہ روس کا پرانا اتحادی علاقہ ہے اور اسی کے زیر اثر رہے گا۔ روس بوسنیا کو ایک بار پھر غیر مستحکم اور جنگ کا شکار کرنا چاہتا ہے اور اس سلسلے میں اس نے وہاں کی نسل پرست تنظیموں کی سرپرستی بھی شروع کردی ہے۔ کیونکہ اگر بوسنیا میں ایک دفعہ پھر خانہ جنگی شروع ہوگئی تو پھر یہ نیٹو کا حصہ نہیں بن سکے گا۔ اس طرح ایک تباہ حال ملک روس اور مغربی طاقتوں کے درمیان ایک بفر زون بنا رہے گا۔ لیکن ایسی صورتحال شاید اب قائم نہ رکھی جا سکے۔ امریکی مفادات پر گزشتہ چندبر سوں سے جس طرح روس حملہ آور ہو رہا ہے اس نے جنگ کو ہوا دے دی ہے اور اس کے نقاروں کی صدا بلند ہو رہی ہے۔ ترکی نے روس کے ساتھ جو 5.400 میزائل خرید کر اپنے ڈیفنس سسٹم میں ڈالنے کا معاہدہ کیا ہے اس نے نیٹو کی ساری حکمت عملی کو چیلنج کردیا ہے۔ یوں وہ یورپ جو گزشتہ ستر سال سے جنگ کے شعلوں سے بچتا چلا آ رہا تھا، ایک بڑی جنگ کے دہانے پر کھڑا ہے۔ یہ جنگ صرف یورپ میں نہیں لڑی جائے گی۔ اس کے شعلے بحیرہ روم عبور کرتے ہوئے شام، مصر، عراق، اسرائیل اور دیگر عرب ممالک کو اپنی لپیٹ میں لیں گے اور دونوں طاقتیں بلکہ دونوں گروہ یعنی ایک طرف یورپ اور امریکہ دوسری جانب روس، چین جب جنگ میں کودیں گے تو پھر وہ پاکستان، بھارت تھائی لینڈ، انڈونیشیا، ملائیشیا تک اس جنگ کے جنون کو پھیلا سکتے ہیں۔ان تمام ممالک میں جنگوں کی چنگاریاں پہلے سے موجود ہیں۔ اس ضمن میں دونوں جانب سے تجزیے ہو رہے ہیں اورحیران کن طور پر انکا مرکز و محور پاکستان ہے۔ہر کوئی دم بخود ہے کہ پاکستان کس گروہ کے ساتھ کھڑا ہوگا۔ کیونکہ پاکستان دونوں کے لئے اہم ہو گیا ہے۔ عمران خان کو ڈونلڈ ٹرمپ سے ملایا جا رہا ہے کہ دونوں کے عادت و اطوار ایک جیسے ہیں، جب کہ اسرائیل کے یروشلم پوسٹ نے ایک اور حیران کن مماثلت ڈھونڈی ہے۔ اسکے نزدیک پیوٹن اور عمران خان بھی دونوں ایک جیسے ہیں۔ دونوں 5 اور 7 اکتوبر 1952 کو پیدا ہوئے، دونوں ایتھلیٹ اور مضبوط جسم رکھتے ہیں، دونوں امریکہ مخالف ہیں، دونوں کرپشن کے خلاف ہیں، دونوں قوم پرست اور محب وطن ہیں۔ صرف ایک فرق ہے کہ عمران خان ریاستی کاروبار میں نیا نیا ہے اور پیوٹن خفیہ ایجنسی کے جی بی سے آیا ہے۔ لیکن اخبار کے مضمون میں اسرائیل کا خوف نظر آتا ہے۔ اسکے نزدیک اگر کسی بھی وقت یورپ میں آگ کی چنگاری سلگی تو وہ بوسنیا سے ہو سکتی ہے ، مگر اسکے شعلے چاروں جانب پھیلیں گے اور ایک بلند شعلہ پاک بھارت جنگ کا بھی ہوگا۔ایسے میں پاکستان جس طرف بھی ہوا ، جنگ پر اثر ڈالے گا۔ دیکھیں عمران خان کی ٹرمپ سے مماثلت کام آتی ہے یا پیوٹن سے۔