رپورٹروں کی بھیڑ اور پرائیوسی میں مداخلت کی وجہ سے وہ کئی بار اپنا آپا کھو دیتے تھے۔ ایک با ر جب وہ ایک فوٹو جرنلسٹ سے ناراض ہوئے، تو ایک استاد کی طرح اس کے کان کھنچ کر اسکو گیٹ کے باہر چھوڑ کر آگئے۔ ایک رات جب ہم چند رپورٹر ان کے گھر پر اسی طرح خبر کی تلاش میں پہرہ دے رہے تھے ،تو خود باہر آکر انہوں نے سبھی کو ڈرائینگ روم میں بلاکر خوب خاطر تواضع کی۔ جس کی وجہ کوئی وجہ نظر نہیں آرہی تھی۔ چند لمحوں کے بعد ان کی بات چیت سے عقدہ کھلا، جب انہوں نے مشرقی ریاست بہار میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کا ذکر چھوڑا اور باری باری کانگریس پارٹی کے چانسز اور لالو پرساد یادو کی راشٹریہ جنتا دل کے ساتھ مفاہمت کے فائدوں کے بارے میں جاننے لگے۔ 2007میں جب بھارت اور پاکستان کے درمیان امن مساعی عروج پر تھی، میں ان دنوں پاکستان کے ایک انگریزی جریدہ کیلئے بھی لکھتا تھا۔ ایک روز مدیر اعجاز حیدر کا فرمان ہوا کہ بھارت۔پاکستان تعلقات کے حوالے سے خصوصی ایڈیشن کیلئے بھارتی وزیر خارجہ پرناب مکرجی کا انٹرویو درکار ہے۔ کئی ہفتوں تک وزارت خارجہ کے ترجمان کے دفتر کے چکر کاٹ کر اور سوالنامہ بھیج کر بھی کوئی جواب نہیں آرہا تھا۔ میں نے ایک دن ان کے پرائیوٹ سیکرٹری جن کا نام بھی مکرجی تھا کو فون کرکے انٹرویو کی درخواست کی۔ انہوں نے بھی ترجمان کے دفتر سے رابط کرنے کا مشورہ دیا اور فون رکھ ہی رہے تھے، کہ میں نے درخواست کی کہ وہ بس پیغام پرناب د ا تک پہنچائیں۔ ان کا پرائیوٹ سیکرٹری سبھی افراد کے فون کالز کا ریکارڈ رکھ کر ان کو ڈنر کے وقت پیش کرتا تھا۔ رات گئے مجھے بتایا گیا کہ اگلے روز ان کے دفتر آکر انٹرویو ریکارڈ کروں۔طے ہوا تھا کہ 20منٹ میں مجھے انٹرویو ختم کرنا ہے۔ اسلئے ان کے سائوتھ بلاک دفتر میں ، میں سوال کرتے ہوئے بار بار گھڑی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ میں کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ سوالات کرنے کے فراق میں تھا۔ میری اس ہڑبڑاہٹ کو محسوس کرتے ہوئے ، پرناب مکرجی گویا ہوئے۔ـ’’نوجوان، گھڑی کی طرف مت دیکھو۔ اپنے سوالات کی طرف توجہ مرکوز رکھو۔‘‘ ایک گھنٹہ سے زائد چلنے والے ا س انٹرویو میں انہوں نے انکشاف کیا کہ جموں و کشمیر سمیت دیگر ایشوز پر بھی بھارت اور پاکستان کے درمیان حالیہ عرصے میں خاصی پیش رفت ہوئی ہے اور کافی عرصے کے بعد فریقین نے کھل کر ایشوز کو حل کرنے کی خاطر کھل کر بات چیت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر مسئلہ کو ر ریفریجیٹرمیں رکھا گیا ہے اور اس کو باہر نکالنے سے کیا نتائج برآمد ہوسکتے ہیں اور کیا ان حالات سے نمٹا جا سکتا ہے یا کہیں اس سے خطے میں مزید عدم استحکام تو پیدا نہیں ہوگا؟ اسطرح کے خدشات ہیں، جن سے نہ صرف بھارت، بلکہ عالمی لیڈرشپ بھی خائف ہے۔مگر ان کا کہنا تھا کہ اگر دونوں ممالک کے درمیان عوامی سطح پر اعتماد کی فضا قائم ہوجاتی ہے، تو اسطرح کے خدشات پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ 26نومبر 2008کو جب ممبئی پر دہشت گردانہ حملے شروع ہوئے ، تو مکرجی، پاکستانی ہم منصب شاہ محمود قریشی کے ہمراہ نئی دہلی کے حیدر آباد ہاوس کے ہا ل میں کئی گھنٹوں تک چلنے والی بات چیت کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ اگلے روز دونوں لیڈران خصوصی طیارہ کے ذریعے چندی گڑھ روانہ ہو رہے تھے۔ قریشی تو کسی کسان کانفرنس کو خطاب کرنے والے تھے، مکرجی چندی گڑھ تک ان کے ہم رقاب تھے، تاکہ جہاز میں غیر رسمی طور پر صدر پرویز مشرف کے اقتدار سے بے دخلی کے بعد امن مساعی کو دوبارہ پٹری پر لانے کیلئے راہ ہموار کرلیں۔اس پریس کانفرنس کی خبر فائل کرنے جب ہم آفس پہنچے تو پورا ماحول تبدیل ہوچکا تھا۔ اس وقت بھارتی سیکرٹری خارجہ اسلام آباد میں تھے۔ انکو حکم ہوا کہ وہ فوراً دہلی واپس آپہنچیں۔ مگر قریشی صاحب کسی بھی طور پر اپنی مصروفیات چھوڑ کر یا کم کرنے پر تیار نہیں تھے۔ بھارتی حکومت کی طرف سے انکو اشارے دئے جا رہے تھے کہ وہ اپنا دورہ ختم کرکے واپس چلے جائیں۔ چندی گڈھ کے بعد ان کو دہلی واپس آکر خواتین پریس کلب میں لیکچر بھی دینا تھا۔ خیر جب و ہ خواتین پریس کلب کے چھوٹے سے ہال میں پہنچے، تو بھیڑ کی وجہ سے سیٹ نہ ملنے پر میں آگے ان کی کرسی کے پاس ز مین پر بیٹھ گیا۔ان کی تقریر شروع ہو ہی رہی تھی، کہ ان کے فون کی گھنٹی بجنے لگی۔ انہوں نے فون ہائی کمشنر کے سپرد کرکے ہدایت دی کہ یہ پرناب مکرجی کا فون آرہا ہے ۔ ان کو بتائیں کہ میں میٹنگ کے بعد کال کرونگا۔ مگر چند لمحے کے بعد ہائی کمشنر نے واپس آکر بتایا کہ وہ فوراً بات کرنا چاہتے ہیں۔ کلب کی منتظم جیوتی ملہوترا نے پاس کا ایک کمرہ خالی کرواکے قریشی کو لے گئیں، جہاں انہوں نے مکرجی سے بات کی۔ واپسی پر ان کی باڈی لنگویج بالکل مختلف تھی۔ مکرجی نے ان کو بتایا کہ وہ فی الفور اپنا دورہ ختم کرنے واپس چلے جائیں اور اسلام آباد جانے کیلئے خصوصی طیارہ کی بھی پیشکش کی۔ بعد میں ایک بار مکرجی نے کہا کہ وہ فون اسلئے جلدی کرنا چاہتے تھے کیونکہ وہ اس وقت جودھ پور کے ہوائی اڈے پر تھے، اور وہ دہلی کیلئے روانہ ہونے والے تھے۔ اگلے دہ گھنٹے تک وہ پھر فون پر رابطہ نہیں کرسکتے تھے۔ وزیر اعظم نے ان کو ہدایت کی تھی کہ سفارتی آداب کا لحاظ کرکے قریشی کو واپس جانے کا مسیج دے دیں۔ اسی رات قریشی پاکستانی فضائیہ کے ایک خصوصی طیارہ کے ذریعے واپس چلے گئے۔ ان کا واپسی کا سفر بھی کچھ کم ڈرامائی نہیں تھا۔ دیر رات ، کسی نے مکرجی کے نام سے پاکستانی صدر آصف علی زردار ی کو فون پر جنگ چھیڑنے کی دھمکی دی۔ جس کے بعد پاکستانی فضائیہ کو فی الفور وزیر خارجہ کو دہلی سے واپس لانے کا حکم دیا گیا۔ مکرجی کا کہنا ہے کہ ان کا اس واقعہ کا علم اس وقت ہوا کہ جب صبح تین بجے ان کا جگا کر بتایا گیا کہ امریکی وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس ان سے فوراً بات کرنا چاہتی ہے۔ عین پریس کانفرنس کے دوران قریشی کو کال کرنا اور بعد میں ان کے نام سے کسی کا زرداری کو فون سے کسی اسٹرائک کا پلاٹ مکمل ہوگیا تھا۔ جس سے پوری دنیا میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی۔بطور وزیر خارجہ علی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے 2007 کے سالانہ کانووکیشن سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ نے بحث ، مباحثہ، منطق اور دلائل سے اسلام کی ترویج کی ۔ اس مذہب کی یہی خوبی ہے کہ یہ جادو ، ٹونا، اساطیری کہانیوں سے نہیں بلکہ دلائل سے پھیلا ہے اور ا پنے ماننے والوں کے دلوں میں جگہ بنایا پایا ہے۔ 2012میں عہدہ صدرات پر فائز ہوگئے۔کے آر نارائینن کے بعد وہ پہلے ایسے صدر تھے، جو حکومتی ربر اسٹیمپ کے بجائے اپنا دماغ بھی استعمال کرتے تھے۔ انھوں نے اس عہدہ کی ذمہ داری باوقار طریقے سے نبھائی۔ ہاں صدرکے عہدہ سے سبکدوش ہونے کے بعد جب انہوں نے ہند و قوم پرستوں کی مربی تنظیم آر ایس ایس کے دفتر جانا منظور کیا تو ان کے کئی دوستوں کو جھٹکا لگا۔ابھی ان کی سوانح حیات کی تیسری جلدکا انتظا ر ہے ۔ انہوں نے وصیت کی تھی کہ اس جلد کو انکی وفات کے بعد ہی شائع کیا جائے۔ الوداع پرناب دا۔۔(ختم شد)