ٹرمپ کے دورہ بھارت پرمودی کے ایک وزیرنے ہندئووں کوہدایات جاری کردیں کہ پاکستان زندہ بادکانعرہ دینے والے کشمیریوںکی زبان کاٹ ڈالو۔ بی جے پی کے ایک لیڈر شری رام سینا کے سیکریٹری نگا سوامی نے پاکستان کی حمایت میں نعرے لگانے والے کشمیری طلبا ء کی زبانیں کاٹ کر لانے والوں کے لئے 3لاکھ روپے انعام کا اعلان کیا ہے۔19فروری 2020 بدھ کو ایک پروگرام میں اس کاکہناتھاکہ کشمیرکے ان طلباء زبانوں کو کاٹ کر لائیں ، جوپاکستان کانعرہ لگاتے ہیں توشری رام سینا انہیں ہر زبان کے بدلے 1لاکھ روپیہ نقدانعام دے گی۔اھرٹرمپ کے دورہ بھارت سے چندیوم قبل ہی کشمیرمیںوسیع پیمانے پرنوجوانوں کی پکڑدھکڑکاسلسلہ شروع کردیاگیاتھاجوہنوزجاری ہے یہ مہیب سلسلہ کشمیر میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کیخلاف کارروائی سے شروع ہوئی اوراب تک ہزاروں نوجوانوںکوگرفتارکرکے کال کوٹھریوںمیں پابندسلاسل کئے جاچکے ہیں ۔ پکڑدھکڑ کایہ نیاسلسلہ محض چندیوم کی نظربندی تک ہی محدودنہیں بلکہ ایسے گرفتارشدگان کے خلاف انسداد دہشت گردی کے ایک نئے کالے قانون کے تحت مقدمات عائدکئے جارہے ہیں۔گرفتاریوں سے بچنے کے لئے اب نہ صرف کشمیری بچے انٹرنیٹ کی سہولت لینے سے کترارہے ہیں بلکہ اپنے موبائل فونز سے بھی ہاتھ چھڑا رہے ہیں۔ 5اگست 2019ء کوبھارتی حکومت نے وادی کشمیرمیں باہمی رابطوںکے تمام ذرائع پر شب خون مارا ،اورانٹرنیٹ اورفون سمیت ذرائع ابلاغ پرشدیدترین قدغنیں عائدکردی ہیں جس کے باعث کشمیری مسلمان پوری دنیاسے کٹے رہے حتیٰ کہ اپنی ہی دھرتی میں وہ کئی مہینوں تک اپنے عزیزوں سے رابطہ قائم کرنے سے قاصررہے ۔ سوال یہ ہے کہ بھارت بار بار اور لگاتارکشمیرمیں جدید ڈیجیٹل سہولت پرپابندی اور قدغن عائد کیوں کر رہاہے ۔ دراصل انٹرنیٹ بند کرنے کا بنیادی مقصد سوشل نیٹ ورک تک رسائی بند کرنا ہے تاکہ بھارت کشمیر میں جس طرح کاخونی کھیل کھیل رہاہے اسے بیرونی دنیا سے پوشیدہ رکھا جا سکے۔ وی پی این کے استعمال پرروک لگانے کے لئے بھارتی حکومت نے بھارت کی ٹیلی کام سیکٹرمیں مصروف ٹیلیفون کمپنیوں کو اس کو روکنے کے لے فائر وال استعمال کرنے کوکہاہے۔لیکن فائر وال کے باوجود جب سوشل میڈیا پر کشمیر سے ویڈیوز اور رپورٹیں بیرونی دنیا تک پہنچیں توقابض بھارتی فورسز نے راہ گیروں سے لے کر طلبہ تک کے فون کی جانچ کرنے کا حکم دیا گیا۔اب شناختی کارڈ کے ساتھ ساتھ فون کی جانچ بھی کی جا رہی ہے اورسینکڑوںطلباء کے خلاف (VPN) استعمال کرنے کی پاداش میں ایف آئی آر درج کی جاچکی ہے۔اسلامیان کشمیرکو مزید ہراساں کرنے کا نیا خوفناک سلسلہ شروع کیا گیا ہے تاکہ میڈیا کے بعد سوشل نیٹ ورک پر کنٹرول کیا جاسکے ۔ چندیوم قبل جب کشمیرکے بزرگ راہنماسیدعلی گیلانی کی طبعیت ناسازکے حوالے سے کئی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئیں تواس کی پاداش میںکپواڑہ بازارکے رہنے والے ایک شخص کے بدلے اسکے دس سالہ بچے کو دھر لیا گیاکیوںکہ اس کے والدکو(VPN)کے استعمال کے شک پرقابض فوجی اہلکارتلاش کررہے تھے لیکن ان کے ظلم سے بچنے کے لئے وہ رو پوش ہوچکاہے۔ ٹرمپ کے دورہ بھارت کے دوران کشمیر کی سکھ کیمونٹی بھی ایک انجانے خوف میں مبتلاہے کہ کہیں قابض بھارتی فورسزان کاایک اورقتل عام نہ کردے کیوںکہ سال2000ء میںاس وقت کے امریکی صدربل کلنٹن کے دورہ بھارت کے دوران کشمیرمیںقابض بھارتی فورسزکے ہاتھوں 36سکھ ہلاک کردیئے گئے تھے ۔ یہ بڑا،اندوناک واقعہ تھاکہ جب رات کے اندھیرے میں قابض بھارتی فوج نے چھٹی سنگھ پورہ گائوں پر دھاوا بول کر36سکھ مردوں کو قطار میں کھڑا کرکے قتل کردیا اور سکھوں کی اس بستی سے صرف سکھ جس کانام نانک سنگھ تھا کو زندہ چھوڑاگیا۔یہ دلدوز واقعہ 21اور22مارچ 2000 ء کی رات کو جنوبی کشمیر کے ضلع اسلام آبادکے چھٹی سنگھ پورہ گائوں میںپیش آیا۔ امریکی صدر بل کلنٹن کی دہلی آمد کے چند گھنٹوں کے بعد ہی اس گائوں میں خون کی ہولی کھیلی گئی۔ واضح رہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کی سِکھ کمیونٹی بھی کشمیرکی تحریک آزادی کا ساتھ دے رہی ہے اس حوالے سے اگرچہ سکھوں نے فرنٹ لائن اختیارنہیں کررکھی ہے تاہم وہ تائیدسکوتی کے ساتھ اس تحریک کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں ۔ کئی برسوں سے بھارت کی مختلف ریاستوں میں ہندوغنڈوںکے ہاتھوں کشمیری تاجروں اور طلبا شدید حملوں کے شکارہوئے توسکھوں نے انہیں تحفظ فراہم کرنے اور انہیں ہر ممکن مدد اور سہولت فراہم کرنے کی ٹھان لی ۔بھارت کے مختلف تعلیمی اداروں میں کشمیریوں کو زدوکوب کرکے انہیں لہو لہان کردیا گیا، انہیں اپنی رہائش گاہوں اور ہوسٹلوں سے باہر گھسیٹ کر ان کی تذلیل کی گئی۔ انتہا پسندوں اور بدمست ہندوئوں نے کشمیری مسلمانوںکو اپنی نفرت کا نشانہ بنا کر اپنی بھڑاس نکالی، ایسی طوفان بدتمیزی میں ہمدردی کے چند بول بھی مصیبت زدہ انسان کے لیے راحت اور اطمینان کا سبب بنتے ہیں تو اس گھٹاٹوپ اندھیروں میں ستم رسیدہ کشمیریوں کے زخموں پر مرہم رکھنے اور انہیں دلاسا دینے پر سکھ کمیونٹی کھڑی ہوئی اوربھارت کی مختلف شہروں میں کشمیریوں کی مدد کی۔ ان کوہندو انتہا پسند غنڈوںکے رکیک حملوں سے بچانے اور ان کیلئے لنگر وغیرہ کا انتظام کرنے اور انہیں محفوظ مقامات تک پہنچانے میں مدد کی۔ بہرکیف!ٹرمپ کے دورے کے دورہ بھارت کے دوران جہاںکشمیرمیں پکڑ دھکڑ ہورہی ہے وہیں کشمیرکے سکھوں کویہ خوف لاحق ہے کہ کہیں بل کلنٹن کے دورے کی طرح آج بھی کسی سکھ بستی کوبلی نہ چڑھایاجائے ۔