یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان دورہ امریکہ سے پہلے پارلیمنٹ سے مشورہ کرتے یا کم از کم پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی امور خارجہ کی قائمہ کمیٹیوں سے براہ راست ملاقات کر کے ان سے تجاویز حاصل کرتے۔ امریکی صدر کے ساتھ ملاقات کے حتمی ایجنڈے اور بریف کو ترتیب دینے سے پہلے ان تجاویز کو مدنظر رکھا جاتا تاکہ اندرون ملک اور بیرون ملک یہ میسج جاتا کہ یہ کسی فرد واحد کا نہیں پاکستان کا قومی ایجنڈا ہے۔ چند ماہ قبل صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نہ صرف پاکستان کے ساتھ سرد مہری کا رویہ اختیار کیا بلکہ پاکستان کی ملٹری ٹو ملٹری امداد بھی روک دی اور پاکستانی فوجی افسران کی امریکہ میں تربیت کا سلسلہ بھی منقطع کر دیا۔ اب یہ سرد مہری گرم جوشی میں بدلتی نظر آ رہی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکی صدر کے رویے میں یہ تبدیلی ڈونلڈ ٹرمپ کی متلون مزاجی کی بنا پر نہیں پاکستان کے ساتھ امریکی تعلقات کئی دہائیوں سے نظریہ ضرورت کی بنا پر سردمہری اور گرمجوشی کے نقطہ اتصال پر آگے پیچھے ہوتے رہتے ہیں۔ بقول ڈاکٹر خورشید رضوی: ذرا میں زخم لگائے ذرا میں دے مرہم بڑے عجیب روابط مرے صبا سے ہیں وائٹ ہائوس حاضری سے پہلے پاکستان کی موجودہ حکومت نے امریکی کی خوشنودی کے لئے ایک طرف قطر میں امریکہ اور طالبان کے مابین مذاکرات کی راہ ہموار کی اور طالبان کے مختلف گروپس کو آپس میں افہام و تفہیم کے لئے انہیں ایک میز پر لا بٹھایا۔حافظ سعید کی گرفتاری پر پاکستانی حکومت تو اپنے عوام کو کچھ نہ بتاتی مگر ’’بے خبر‘‘ ڈونلڈ ٹرمپ نے سب کچھ بتا دیا۔ ٹویٹ کے آخری حصے میں انہوں نے وہ راز آشکار کر دیا جسے موجودہ پاکستانی حکومت چھپا رہی تھی۔ ٹرمپ نے لکھا کہ وہ گزشتہ دو برس سے پاکستان پر حافظ سعید کی گرفتاری کے لئے شدید دبائو ڈالا جا رہا تھا‘ امریکہ کی قائم مقام نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز نے پاکستان سے حافظ سعید کے خلاف یقینی عدالتی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ اگرچہ سربراہی سطح کی دو طرفہ ملاقات کا متفقہ ایجنڈا کسی حد تک پہلے سے طے شدہ ہوتا ہے تاہم فریقین کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے اپنے نکات پر زور دیں اور فریق ثانی سے اپنا اپنا نقطہ نظر منوائیں۔ جہاں تک ڈونلڈ ٹرمپ کا تعلق ہے وہ امریکہ اور طالبان کے مذاکرات پر گفتگو کا آغاز پاکستان کے شکریے کے ساتھ کریں گے اور نکتے کا اختتام ’’ڈومور‘‘ پر کریں گے اس موقع پر پاکستان کی سفارتی مہارت کا یہ تقاضا یہ ہو گا کہ وہ افغانستان میں قیام امن کے لئے بھر پور تعاون کی یقین دہانی کے ساتھ ساتھ امریکہ پر زور دے کہ وہ خطے میں امن و سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے ہندوستان کو آمادہ کرے اور اس پر زور دے کہ وہ پاکستان کے ساتھ اپنے جملہ مسائل بالخصوص مسئلہ کشمیر کو مذاکرات کی میز پر طے کرے۔ اس موقع پر معلوم ہو گا کہ جناب عمران خان کس مہارت اور صلاحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ کو قائل کرتے ہیں کہ وہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے بھارتی مظالم اور وہاں انسانی حقوق کی بدترین پامالی کا سلسلہ رکوائیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران کے ساتھ اپنے خود ساختہ تنازعے کے ضمن میں پاکستان سے کس قسم کے تعاون کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ معاملہ بھی نہایت ہی حساس نوعیت کا ہے۔ سی پیک بھی ایجنڈے کا ایک اہم جزو ہو گا۔ بالعموم یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ امریکہ پاکستان اور چین کے اس تجارتی کاریڈار سے ناخوش ہے۔ امریکہ کو یہ باور کرانا ہو گا کہ سی پیک کوئی سیاسی یا جنگی منصوبہ یا معاہدہ نہیں۔ یہ ایک تجارتی پروگرام ہے جس میں پاکستان اور چین کے علاوہ خطے کا کوئی بھی ملک شامل ہو کر معاشی سرگرمیوں کے فروغ میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے اور اپنے ملک کے لئے خوشحالی کو یقینی بنا سکتا ہے۔ امریکی ملٹری کے آئندہ چیف مارک ملی نے یہ بیان دیا ہے کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ دو طرفہ ملٹری ٹو ملٹری روابط قائم رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔ یہ باہمی روابط دونوں ملکوں کے مشترکہ مفادات کو تقویت پہنچانے کا باعث ہوں گے۔ یہ وہ نکتہ ہے جس سے محسوس ہوتا ہے کہ پاک امریکہ تعلقات کا ’’سنہری دور‘‘ شاید ایک بار پھر لوٹ آئے گا۔ مگر سوچنا یہ ہو گا کہ کیا یہ ’’سنہری زمانہ‘‘ پاکستان کے مفاد میں ہے یا نہیں۔ امریکہ پاکستان کی فوجی حکومتوں کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کو ترجیح دیتا ہے چاہے وہ دور ایوب خان کا ہو یا جنرل ضیاء الحق کا ہو یا جنرل پرویز مشرف کا۔ قوی توقع یہ ہے کہ دختر پاکستان ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کو عمران خان کے ملاقاتی ایجنڈے پر نہایت نمایاں حیثیت حاصل ہو گی۔ عمران خان 2003ء میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی ’’پراسرار گمشدگی‘‘ سے لے کر 2018ء تک نہایت پرجوش انداز میں امریکہ کے ہاتھوں عافیہ صدیقی کی گرفتاری اور 86سالہ سزا کو ظالمانہ قرار دیتے رہے ہیں اور اس کی رہائی کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ قدرت نے اب عمران خان کو وزارت عظمیٰ کا منصب سونپا ہے دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس منصب کی ذمہ داری نبھاتے ہوئے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکہ سے پاکستان واپس میں کامیاب ہوتے ہیں یا اس معاملے میں بھی حسب سابق یوٹرن لے لیتے ہیں۔ پاکستانی تو شاید ڈاکٹر عافیہ کو بھول گئے ہوں مگر امریکی مسلمانوں کی تنظیم مسلم لیگل فنڈ آف امریکہ آج تک بڑے جوش جذبے سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لئے قانونی جنگ لڑ رہی ہے۔ ایک ممتاز افریقی امریکی رہنما ماری السلا خان اس سلسلے میں پیش پیش ہیں۔ اس طرح کی خبریں بھی میڈیا میں آئی ہیں کہ عمران خان امریکی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے دعوت دیں گے۔ جناب عمران خان کے علم میں ہو گا کہ پاکستان میں آنے والی بیرونی سرمایہ کاری نصف رہ گئی ہے۔ دو تین روز پہلے امریکی بزنس مینوں کے ایک گروپ نے کہا ہے کہ جب تک پاکستان میںسیاسی استحکام نہیں آتا اس وقت تک یہاں سرمایہ کاری کا ماحول سازگار نہیں ہو گا۔ ٹرمپ کا ایجنڈا تو واضح ہے دیکھیے عمران خان قومی ایجنڈے اور قومی امیدوں پر پورا اترتے ہیں یا نہیں۔