ڈونلڈ ٹرمپ نے امن فارمولا نہیں دیا ،اپنی قوت قاہرہ سے غلامی کی ایک نئی دستاویز لکھ کر حکم صادر فرمایا ہے کہ فلسطینیو ! تمہاری زرہ خون میں ڈوب چکی ہے ، تمہارے لیے یہ آخری موقع ہے ، اس کے بعد شاید ہم اس کا تکلف بھی نہ کر یں۔سوال یہ ہے کہ انٹرنیشنل لاء کی روشنی میں اس فارمولے کی کیا حیثیت ہے؟ذرا منصوبے کی جزئیات پڑھیے ۔فلسطین کی ایک ریاست ہو گی لیکن وہ ریاست اپنے پاس اسلحہ نہیں رکھ سکے گی۔ اس کی کوئی فضائیہ نہیں ہو گی۔اسے بری فوج رکھنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ پڑوس میں سمندر ہو گا لیکن وہ اسرائیل کا ہو گا۔ اس لیے فلسطین کی کوئی نیوی نہیں ہو گی۔اسے صرف پولیس رکھنے کی اجازت ہو گی۔ کیا ریاستیں ایسی ہوتی ہیں؟ یہ ریاست قائم کی جا رہی ہے یا غلاموں کی ایک ہائوسنگ کالونی بنائی جا رہی ہے؟کیا اس طرح کی ریاست کا انٹر نیشنل لاء میں کوئی تصور موجود ہے ؟انٹر نیشنل لاء ہر ریاست کو اپنے تحفظ کے لیے فوج رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اس حق کو کیسے چھین سکتے ہیں؟مقصد بہت واضح ہے۔ اسرائیل کے اب تک کے غاصبانہ قبضے کو ، جسے اقوام متحدہ اور بین الاقوامی قانون نے تسلیم نہیں کیا ،امن معاہدے کے نام پر دوسرے فریق سے تسلیم کروا لیا جائے ، تاکہ معاملہ بین الاقوامی نہ رہے بلکہ دو طرفہ ہو جائے۔ اس دوران اسرائیل اپنی پوزیشن ان مقبوضہ جات میں مزید مضبوط کرے ، صف بندی کرے اور چند سالوں بعد پھر کسی شام اس کی فوجیں اس بکھری اور ایک دوسرے سے کٹی اور ٹکڑوں میںبٹی ریاست فلسطین میں گھس جائیں اور یوں یہ سارا قصہ ہی ختم ہو جائے۔ریاست فلسطین کے پاس نہ فوج ہو گی نہ ٹینک اور میزائل ، وہ اس جارحیت کا کیسے مقابلہ کر پائے گی؟یہ امن فارمولا نہیں ، یہ فلسطینیوں پر آخری اور فیصلہ کن وار کرنے کے روذ میپ کاابتدائی ڈھانچہ تیار کیا ہے۔ ٹرمپ کے اس فارمولے میں دوسری قباحت یہ ہے کہ یروشلم کو اسرائیلی ریاست کا دارالحکومت قرار دیا گیا ہے۔سوال یہ ہے جب بین الاقوامی قوانین کے تحت یروشلم اسرائیل کا شہر ہی نہیں تو سفارت خانہ وہاں کیسے منتقل ہو سکتا ہے؟ برطانیہ اور اقوام متحدہ کی سرپرستی میں جب اسرائیل کا قیام عمل میں لایا گیا تو یہ بات طے کر دی گئی کہ یروشلم شہر اسرائیل کا حصہ نہیں ہو گا۔29نومبر 1947ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرارداد نمبر 181 کے تحت یہ قرار دیا کہ یروشلم کی حیثیت Corpus separatum کی ہو گی یعنی یہ شہر اب کسی ایک ریاست کا حصہ نہیں، یہ سب کے لیے محترم ہے اور یہ سب کا ہے۔ جنرل اسمبلی نے اسی بات کا اعادہ 1948 کی قرارداد نمبر 194 میں کیا۔یہی اصول فلسطین پر اقوام متحدہ کے کمیشن UNCCP نے بھی 1949میں سوئٹزرلینڈ میں ہونے والی کانفرنس میں تسلیم کیا۔خود اسرائیل 1949ء میں مصر، اردن ، شام اور لبنان سے کیے گئے اپنے معاہدے Armistice Agrement میں یروشلم شہر کی اس حیثیت کو تسلیم کر چکا ہے۔1967ء تک مشرقی یروشلم کا انتظام اردن کے پاس رہا اور 1967ء کی جنگ میں یہاں اسرائیل قابض ہو گیا لیکن سلامتی کونسل یہ فیصلہ دے چکی ہے کہ یروشلم کو مقبوضہ فلسطین کہا جائے گا ، اسے اسرائیل نہیں کہا جا سکتا۔سلامتی کونسل نے 22نومبر 1967ء کی قرارداد میں اسرائیل کے قبضے کو ناجائز کہا اور اسے مشرقی یروشلم سے نکل جانے کا حکم دیا۔اس قرارداد کی خود امریکہ نے ووٹ دے کر تائید کی، نہ کوئی ملک ووٹنگ سے غیر حاضر رہا نہ کسی نے اس کے خلاف ووٹ دالا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھی 4جولائی 1967ء کو قرارداد نمبر 2253کے ذریعے یروشلم پر اسرائیلی قبضے کو ناجائز قرار دیا۔ 99 ممالک نے اس کے حق میں ووٹ دیا اور کسی ایک نے بھی مخالفت نہیں کی۔1980 ء میں یروشلم کو اپنا دارالحکومت بنانے کی اسرائیلی کوشش کے جواب میںسلامتی کونسل نے قرارداد نمبر476 اور 478 پاس کیں اور اسے انٹرنیشنل لاء کی خلاف ورزی قرار دیا۔جنرل اسمبلی نے بھی اسے چوتھے جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی قرار دیا۔سلامتی کونسل نے 21 اکتوبر 1990ء کی قرارداد نمبر672میں ایک مرتبہ پھر واضح کیا کہ یروشلم اسرائیل کا نہیں فلسطین کا حصہ ہے۔سوال یہ ہے امریکہ اور اسرائیل مل کر اقوام متحدہ کے طے شدہ اصولوں سے انحراف کیسے کر سکتے ہیں؟ٹرمپ فارمولے کی تیسری بڑی خامی وادی اردن پر اسرائیلی قبضے کو تسلیم کرنا ہے ، یہاں 65 ہزار مسلمان اور 11 ہزار یہودی بستے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس قبضے کو جب اقوام متحدہ ناجائز قرار دے چکی ہے توامن فارمولے کے نام پر انہیں کیسے جائز قرار دیا جا سکتا ہے؟سوال یہ بھی ہے کہ وہ کون سی منطق ہے کہ 65 ہزارکو نظر اندازکرتے ہوئے علاقہ 11ہزار کے حوالے کر دیا جائے؟ ٹرمپ فارمولے کا چوتھا بڑا نقص یہ ہے کہ اس میں فلسطین کے علاقوں میں زبردستی قبضہ کر کے قائم کی گئی اسرائیلی بستیوں کو قانونی تحفظ دیتے ہوئے اسرائیل میں شامل کرلیا گیا ہے۔یہ انٹر نیشنل لاء کی صریح خلاف ورزی ہے۔2016میں سلامتی کونسل نے اپنی قرارداد نمبر 2334 میں ان بستیوں کو غیر قانونی اور ناجائز قرار دیا ہے۔قرار داد میں کہا گیا کہ اسرائیل ایک قابض قوت ہے اور وہ چوتھے جنیوا کنونشن کے اصولوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔یہی بات سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 446۔ 452،265،471اور 476 میں کہی گئی ہے۔2004ء میں انٹر نیشنل کورٹ آف جسٹس نے بھی اسے ناجائز قرار دیا۔اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل بھی اسے انٹر نیشنل لاء کی خلاف ورزی قرار دے چکی ہے۔انٹر نیشنل کمیٹی آف ریڈکراس کی بھی یہی رائے ہے۔سوال یہ ہے ڈونلڈ ٹرمپ اقوام متحدہ کی قراردادوں کو منسوخ فرمانے کا استحقاق کب سے حاصل کر چکے کہ وہ ان سے متصادم ایک فارمولا متعارف کراتے ہوئے ساتھ دھمکی بھی دے رہے ہیں کہ سلامتی کونسل کی قراردادیںگئیں بھاڑ میں ، فلسطینیو !تمہارے لیے یہ آخری موقع ہے مسکرا کر غلامی کا طوق گلے میں ڈال لو ورنہ پھر ہم اور اسرائیل تم سے نبٹ لیں گے؟یہ امن فارمولا نہیں ، یہ غلامی کا طوق ہے جس کا انتر نیشنل لاء کی روشنی میں کوئی اعتبار نہیں۔