آج 21رمضان المبارک …معتبر تاریخی روایات کے مطابق ،باب مدینۃ العلم حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم فُزتُ برب الکعبہ (رب کعبہ کی قسم، میں کامیاب ہوا) کہتے ہوئے ،کوفہ کی جامع مسجد میں ابن ملجم کی زہر آلود تلوار کے زخموں کے سبب ،مقام شہادت پر فائز ہوئے ۔ آپ کے صاحبزادہ حضرت سیّدناامام حسن المجتبیٰ ؓنے اس موقع پر لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں تم سے ایک ایسا شخص رخصت ہوگیا ،جس سے علم وفضل میں نہ اس سے پہلے کوئی آگے بڑھ سکا ، اورنہ بعد میں آنے والے اس کی برابری کرسکیں گے ،یہ وہ تھے ،جن کو رسول اللہ ﷺ جھنڈا عطا کرکے رخصت کرتے تو وہ فتح مند لوٹتے ،اس نے اپنے ترکے میں سونا ،چاندی وغیرہ کچھ نہیں چھوڑا۔ حضرت اقبال ؒ نے مثنوی ’’ اسرارِ خودی ‘‘میں’’ اسرارِ اسمائے علی المرتضیٰ ‘‘ عنوان کے تحت، آپ ؓ کی بار گاہ میں ہدیۂ محبت ومؤدت پیش کرتے ہوئے کہا تھا : ذاتِ اُو دروازئہ شہرِ علوم زیر فرمانش حجاز و چین و روم یعنی آپ ؓ کی ذات شہر علوم نبوت کا دروازہ ہے اور حجاز، چین اور روم آپ کے زیر نگیں اور زیرفرمان ہیں ۔ حضرت اقبال کا معروف شعر جس کا مصرع ثانی زیر نظر کالم کا سرنامہ ہے ، یوں ہے: خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوئہ دانشِ افرنگ سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف اقبال جب حصول علم کے لیے لندن روانہ ہورہے تھے ،تو اُس وقت بھی نجف الاشرف کی طرف رُخ کرکے یوں ملتجی ہوئے تھے : کرم، کرم کہ غریب الدیار ہے اقبال مریدِ "پیر نجف "ہے ، غلام ہے تیرا شہنشاہ ولائیت ،امام الاولیاء ، حضرت علی المرتضیٰؓکے درِ اقدس نجف الاشرف کی حاضری کی تڑپ لیئے گذشتہ سال انہی ایام میں پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن کی پرواز کے ذریعہ جب عراق کی حدود میں داخل ہوئے ، تو نجف اشرف کی حاضری کے ا حساس نے جہاز کی فضا کو معمور کردیا، تآنکہ جہاز کے پائلٹ نے اعلان کیا ، ہم کچھ ہی دیر میں نجف اشرف ایئر پورٹ پر اترنے والے ہیں ، وہ مسافر، جن کی کھڑکی جہاز کے دائیں جانب کھلتی ہے وہ اس وقت حضرت علی المرتضیٰ ؓ کے روضہ کا سنہری کلس او ر روشن اور تابدارگنبد کودیکھنے کی سعادت حاصل کر سکتے ہیں ،خوش قسمتی سے کالم نگار بھی اس اعزاز سے بہرہ مند ہوا ،اور نظروں ہی نظروں سے آپ کے درِ اقدس کو بوسہ دیا اور ایک مرتبہ پھر حضرت اقبال مدد کو آئے اوران کا یہ شعر زبان زدِ حال ہوا: سُنا ہے صورتِ سینا ، نجف میں بھی اے دل کوئی مقام ہے غش کھا کے گرنے والوں کا نجف اشرف عراق کے صوبہ کربلا کا سرسبز وشاداب اور پُر رونق شہر ہے، جسے انتظامی طور پر ڈویژنل ہیڈ کوارٹر کا درجہ حاصل ہے ۔ نجف اشرف کی قدامت کا اندازہ ا س امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک روایت کے مطابق حضرت علی المرتضیٰ ؓ کے مزارِ اقدس کے ساتھ ، حضرت نوح علیہ السلام دفن ہیں ، جن کو آدمِ ثانی کہا جاتا ہے ۔ ان دو عظیم المرتبت اورجلیل القدر ہستیوں کے مزارات کے سبب ،اس مقام کو نجف شریف کی بجائے ’’نجف الاشرف‘‘ کہا جاتا ہے ۔ نجف اشرف کی’’ وادی السلام‘‘ میں تاریخ انسانیت کا قدیم ترین اور وسیع وعریض قبرستا ن ہے ، جس میں حضرت ہود اور حضرت صالح علیہما السلام کی قبریں ہیں ۔ اس قبرستان میں یقینی طو رپر حضرت ابوموسیٰ اشعری جیسے جلیل القدر صحابہ کے علاوہ، دیگراُولو العزم ہستیاں بھی آسودہ ہیں ۔ حضرت علی المرتضیٰ ؓ ،سیرت نبویہ کے مظہر اَتم ، اخلاق نبوی کے آئینہ دار ، ظاہری وباطنی علوم میں رسول اللہ ﷺ کے امین ،راز دار اور علم وحکمت ،شجاعت وبسالت اور فقر ودرویشی میں اپنی مثال آپ تھے ۔۔۔ خشیتِ الٰہیہ کایہ حال تھا کہ ساری ساری رات مصلیٰ پربیٹھے محو عبادت رہتے ۔۔۔ اپنی داڑھی مبارک کو مٹھی میں لے کر بار گاہ خدا وندی میں آہ وزاری کرتے اور تڑپ تڑپ جاتے۔۔ ۔ سادہ معمولی لباس اور سوکھی اور سخت غذا استعمال کرتے ۔۔۔ آپ کا دارالخلافہ عراق(کوفہ ) میں تھا، مگر وہاں کی غذا سے پرہیز کرتے اور خاص احتیاط سے ستو وغیرہ مدینہ منورہ سے منگواتے اور وہ بھی بہت کم کھاتے ۔۔۔ فقر وفاقہ کا غلبہ تھا ۔ ایک مرتبہ سردی میں ٹھٹھر رہے تھے ، عرض کی گئی ، بیت المال سے کمبل لے لیں ۔۔۔ فرمایا ، مسلمانوں کے مال میں کمی اور نقصان مجھے گوارا نہیں ۔۔۔ آپ مساکین اورصاحبانِ دین وفقر کا بہت زیادہ اعزاز واکرام بجا لاتے ۔۔۔ تواضع اور انکسار سے کام لیتے ۔۔۔ فرمایا کرتے: ’’اے دنیا! تو کسی اور کو دھوکا دے ۔۔۔ میں تجھے تین طلاقیں دے کر جدا کرتاہوں ( جس کے بعد رجوع کی گنجائش نہیںہوا کرتی ) ۔۔۔ تیری زندگی مختصر ہے ۔۔۔ تیری مجلس حقیر اور تو بہت خطرناک ہے ۔۔۔ آہ! زادراہ کی قلت، سفر کی دوری اور راستے کی وحشت وہول ناکی ۔‘‘ فقر ودرویشی کے اس شہنشاہ نے زر وجواہر اورمالِ دنیا سے ہمیشہ پہلو تہی کی ،مگر آج آپ کے روضہ مبارکہ کے درودیوار ،خصوصاً قبہ ومینا ر سونے میں ڈھلے ہوئے ہیں ، سچ ہے دنیا سایہ کی مانند ہے ، اس کے پیچھے جتنا بھاگیں ---دور ہوتی ہے، لیکن اگر اس سے منہ موڑ لیں تو یہ سایہ کی طرح پیچھے پیچھے چلی آتی ہے۔سیّد علی المرتضی رضی اللہ عنہ کے آستانِ فیض ترجمان پر اہل محبت وعقیدت کاہمہ وقت بے پناہ ہجوم ہوتا ہے ،د رگاہ عالیہ کا وسیع وعریض صحن کھچا کھچ بھرا رہتا ہے ،بعض آسیب زدہ مریضوں کو بھی ان کے لواحقین لے آتے ہیں ۔۔۔ یہاں اہل تشیع کے نالہ وشیون اور نوحہ وماتم کابھی ایک قیامت خیز منظر ہوتا ہے ، اس پر مستزاد یہ کہ جنازوں کو دربار مرتضوی کے ہاں طواف کرایا جاتا ہے۔ کثرت سے جنازے آتے رہتے ہیں،جو اہل تشیع کی عقیدت وارادت کا اظہار ہے ۔نجف الاشرف کے وسیع وعریض کمپلیکس کو زائرین کے لیے مزید کُھلا کیا جارہا ہے ،روضہ اقدس کے مہمان خانے اور بالخصوص ڈائننگ ہال کسی بڑے اورمنظم ’’ آرمی میس‘‘ سے کم نہیں۔روضہ اقدس کے اندر موبائل لے جانے کی اجازت نہیں ،اس کے لیے گیٹ پر کائونٹر موجود ہے ،جس میں آپ کے موبائل ،جوتے اور دیگر سامان کی حفاظت کاا نتہائی احسن انتظام موجود ہے ۔روضہ اقدس کی سیکرٹری جنرل سے ملاقات پر مزار شریف کے علمی اور تعمیراتی منصوبوں سے آگاہی میسر آئی ، انہوں نے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی قبر انور کا وہ پتھر جو تقریباً سوا سو سال وہاں مرقد شریف کا حصہ رہا، پر مشتمل خوبصورت اور بیش قیمت تحفہ بھی عطا کیا۔یہ بات بھی میرے قارئین کے لیے شاید حیرت کا باعث ہو کہ اس وقت عراق میں شیعہ کے سب سے معتبر مرجع علامہ حافظ محمد بشیر نجفی ہیں ،جن کا تعلق لاہور سے ہے ۔وہ تقریباً 50سال قبل تحصیل علم کے لیے نجف الاشرف آئے اور پھر یہیں کے ہی ہو کر رہ گئے ،انہوں نے اتحادِ امت کے حوالے سے بڑی دلسوز گفتگو کی ۔اور نجف الاشرف کا خصوصی تحفہ" دُرِّ نجف" بھی عطا کیا۔