امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ24فروری سوموارکو دو روزہ دورے پر بھارت پہنچ گئے ہیں۔ وہ احمد آباد میں موٹیر اسٹیڈیم گئے جہاں انہوں نے ایک بڑے جلسہ عام سے تقریرکی امریکی صدر کا تاج محل کا دورہ بھی شیڈول ہے۔گجرات کے اسٹیڈیم میں مودی نے ٹرمپ کی تعریفوں کے پل باندھے اورانڈیابھارت لانگ لیوکے نعرے لگا لگا کر مودی کامنہ خشک ہوگیا۔جبکہ اسلامک ٹیررازم کانام لے کربھارت کواسے نجات دلانے کے لئے ٹرمپ کاردعمل بھی مودی کی امیدوں کے مطابق رہا۔ ٹرمپ کے دورہ بھارت کوسمجھنے کے لئے یہ بات پیش نظررکھنی چاہئے کہ امریکہ بھارت کوخطے کاتھانیداربنانے کے لئے اسکے ساتھ دفاعی تعاون کے ایک ایسے معاہدے کو حتمی شکل دینا چاہتا ہے جس سے بھارت کو جدید ترین دفاعی ٹیکنالوجی فراہم کرنے کی راہ ہموار ہوگی۔واضح رہے کہ گزشتہ چند دہائیوں میں امریکہ اور بھارت کی باہمی کثیرالجہت تجارت میں بہت اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔2016ء میں دونوں ملکوں کے درمیان باہمی تجارت کا حجم سو ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا جو کہ 90کی دہائی میں صرف پانچ ارب ڈالر کے قریب تھا۔ امریکہ کی یہ دیرینہ کوشش رہی ہے کہ خطے میں بھارت فوجی اور اقتصادی لحاظ سے چین کے متبادل کے طور پر ابھر کر سامنے آئے اور چین کی بڑھتی ہوئی قوت کو قابو کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ نومبر 2020ء کو امریکہ میں صدارتی انتخابات ہونے ہیں جس میں ٹرمپ دوبارہ منتخب ہونے کے لئے ہندوستان کا دورہ کرنے کے لیے 24فروری 2020ء سوموارکوبھارتی ریاست گجرات پہنچے۔مبصرین کاخیال ہے کہ امریکہ میں بھارت نژاد 40لاکھ امریکی آبادی کا 6 فیصد ہیں جس کا فائدہ ٹرمپ کو انتخابات میں مل سکتا ہے۔ دوسری طرف مودی کے لیے بھی ٹرمپ کادورہ اہمیت کا حامل ہے یہ اس لئے کہ دونوں کی کیمسٹری باہم ملتی ہے۔ سب سے زیادہ اہمیت ٹرمپ کے دورہ گجرات کو دی جا رہی ہے۔ ٹرمپ سیدھے گجرات پہنچے۔ احمد آباد میں ایک اسٹیڈیم کا افتتاح کیا، روڈ شو میں حصہ لیا اور پھر اسٹیڈیم میں ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کیا۔ ایک طرح سے یہ امریکہ میں ہوئے ہاوڈی موڈی کا امریکی ورژن کہا جاسکتا ہے جس سے ٹرمپ فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ ان کی اس کوشش میں مودی حکومت پوری طرح سے تعاون کر رہی ہے۔ حالانکہ کئی مبصرین کے خیال میں ٹرمپ کے اس دورہ سے کوئی خاص تجارتی فائدہ ہونے والا نظر نہیں آ رہا ہے۔ امریکہ نے تجارتی امور پر ہندوستان پر بھی شرائط عائد کردی ہیں۔ اس معاملہ میں امریکہ ہندوستان کو کوئی خاص رعایت دینے بھی تیار نظر نہیں آتا۔ خود ڈونالڈ ٹرمپ نے ایک بیان دیتے ہوئے واضح کردیا ہے کہ فی الحال تجارتی معاہدہ کی امید کرنا فضول ہوگا۔ ٹرمپ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ تجارتی امور میں ہندوستان نے امریکہ کے ساتھ کوئی خصوصی رویہ بھی اختیار نہیں کیا ہے۔ ان بیانات سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ ٹرمپ کے دورہ بھارت کے موقع پر کوئی تجارتی معاہدہ طے نہیں ہو پائے گا۔ اس کا مطلب یہی ہوگا کہ مودی حکومت بھارتیوں کوپانچ ٹریلین ڈالر کی معیشت کا جو خواب دکھانے کی کوشش کر رہی ہے وہ ابھی پروان نہیں چڑھا پائے گی۔ اس کے علاوہ بین السطور سے واضح ہوتا ہے کہ اس دورہ سے ہندوستان سے زیادہ امریکہ فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرے گا اور خاص طور پرجیساکہ عرض کیاجاچکاہے ڈونلڈ ٹرمپ انتخابی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بھارتی حکومت کا جہاں تک سوال ہے وہ اس دورہ پر کروڑہا روپیہ خرچ کر رہی ہے، پیسہ پانی کی طرح بہایا جار ہا ہے۔ بھارت میں غربت وافلاس کے ایسے بے شمار مسائل موجود ہیں جن پر مودی کو توجہ کی ضرورت ہے لیکن مودی حکومت اس حوالے سے آج تک محض لیپا پوتی پرہی اکتفا کر رہی ہے۔ احمد آباد میں کچی بستیوں کے گرد دیوار کھڑی کی جا رہی ہے جو انتہائی افسوس کی بات ہے۔ خاص طور پر اس لئے بھی کیونکہ جب انتخابات ہوتے ہیں اور ووٹ مانگنا ہوتا ہے مودی اپنی غربت کا واسطہ دینے سے بھی گریز نہیں کرتے لیکن جب ٹرمپ کو مدعو کرنا ہوتا ہے توا سی غربت کے گرد دیوار کھڑی کرکے اسے چھپانا چاہتے ہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ ٹرمپ کے پاس ڈرون کیمرے ہیں، اس کے بعد بھی مودی جی نے دیوار کھڑی کردی تاکہ غریبوں کا گھر نہ نظر آئے۔ اس دیوار سے الگ موٹیرا اسٹیڈیم کی طرف ایک اور دیوار ہے۔ اس بستی کی دیوار کو ایسٹ مین کلر والے لک میں رنگا جا رہا ہے۔ ٹرمپ اور مودی کے نیچے (U&I)’’آپ اور میں‘‘لکھا ہے۔ ایک طرف بھارت اس سطح کی نزدیکی دکھا رہے ہیں اوردوسری طرف ٹرمپ کہہ رہے ہیں کہ ہندوستان کا رویہ ٹھیک نہیں ہے۔ مصور کے تصور کا ہندوستان امریکہ رشتہ کارٹون کی کتاب کی طرح کہانی میں بدل رہا ہے۔ یہاں پر ایگل اور پکاک دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ دونوں ہی امریکہ اور ہندوستان کے قومی پرندے ہیں۔ آپ اور میں کی جگل بندی کی علامت بن گئے ہیں۔ یہ خوبصورت پینٹنگ جس دیوار پر کی گئی ہے اس کے پیچھے ہندوستانیوں کی غریبی رہتی ہے۔ بحیثیت مجموعی یہی کہا جاسکتا ہے کہ جہاں ٹرمپ اس دورہ سے انتخابی فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں وہیں مودی حکومت بھی عوامی مسائل سے توجہ ہٹانا چاہتی ہے۔ اگرچہ ٹرمپ انتظامیہ سے وابستہ افراد کا یہ بھی کہنا ہے کہ ٹرمپ کا دورہ بھارت دونوں ممالک کے مابین بڑھتے ہوئے تجارتی اختلافات کو کم کرنے میں معاون ثابت ہو گا لیکن گزشتہ روز دونوں ممالک کے مجوزہ مذاکرات کے ایجنڈے کے تعلق سے ٹرمپ انتظامیہ کے بیان نے اچانک سب کو حیرت میں ڈال دیا۔ٹرمپ انتظامیہ کے ایک عہدیدار نے کہا کہ میرے خیال سے صدر ٹرمپ جمہوریت اور مذہبی آزادی کے بارے میں ہماری مشترکہ روایت کے بارے میں نجی گفتگو اور عوامی طور پر بھی یقینا بات کریں گے۔ وہ بطور خاص مذہبی آزادی جیسے امور کو اٹھائیں گے۔ اس معاملے پر بات کی جائے گی۔ ٹرمپ انتظامیہ کے لئے یہ ایک اہم مسئلہ ہے۔ تجزیہ کار اس بیان کو ہندوستان میں شہریت کے متنازع ترمیمی قانون اور قومی شہری رجسٹر پر ہندوستانیوں کی مخالفت کے حوالے سے دیکھ رہے ہیں۔