ممکن تھا کہ فیک نیوز کے اس دَور میں دْنیا اس خبر کو بھی جعلی سمجھتی مگر اس کی توثیق بیک وقت کئی اہم اور مشہور ذرائع سے ہورہی تھی اس لئے اِس پر بھروسہ کرلیا گیا۔ خبر یہ تھی کہ امریکی سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کے ’حراستی قتل‘ کے خلاف جاری احتجاج کے شرکاء جب وہائٹ ہاوس کے بہت قریب پہنچ گئے تو دْنیا کی ’’سب سے محفوظ عمارت‘‘ کی روشنی گل کردی گئی اور صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور اْن کے اہل خانہ کو اس کے تہ خانے (بنکر) میں لے جایا گیا۔ یہ خبر سننے، پڑھنے اور دیکھنے کے بعد دْنیا یہ سوچنے پر مجبور ہوئی کہ صدرِ امریکہ تو ایسے کئی مضبوط قلعوں سے بھی زیادہ مضبوط اور طاقتور ہوتا ہے، اْس کا بنکر میں جاکر چھپنا تو صدارت ہی کی نہیں اس طاقت کی بھی توہین ہے جو صدر کو حاصل ہوتی ہے! مگر یہ ہوا اور اس لئے ہوا کہ جب انسان غلطی پر ہوتا ہے تو کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، غلطی کے خلاف اْٹھنے والی آوازوں سے اْس میں ایک انجانا خوف پیدا ہوجاتا ہے،بھلے ہی وہ اس کا اظہار نہ کرے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے بھی اسی خوف کے تحت اپنے صدر کو بنکر میں جانے کا مشورہ دیا ہوگا کیونکہ یہ انتظامیہ ایک سیاہ فام شہری کے حراست میں لئے جانے اور پھر گلا گھونٹ کر ماردیئے جانے کی انسانیت سوز واردات میں مظلوم کی بجائے ظالم کا ساتھ دے رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس انتظامیہ کے سربراہ وہی ٹرمپ ہیں جنہوں نے خود ریاستی گورنروں کے ساتھ ٹیلی کانفرنسنگ کے دوران کہا کہ ’’آپ کو احتجاج پر حاوی ہونا چاہئے‘‘ اور ’’آپ میں سے بیشتر بہت کمزور ہیں۔‘‘ ان بیانات سے ٹرمپ کا ذہن سامنے آجاتا ہے کہ وہ پْرامن احتجاج کو روکنے کیلئے طاقت کے بے جا اور بے دریغ استعمال کی وکالت کررہے ہیں جبکہ وہ بھی طاقت کا بے جا استعمال تھا جو جارج فلائیڈ کے سفاکانہ قتل کا سبب بنا۔ اب ٹرمپ نے فوج بلانے کی دھمکی دی ہے۔ سربراہان مملکت قیام امن و انصاف کیلئے منتخب کئے جاتے ہیں، آئین کے نام پر حلف اْٹھاتے ہیں اور دْنیا میں جہاں بھی جاتے ہیں، امن، انصاف،مساوات اور حقوق انسانی کی قسمیں کھاتے ہیں۔ اگر وہ نسلی بنیادوں پر جانبداری برتیں تو یہ ایسی شرمناک حرکت ہے کہ جسے کوئی معاف نہیں کرسکتا،نہ تو عوام نہ ہی ملک کی تاریخ۔ ایک ہفتہ گزر گیا، ٹرمپ نے جارج فلائیڈ کے قتل کی مذمت کی نہ ہی اْن پولیس افسران کو سخت ترین سزا دلوانے کااعلان کیا جو زیر بحث قتل میں ملوث تھے بالخصوص وہ افسر (ڈیریک شاوِن) جس نے ۸منٹ اور ۶۴سیکنڈتک فلائیڈ کی گردن کو اپنے گھٹنوں سے پوری طاقت کے ساتھ دبائے رکھا۔ وہ فلائیڈ کو مار ڈالنے پر ہی تْلا ہوا تھا اس لئے مار کر ہی دم لیا۔ ٹرمپ اس لئے بنکر میں جاکر چھپ گئے کہ وہ حقائق کا سامنا نہیں کرسکتے تھے۔ ٹرمپ اس لئے ڈر گئے کہ اْنہوں نے ایک ہفتے کے دوران پْرامن مظاہرین کے ساتھ مذاکرات کو ضروری نہیں سمجھا بلکہ ظالمانہ سختی سے پیش آنے کی ہدایات جاری کیں۔ٹرمپ اس لئے بھی اتنے بْزدل نظر آئے کہ اْن کے دَور میں نسلی امتیازات کو سرکاری سرپرستی حاصل ہے۔ امریکہ میں نسلی امتیاز ہمیشہ سے موجود رہا ہے۔ بعض سرویز کے مطابق پولیس انکاونٹر میں سفید فاموں کے مقابلے میں سیاہ فاموں کی موت کا خطرہ ڈھائی گنا زیادہ رہتا ہے۔ یہی ذہنیت ٹرمپ کی بھی ہے جنہوں نے مظاہرین کے درد کو سمجھنے اور اْنہیں اعتماد میں لینے کی فکر نہیں کی بلکہ اْنہیں سازشی، شرپسند اور ٹھگ قرار دیا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ سڑکوں پر آگیا اور ایک مظلوم کے حق میں انصاف کی فریاد کررہا ہے جسے اْن کا انتظامیہ اور وہ خود سننا نہیں چاہتے۔ اسی لئے اْنہیں یہ ذلت اْٹھانی پڑرہی ہے۔ غالباً وہ پہلے امریکی صدر ہیں جنہیں مظاہرین کے خوف سے وہائٹ ہاوس کے تہ خانے میں پناہ لینی پڑی جبکہ صدارتی محل کی روشنیاں تو شاید کسی جنگ کے دوران بھی گل نہیں ہوئی تھیں! انسانی حقوق کی تنظیم اے سی ایل یو نے بلا اشتعال اس کارروائی کو ''مظاہرین پر مجرمانہ حملے"سے تعبیر کیا ہے۔عدالت میں دائر کردہ درخواست میں امریکا کے اٹارنی جنرل ولیئم بار اور وائٹ ہاؤس کے دیگر سینئر حکام پر غیر قانونی کارروائی کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ عرضی میں اس کارروائی کو '' مظاہرین کے ہجوم پر بلا اشتعال مربوط حملہ بتایا گیا ہے۔''اے سی ایل یو کے قانونی مشیر اسکاٹ مائیکل مین نے اس کارروائی پر اپنے رد عمل میں کہا، ''چونکہ صدر مظاہرین کے خیالات سے متفق نہیں ہیں اس لیے ان پر بے شرم، غیر آئینی اور بلا اشتعال مجرمانہ حملے نے ہمارے ملک کے آئین کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔'' اس روز صدر ٹرمپ نے واشنگٹن کے سینٹ جارج کا دورہ کیا تھا اور ہاتھ میں بائبل پکڑ تصویر کھنچوائی تھی۔ لیکن چرچ کے پادریوں کے سربراہ نے ٹرمپ کے چرچ کے اس دورے کو سیاسی شعبدہ بازی قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ انہوں نے چرچ کی عمارت اور مقدس بائبل کا استعمال اپنے سیاسی مفاد کے لیے کیا ہے۔سیاہ فام امریکی شہری جارج فلوئیڈ کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے خلاف تمام امریکی ریاستوں میں مظاہرے اب بھی جاری ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ نے ان مظاہروں سے نمٹنے کے لیے جو حکمت علی اپنائی اس پر موجودہ اور سابق افسران کی جانب سے شدید تنقید ہوئی ہے۔ خاص طور چرچ جانے کے لیے انہوں نے پرامن مظاہرین کے خلاف جس کارروائی کا حکم دیا، اس پر سبھی حلقوں کی جانب سے نکتہ چینی ہوئی ہے۔لفاٹے پارک میں کارروائی سے عین قبل انہوں نے مظاہرین پر قابو پانے کے لیے فوج تعینات کرنے کی دھمکی بھی دی تھی۔ ان کے اس موقف پر بھی شدید نکتہ چینی ہوئی ہے اور امریکی فوج کے سابق سربراہ مائیک مولین سمیت کئی فوجی جرنیلوں نے شدید نکتہ چینی کی ہے۔ اس حوالے سے ٹرمپ کی حکومت میں شامل سابق امریکی وزیر دفاع جیمز میٹِس کا کہنا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ فوج اور سول سوسائٹی کے درمیان خواہ مخواہ محاذ آرائی پیدا کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ''میں نے کبھی خواب میں بھی یہ نہیں سوچا تھا کہامریکی فوجیوں کو حکم دیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے ہی شہریوں کے آئینی حقوق پامال کریں۔'' انہوں نے مزید کہا کہ صدر ٹرمپ جس انداز سے نسلی امتیاز کے مسئلے سے نمٹ رہے ہیں اس پر انہیں ''غصہ اور حیرت'' ہے۔(بشکریہ روزنامہ انقلاب بھارت )