امریکی صدارتی انتخابات عالمی خبروں اور تبصروں کا موضوع ہر چارسال بعدبنتے ہیں‘ لطیفوں ‘ جگتوں اور انہونیوں کا ہدف غالباً پہلی بار بنے‘ ایک بار 2000ء میں نائب صدر الگور نے جارج ڈبلیو بش جونیئر کے مقابلے میں جیت کا دعویٰ کیا اور عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا مگر عدالتی فیصلہ آنے پر تحفظات کے باوجود جارج بش کو صدر مان لیا اور کہا کہ میں امریکہ میں جمہوریت کی خاطر متنازعہ الیکشن اور عدالتی فیصلے کو تسلیم کرتا ہوں مگر ڈونلڈ ٹرمپ فی الحال عوامی فیصلہ ماننے کے موڈ میں ہیں نہ پنسلوانیا اور دیگر ریاستوں کی عدالتوں کے فیصلوں کے سامنے سر تسلیم خم کرنے پر تیار۔ دعویٰ ان کا یہ ہے کہ جان بوجھ کر غیر قانونی ووٹوں کے ذریعے انہیں ہرایا گیا اور یہ الیکشن فراڈ تھے‘ امریکی میڈیا پنسلوانیا اور نیواڈا کے ووٹوں کی گنتی سے پہلے ہی جوزف بائیڈن کی جیت اور ٹرمپ کی ہار کا ڈھنڈورا پیٹ رہا تھا‘ پنسلوانیا کا نتیجہ آتے ہی دنیا بھر کے سربراہان حکومت و ریاست نے بھی نئے منتخب صدر کو مبارکباد دے کر انتخابی نتائج پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ امریکی میڈیا نے یہ کمال بھی کیا کہ حتمی نتائج آنے سے قبل ہی وائٹ ہائوس کے مکین ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریریں سنسر کرنے لگا‘ سی این بی سی کو ٹرمپ کی پریس کانفرنس لائیو نشر کرتے کرتے نجانے کیا سوجھی کہ اس نے امریکی صدر کی گفتگو اچانک روک دی اور نیوز اینکر نے سپر پاور کے صدر کی گفتگو کے مندرجات کو جھٹلانا شروع کر دیا‘ کہا کہ ٹرمپ جو الزامات لگا رہے ہیں وہ سوفیصد جھوٹ ہیں انہوں نے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا اور ہم نے گنتی کے دوران کوئی بے ضابطگی نہیں دیکھی۔ اینکر کی باتیں سن کر مجھے علامہ حسین میر کاشمیری مرحوم یاد آ گئے‘ عالم دین‘ بلا کے مقرر‘ پولیٹیکل ایکٹویسٹ‘ شاعر ‘بزلہ سنج ‘خوش خوراک‘ متفنی اخبار نویس‘ اندرون شہر کی مشہور مسجد کے خطیب تھے اور ایک اخبار کے نیوز روم میں رات کی شفٹ کے سدابہار سب ایڈیٹر۔ ان کا ہمیشہ موقف رہا کہ مختلف خبروں بالخصوص غیر ملکی خبروں کو آنکھیں بند کر کے چھاپنا دانشمندی اور صحافیانہ دیانت کے خلاف ہے اور نیوز ایڈیٹر کو اپنی رائے کے ساتھ خبر شائع کرنی چاہیے کہ اس میں غلطی اور جھوٹ کا احتمال ہے اورقاری گمراہ نہ ہو‘ کانگریس نے تحریک عدم تعاون شروع کی تو مجلس احرار کے سرگرم رکن کی حیثیت سے گرفتاری پیش کی اور جیل چلے گئے‘ خوب واہ واہ ہوئی اور علامہ کی انگریز دشمنی و جذبہ حریت پسندی کو سراہا گیا مگر دو روز بعد اچانک علامہ حسین میر کاشمیری‘ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی مجلس میں موجود۔ شاہ جی نے پوچھا آپ تو پشاور میں گرفتار ہو گئے تھے لاہور کیسے پہنچ گئے‘ کہا ’’حضرت !انگریز سے عدم تعاون‘‘۔ جب انگریز کی خواہش تھی ہم باہر رہیں ہم ‘جیل چلے گئے اب وہ ہمیں اندر رکھنا چاہتا ہے‘ ہم ضمانت کرا کے باہر آ گئے بھرپور عدم تعاون کیا۔ جن دنوں مرزا غلام احمد قادیانی کے جانشین مرزا بشیر الدین محمود شدید بیمار اور لاہور کے ایک ہسپتال میں زیر علاج تھے‘ لاہور کے اخبارات کو ان کی صحت کے بارے میں تجسس رہتا اور جماعت احمدیہ روزانہ مرزا صاحب کی صحت کے بارے میں بلیٹن جاری کیا کرتی تھی۔ اخبار کی آخری کاپی پریس جانے والی تھی‘ کسی نے فون پر اطلاع دی کہ مرزا بشیر الدین محمود انتقال کر گئے ہیں‘ شفٹ انچارج نے ادھر اُدھر فون گھمائے کہ خبر کی تصدیق ہو سکے مگر کہیں سے کچھ پتہ نہ چلا‘ آج کل کی مواصلاتی سہولتیں نایاب تھیں اور اتنی اہم خبر کو نظر انداز کرنا مشکل۔ یہ ڈر بھی تھا کہ غلط خبر شائع ہوئی تواخبار کی ساکھ خراب ہو گی اور خبر شائع نہ کی تو معاصرین مذاق اڑائیں گے‘ پریشانی کے عالم میں علامہ حسین میر کاشمیری نیوز ایڈیٹر کی مدد کو آئے‘ انہوں نے خبر بنا کر دی جسے پڑھ کر نیوز ایڈیٹر پھڑک اٹھے‘ لکھا تھا ’’ربوہ سے آمدہ اطلاعات کے مطابق جماعت احمدیہ کے امیر مرزا بشیر الدین محمود قضائے الٰہی سے انتقال کر گئے ‘ وہ کچھ عرصہ سے صاحب فراش اور مقامی ہسپتال میں زیر علاج تھے۔ وقت کی قلت کے باعث جماعت احمدیہ سے خبر کی تصدیق کے لئے رابطہ نہیں ہو سکا۔ مگر ہمارا عقیدہ ہے کہ جیسی ان کی نبوت ویسی ان کی خبریں‘ ناقابل یقین ‘ ناقابل اعتبار‘‘ پاکستان میں کوئی ٹی وی چینل اپنے کسی سیاست دان کی تقریر یا پریس کانفرنس قانونی تقاضوں کے تحت براہ راست نشر کرنے سے انکار کرے یا سراسر جھوٹ‘خلاف آئین و قانون جملے حذف کر دے‘ تقریر اور پریس کانفرنس روک کر گفتگو میں شامل خلاف واقعہ‘ غیر مصدقہ باتوں اور الزام تراشی پر منفی تبصرہ نشر کرنے لگے تو آزادی اظہار کے مجاہدین طوفان بدتمیزی سے آسمان سر پر اٹھا لیں گے ‘ عدالتی سزا یافتہ شخص کے دلآزار‘ قانون شکن اور صحافتی آداب کے منافی بیان پر کسی اخبار میں علامہ حسین میر کاشمیری ٹائپ کوئی سب ایڈیٹر یا نیوز ایڈیٹر تبصرہ خبر کا حصہ بنا دے تو اس بے چارے کی وہ گت بنے گی کہ اللہ دے اور بندہ لے مگر امریکہ کے سی این بی سی جیسے معتبر نیوز چینل کی سکرین پر منتخب امریکی صدر کی گفتگو نہ صرف سنسر ہوئی بلکہ نیوز اینکر نے منفی تبصرہ کیا مگر کسی نے اسے صحافتی آداب کے منافی قرار دیا نہ ’’خلائی مخلوق ‘‘کی طرف سے جبر اور زبان بندی کا راگ الاپا گیا‘ ٹویٹر نے امریکی صدر کی ایک درجن سے زائد ٹویٹس پر انتباہی نوٹس لگایا مگر مجال ہے کہ کسی ذی شعور امریکی صحافی اور انسانی حقوق کی تنظیم نے اس پر اعتراض یااحتجاج کیا ہو‘ لیکن ہمارے ہاں پیمرا یا کوئی دوسرا سرکاری ادارہ اپنے منصبی فرائض کے تحت آئین و قانون اور اخلاقی ضابطوں کی پابندی کا اہتمام کرے تو انسانی حقوق ‘آزادی اظہار کی علمبردار تنظیمیں‘ بارکونسلیں اور مادر پدر آزاد تہذیب و ثقافت کی ترویج و اشاعت کے خواہاں ادارے آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں اور کسی کو طے شدہ ضابطہ اخلاق یاد رہتا ہے نہ ملکی آئین و قانون میں طے شدہ اُصول۔ امریکی انتخابات نے بہت سے کلیشئے غلط ثابت کئے مگر ہم اپنی ڈگر پر قائم رہیں گے اور اپنے اور اپنے سیاسی و صحافتی دیوتائوں کے لئے وہ آزادی مانگتے رہیں گے جو امریکی میڈیا اپنے صدر کو دینے کے لئے تیار ہے نہ ہمارے پڑوسی ملک کے منہ پھٹ اینکر ارنب سوامی کو میسر۔ لیکن چھوڑیے علامہ حسین میر کاشمیری کے ظریفانہ کلام سے محظوظ ہوں۔ ؎ کیا خبر تھی انقلابِ آسماں ہو جائے گا قورمہ قلیہ نصیب احمقاں ہو جائے گا ظلمتِ باطل کے دامن میں چھپے گا نور حق دال کی آغوش میں قیمہ نہاں ہو جائے گا کیک بسکٹ کھائیں گے اُلوّ کے پٹھے رات دن اور شریفوں کے لئے آٹا گراں ہو جائے گا اے سکندر مرغ کا ہے شوربا آب حیات خضربھی اس کو اگرپی لے‘ جواں ہو جائے گا