قیام سعودی عرب کے دوران مجھے اندازہ ہو ا کہ عربی کے یہ دو لفظ ’’خیرانشاء اللہ‘‘ میجک ورڈز ہیں۔ کوئی بڑی مشکل درپیش ہو یا قومی سطح پر پیچیدہ و سنجیدہ مسئلہ آن پڑے، معاملہ فہم سعودیوں کے منہ سے جو پہلے دو لفظ ادا ہوتے ہیں وہ یہی ہیں کہ اللہ خیر کرے گا۔ امریکہ کی سعودی عرب کو دھمکی کوئی نئی دھمکی نہیں۔ 1973ء میں جب شاہ فیصل بن عبدالعزیز کی قیادت میں عربوں نے امریکہ کی اسرائیل نواز پالیسیوں کے خلاف تیل کا ہتھیار استعمال کرنے کا فیصلہ کیا اس سے امریکہ بہت چیں بہ جبیں ہوا۔ عربوں نے امریکہ سمیت مغربی دنیا کو تیل کی ترسیل بند کردی۔ پرنس ترکی الفیصل شاہ فیصل کے صاحبزادے تب شاہی دیوان میں شاہ فیصل کے مشیر تھے جب اس وقت کا امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر بہت آتش زہرپا ہوا اور اس نے سعودی عرب کو بڑے غضبناک لہجے میں دھمکی دی۔ شاہ فیصل نے امریکہ پر واضح کردیا تھا کہ وہ تمام عالمی قوانین اور انسانی اقدار کو فراموش کرکے اسرائیل کو اسلحہ فراہم کرتا ہے اور اس کی جارحانہ کارروائیوں کی بھرپور حوصلہ افزائی کرتا ہے اور فلسطینیوں کے حقوق کی پامالی میں حصہ دار بنتا ہے تو یہ رویہ عربوں کے لیے ناقابل قبول ہے۔ جب امریکہ میں تیل کی قلت اور قیمتوں کی کثرت صارفین کو بہت محسوس ہونے لگی تو کسنجر نے شاہ فیصل کو ایک برقی پیغام بھیجا کہ تیل کی ترسیل پر پابندی اٹھا لو وگرنہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ہم ہر ضروری قدم اٹھائیں گے۔ اگرچہ اس دھمکی میں ’’ضروری قدم‘‘ کی وضاحت نہ تھی مگر صاف عیاں تھا کہ امریکہ طاقت کا استعمال بھی کرے گا۔ اس کے علاوہ امریکی حکام سعودی عرب میں موجود تیل کے کنوئوں پر حملے کرنے کا پروگرام بھی بنا رہے تھے۔ امریکی اخبارات کو ان صلاح مشوروں کی خبر ہو گئی لہٰذا اس طرح کی خبریں اور تنقیدی مضامین اخبارات میں شائع ہونے لگے۔ انہی ایام میں سی آئی اے کے ایک اعلیٰ افسر نے پرنس ترکی الفیصل کو ہنری کسنجر کی ایک بغیر دستخط کی رپورٹ دکھائی جس میں حملے کے آپشن کا ذکر تھا۔ ترکی الفیصل یہ رپورٹ لے کرشاہ فیصل کے پاس حاضر ہوئے اور انہیں یہ رپورٹ بھی دکھائی اور دیگر تفصیلات سے بھی آگاہ کیا۔ یہ رپورٹ پڑھ کر شاہ فیصل کے چہرے پر کسی اضطراب کی بجائے ہلکی سی مسکراہٹ پھیل گئی اور انہوں نے کمال اطمینان کے ساتھ یہ دو لفظ کہے خیرانشاء اللہ۔ انہی دنوں کا ایک اور واقعہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ جب شاہ فیصل اور دوسری عرب قیادت کا عزم صمیم دیکھ کر اس وقت کے امریکی صدر رچرڈ نکسن دھمکی کے بجائے مذاکرات کی درخواست کرنے لگے تو انہی دنوں امریکی وزیر خارجہ سعودی عرب کے دورے پر آئے۔ دورے کے دوران ایک روز شاہ فیصل نے ہنری کسنجر کی ایک دعوت صحرا میں کی۔ صحرا کی اس دعوت میں کھجوریں، عربی قہو اور اونٹنی کا دودھ وغیرہ شامل تھا اور خیمے کے باہر کچھ بکریاں بندھی ہوئی تھیں۔ اس صحرائی دعوت کے ذریعے شاہ فیصل نے امریکہ کو یہ پیغام دیا کہ صحرا، خیمہ، اونٹ اور بکریوں سے محبت آج بھی سعودی خون میں گردش کرتی ہے۔ اس لیے صحرائی طرز زندگی کی طرف لوٹنا ہمارے لیے دشوار نہ ہوگا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جب سے برسراقتدار آئے ہیں ان کی کیفیت یہ ہے کہ اپنا ہو یا کوئی پرایا وہ جس سے بھی بات کریں گے تو پنجابی محاورے کے مطابق اکھڑی ہوئی کلہاڑی کی طرح وار کریں گے۔ سارے امریکی چینلز امریکی عوام کی اکثریت کی رائے یہ ہے کہ بقول مرزا غالب ع گرمی سہی کلام میں لیکن نہ اس قدر کی جس سے بات اس نے شکایت ضرور کی شاید ہی کوئی دن جاتا ہو کہ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے متنازع احکامات کے خلاف، ان کے لب و لہجے کی تلخی کے خلاف اور ان کی غیر دوستانہ پالیسیوں کے خلاف اور مختلف اقلیتوں کے حقوق کی پامالی کے خلاف احتجاج نہ ہوتا ہو۔ جولائی میں ڈونلڈ ٹرمپ لندن گئے تو ان کے خلاف تین چار روز تک شدید احتجاج ہوا، ایک روز تو سنٹرل لندن اور آس پاس کے شہروں میں اتنی بڑی ریلیاں نکلیں جتنی بڑی اس سے پہلے کسی ناپسندیدہ مہمان کے خلاف نہ نکلی ہوں گی۔ بعض اندازوں کے مطابق اس ریلی میں تقریباً ایک لاکھ برطانوی شہریوں نے بڑی پرجوش شرکت کی۔ لندن کے میئر صادق خان نے ٹرمپ کی انسانیت کش پالیسیوں پر شدید تنقید کی۔ احتجاجی ریلی کی قیادت کرنے والے ایک مسلمان برطانوی نے بتایا تھا کہ اتنا بڑا احتجاج ڈونلڈ ٹرمپ کی نفرت، نسلی تعصب اور کئی بڑے مسلمان ملکوں کے شہریوں پر سفری پابندیاں عائد کرنے کی پالیسیوں کے خلاف ہوا۔ چند روز پہلے مسز پی امریکہ میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم سعودی عرب کی حفاظت کرتے ہیں۔ ہماری مدد کے بغیر سعودی عرب ایک روز بھی نہیں چل سکتا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے حاضرین سے پوچھا کہ ہم سعودی عرب کی حفاظت کرتے ہیں کیا اب بھی آپ کہیں گے کہ وہ امیر ہیں۔ سعودی ولی عہد اور ڈپٹی وزیراعظم محمد بن سلمان نے بڑا اچھا جواب دیا۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ ہمیں مفت اسلحہ نہیں دیتا ہم پیسے دیتے ہیں اور اسلحہ خریدتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب اس وقت سے ماشاء اللہ قائم ہے جب ابھی امریکہ وجود میں بھی نہیں آیا تھا۔ ان کا یہ جواب پڑھ کر وہ ساری تفصیل میرے ذہن میں آئی جس کا اظہار میں کالم کے آغاز میں کر چکا ہوں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو شاید یہ اندازہ نہیں کہ سعودی عرب میں کعبۃ اللہ ہے جس کی حفاظت خود رب کعبہ نے اپنے ذمے لے رکھی ہے۔ تاریخ کے اوراق میں یہ واقعہ جلی حروف میں لکھا ہوا ہے کہ جب ابرہہ اپنی فوج اور ہاتھیوں کے لشکر کے ساتھ مکۃ المکرمہ پر حملہ آور ہوا تو اللہ نے ابابیلوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج کر ابرہہ کے ہاتھیوں اور فوج کو تہس نہس کردیا۔ آج بھی رب العزت مسلمانوں کی تمام تر کمزوریوں کے باوجود حرمین شریفین اور اس کے طفیل سارے سعودی عرب کی حفاظت فرمائے گا۔ البتہ ڈونلڈ ٹرمپ نے جس متکبرانہ انداز میں اپنے اتنے پرانے مخلص دوست سعودی عرب کی اہانت کرنے کی کوشش کی۔ اس میں مسلمانوں کے لیے بالعموم اور سعودی عرب کے لیے بالخصوص سیکھنے اور اپنے طرز عمل پر نظرثانی کرنے کے بہت پہلو ہیں۔ سب سے پہلا سبق تو یہ ہے کہ امریکہ کا وائنڈ سیٹ یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو کسی ملک کا دوست نہیں ان کا آقا سمجھتا ہے۔ جسے انگریزی میں ماسٹر کہتے ہیں۔ دوسرا سبق یہ ہے کہ امریکہ میں ہو یا اسرائیل ہو یا کوئی اور قوت سب مسلمانوں کے باہمی انتشار سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اگر مسلمانوں کے درمیان اتحاد ہو تو انہیں علاقائی اور باہمی خطرات سے نجات مل جائے گی اور پھر جو ان سے بات کرے گا یہ سوچ کر کرے گا کہ وہ دوچار کروڑ کے ملک سے نہیں بلکہ ڈیڑھ ارب مسلمانوں سے بات کر رہا ہے۔ محمد بن سلمان سعودی عرب کو اقتصادی و سماجی ترقی کے نئے راستوں پر گامزن کرنے کے لیے بہت پرعزم ہیں۔ انہوں نے اپنے والد شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے ہمراہ ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ سعودی کے دوران ان کی بہت آئو بھگت کی اور ان کے ساتھ امریکہ سعودی عرب دوستی کو مضبوط تر بنانے کے لیے بڑے فیاضانہ اقدامات کئے مگر اس کا صلہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے مخلص دوست کی اہانت کرکے دیا۔ سعودی عرب کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ وہ پڑوسی مسلمان ملکوں کے ساتھ اپنے اختلافات کو افہام و تفہیم سے حل کرے اور بڑی قوتوں کے ساتھ عزت و وقار اور برابری کی سطح پر تعلقات استوار کرے۔ محمد بن سلمان نے سماجی سطح پر اسلامی و سعودی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے جو محدود آزادی دی ہے اس کو سعودی عرب کی نوجوان نسل یقینا سراہتی ہے۔ البتہ سماجی آزادی کے ساتھ ساتھ کچھ نہ کچھ سیاسی آزادی بھی ہونی چاہیے اور آزادی اظہار پر قدغنیں بھی کم ہونی چاہئیں کیونکہ سماجی و سیاسی آزادیوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ماڈرن ترقی یافتہ ریاستوں کے لیے یہ آزادیاں وہی اہمیت رکھتی ہے جو جسم انسانی کے لیے آکسیجن کی ہے۔ جہاں تک سعودی عرب کو امریکی دھمکی کا تعلق ہے اس کا امت مسلمہ کی طرف سے وہی جواب ہے جو شاہ فیصل بن عبدالعزیز نے ہنری کسنجر کی دھمکی سن کر دیا تھا یعنی خیرانشاء اللہ۔