ٹرمپ کی ایران پالیسی سکول کے منہ زور جھگڑالو لڑکوں کے رویہ سے کچھ زیادہ مختلف نہیں مگر اس سے بھی بڑھ کر پریشان کن بات یہ ہے کہ باقی دنیا بھی خطہ کو جنگ کے دہانے پر کھڑا دیکھ کر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ امریکہ پہلے خود ہی ایران کے جوہری معاہدے سے نکلا اور اب ایران کے 300کلو گرام کی یورینیم کی افزودگی کی حد پار کرنے کے معاہدے کی خلاف ورزی کا واویلا کر رہا ہے۔ کیا امریکہ کو یہ توقع تھی کہ اگر امریکہ معاہدہ توڑ دے تب بھی ایران عالمی معاہدے کی پاسداری کرے گا؟ کیا پھر اس عالمی معاہدے میں کوئی چٹ بھی میری پٹ بھی میری ایسی بچگانہ شق بھی موجود تھی؟ ایران نے 2015ء میں عالمی جوہری معاہدہ پر چھ عالمی طاقتوں کے ساتھ دستخط کئے تھے اس معاہدے میں روس ‘برطانیہ ‘چین ‘امریکہ‘ فرانس اور جرمنی شامل تھے۔ معاہدے کے مطابق ایران نے یورنیم کی افزودگی کی حد 10ہزار کلو گرام سے کم کر کے 300کلو یعنی اپنی صلاحیت کے محض 2فیصد تک محدود رہنے کا معاہدہ کیا اور اس پر عملدرآمد بھی کر رہا تھا ۔یہی وہ معاہدہ ہے جس کو ٹرمپ نے تاریخ کا بدترین معاہدہ قرار دیتے ہوئے گزشتہ برس مئی میں اس سے نکلنے کا اعلان کیا ۔ عالمی میڈیا جو ایران کے 300کلو گرام یورینیم کی افزودگی کی حد پار کرنے کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے تشبیہ دے رہا ہے دراصل ایسے میڈیا گروپس ہی ٹرمپ انتظامیہ کے جنگجوانہ عزائم کی آبیاری کر رہے ہیں ۔امریکہ ایران کی یورینیم کی حد پار کرنے کو ایسے جواز بنانے کی کوشش کر رہا ہے جیسے ایران کبھی بھی معاہدے پر عملدرآمد میں سنجیدہ نہیں تھا حالانکہ وائٹ ہائوس کے پریس سیکرٹری اس بات کی تصدیق کر چکے ہیں کہ امریکہ کے معاہدے سے نکل جانے سے پہلے تک امریکہ کے پاس 300کلو کی حد پار کرنے بارے میں کوئی قابل قبول شواہد نہیں ہیں ۔اسی طرح عالمی جوہری ادارے کی گورننگ باڈی نے بھی مارچ 2019ء کے اواخر میں یہ سرٹیفکیٹ جاری کیا تھا کہ ایران عالمی جوہری معاہدے کی مکمل پاسداری کر رہا ہے یہ امریکہ کے معاہدے سے نکل جانے کے بعد اورایران کے صلاحیت بڑھانے کی دھمکی کے بعد کی بات ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کا گیم پلان یہ ہے کہ ایران کی حکومت کو مجبور کیا جائے کہ وہ ناصرف اپنی جوہری صلاحیت اور میزائل ٹیکنالوجی سے مکمل طور پر دستبردار ہو جائے بلکہ ایران ایسے ممالک اور علاقائی گروپوں سے بھی لاتعلقی اختیار کر لے ‘جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو ناپسند ہوں ۔یہ وہ کوشش تھی جو ماضی میں امریکی صدر جارج بش نے کی تھی مگر مکمل طور پر ناکام رہے تھے۔ یہی وہ صورت حال ہے جو ایران کو جوہری صلاحیت کے حصول کے لئے مجبور کر رہی ہے ۔اس کا واضح مطلب ہے کہ ایران کے پاس اور کوئی چارہ ہی نہیں کہ وہ یا تو امریکہ کی غیر مشروط محکومی تسلیم کرے یا پھر جنگ کے لئے تیار رہے۔ ان حالات میں سابق امریکی صدر باراک اوبامہ نے ایران سے مذاکرات کا آغاز کیا اور معاہدہ کرنے میں کامیاب بھی ہوئے۔ جوہری معاہدہ گو چھ عالمی طاقتوں کے درمیان ہوا تھا مگر اس میں قابل قدر کردار ایران اور امریکہ کا ہی تھا ایران اپنا جوہری پروگرام منجمد کرنے پرآمادہ اور جواب میں امریکہ نے ایران پر پابندیوں کے خاتمے اور ایران کے منجمد کئے گئے 100ارب ڈالر جاری کرنے پر راضی ہواتھا۔ امریکہ کے ساتھ فرانس‘ برطانیہ اور جرمنی اس بات پر متفق تھے کہ وہ ایران پر پابندیاں نہیں لگائیں گے اور اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو ایران کو بھی معاہدہ ختم کرنے کا اختیار ہو گا۔ اب ایران کا موقف یہی ہے کہ ایران پر پابندیاں لگا کر عالمی معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایران نے امریکی پابندیوں کے جواب میں 300کلو گرام کی حد پھلانگنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ ایران پر نئی امریکی پابندیوں سے ایران کی تیل برآمدات ہی متاثر نہیں ہوئیں بلکہ دیگر برآمدات پر پابندی لگا کر ایران کی معیشت تباہ کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے۔ امریکی پابندیاں نہ صرف عالمی جوہری معاہدے کی سنگین خلاف ورزی ہے بلکہ ایران کے خلاف ایک طرح کا معاشی اعلان جنگ بھی ہے۔جو عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ عالمی عدالت انصاف نے 27جون 1986ء کو اپنے فیصلے امریکہ کے نکارا گوا کے خلاف امریکی اقدامات کو سازش قرار دیا تھا اور لکھا تھا کہ اقوام متحدہ کے کسی رکن کو بھی دوسرے رکن ممالک کے خلاف جنگی اور معاشی اقدامات کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ایران کے خلاف معاشی پابندیاں معاشی جنگ ہیں بالکل ایسے ہی جیسے امریکہ نے وینزویلا کے خلاف پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ امریکی پابندیاں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار داد کی خلاف ورزی ہیں ۔ایران کا مسئلہ یہ ہے کہ جو ممالک امریکہ کی پابندیوں کے خلاف ہیں انہوں نے بھی امریکہ کو معاہدے کی پاسداری کے لئے مجبور کرنے کے لئے بہت کم اقدامات کئے ہیں اور ان کی کارکردگی لفاظی تک ہی محدود رہی ہے اس طرح وہ بھی امریکہ کی پابندیوں میں اس کے شریک کار بن گئے ہیں۔ امریکہ عالمی فارن ایکسچینج کو کنٹرول کرتا ہے اس لئے وہ عالمی معاشی معاملات کو کنٹرول کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایران کے دوست ممالک اور ان کی کمپنیاں بھی امریکی پابندیوں سے متاثر ہو رہی ہیں۔ عالمی ذرائع ابلاغ اور ٹرانسپورٹ ذرائع سامان کی انشورنس کرنے والی کمپنیاں امریکی اجارہ داری کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ ادائیگی کا جو متبادل نظام یورپی یونین نے متعارف کروایا ہے اس کو فعال ہونے میں بھی ابھی وقت لگے گا۔ تہران نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ اگر معاہدہ پر دستخط کرنے والے ممالک چاہتے ہیں ایران معاہدے کی پاسداری کرے تو ان کو ایران تیل کی خریداری جاری رکھنی ہو گی۔ غیر جانبدار ممالک کے پاس چارہ ہی کیا رہ جاتا ہے ۔آیاایران امریکہ کے سامنے گھٹنے ٹیک دے؟ یا پھر وہ اپنے ملک کو معاشی دیوالیہ ہونے دے۔ ان حالات میں ایران کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ یمن میں حوثیوں کی پشت پناہی کرے اور متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے لئے اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لئے خطرہ بنا رہے اور آبنائے ہرمز کو بند کر کے دنیا کی 20فیصد تیل اور گیس کی ترسیل روک دے۔ ان حالات میں دنیا ایران اور امریکہ کے درمیان پس کر رہ گئی ہے۔ امریکہ مغربی ایشیا کو جنگ کی طرف دھکیلنے پر تلا ہوا ہے۔ اس وقت اصل مسئلہ دنیا کا بے حس و حرکت ہونا ہے۔ (بشکریہ:ٹائمز‘ترجمہ:ذوالفقار چودھری)