دھمکی تو مریم نواز شریف نے یہ دی تھی کہ اگر حکومت پنجاب اور جیل حکام نے میاں نواز شریف کو گھر کے کھانے سے محروم ‘ جیل کا کھانا کھانے پر مجبور کیا تو وہ کوٹ لکھپت جیل کے باہر بھوک ہڑتال کریں گی مگر تازہ خبر یہ ہے کہ جیل حکام نے گھر کا کھانا بند کر دیا ہے اور میاں نواز شریف کو وہ کھانا دیا جا رہا ہے جو بقول ترجمان حکومت پنجاب شہباز گل حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق ہے جبکہ شریف خاندان اب میاں صاحب کو گھریلو کھانے کی فراہمی کے لئے عدالت عالیہ سے رجوع کرے گا۔ پاکستان مسلم لیگ(ن) کے لیڈروں ‘کارکنوں اور قلمی کارندوں نے میاں صاحب کی دلیری‘ استقامت اور پامردی کا بُت عشروں تک تراشا اور جمہوریت کی بقا و استحکام کے لئے ہر قربانی دینے کے عزم کو دہرایا مگر جب سے میاں صاحب جیل میں ہیں ہر روز ایک نئی کہانی سننے کو ملتی ہے۔ برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں صرف تین سیاسی کردار ایسے ملتے ہیں جو جیل جا کر جرأت اور ثابت قدمی میں اپنے ہم عصروں کا مقابلہ نہ کرسکے۔ ورنہ ہر سیاسی اور مذہبی لیڈر نے ایاّم اسیری یوں کاٹے کہ دیگر زندانی ششدر رہ گئے۔ علامہ حسین میر کاشمیری پاکستانی صحافت کا مزاحیہ کردار تھے۔ اپنے وقت کے بڑے اخبارات میں نیوز ڈیسک پر کام کرنے کے علاوہ اندرون شہر کی ایک بڑی مسجد کے خطیب اور مجلس احرار اسلام سے وابستہ ‘پولیٹیکل ایکٹو یسٹ۔ انگریز حکومت کے خلاف تحریک عدم تعاون شروع ہوئی تو پتہ چلا کہ علامہ حسین میر کاشمیری پشاور میں گرفتار ہو گئے۔ لاہور میں علامہ کی جرات مندانہ گرفتاری کو خراج تحسین پیش کیا جا رہا تھا کہ دوسرے دن شام کو وہ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی مجلس میں موجود پائے گئے شاہ جی نے پوچھا آپ نے تو گرفتاری دی تھی پھر یہاں کیسے؟ فرمایا قبلہ! ہم تحریک عدم تعاون چلا رہے ہیں‘ انگریز جب ہمیں جیل سے باہر رکھنا چاہتا تھا ہم نے عدم تعاون کیا‘ گرفتار ہو گئے جیل یاترا کے بعد انگریز حکومت اور جیل حکام سے عدم تعاون کا تقاضا تھا کہ ہم باہر آ جائیں‘ ہم نے ضمانت کرائی اور رہا ہو گئے‘ وہاں بیٹھے رہنے کا مطلب تو تعاون ہوتا جس پر ہم تیار نہ تھے۔ قہقہہ پڑا اور بات آئی گئی ہو گئی۔ علامہ عنایت اللہ مشرقی نے برصغیر میں خاکسار تحریک کی بنیاد رکھی جس کے کارکنوں نے عزیمت ‘ استقلال اور بے لوثی کی تاریخ رقم کی۔ خاکسار تحریک کی اٹھان ایسی تھی کہ کانگریس ‘مسلم لیگ اور مجلس احرار ایک بار تو ماند پڑنے لگیں مگر انتہائی سادہ‘ ریاضت بھری زندگی بسر کرنے والے علامہ گرفتارہوئے تو انہوں نے جیلر کو ایک فہرست تھما دی جس میں قانون کے مطابق بی کلاس قیدی کو حاصل سہولتوں سے استفادے کی خواہش ظاہر کی گئی تھی اور ناشتے‘ عشائیے ‘ ظہرانے کا مینو درج تھا۔ قانون کے مطابق علامہ مشرقی اس کے حقدار تھے مگر اخبارات و جرائد اور سیاسی حلقوں میں بھداُڑی کہ علامہ جیل جا کر گھبرا گئے اور انہوں نے ایک غاصب حکومت کے سامنے دست سوال دراز کیا ؟اس کے برعکس دیگر مسلم اور غیر مسلم لیڈروں نے جیل جا کر کبھی بی کلاس مانگی ‘ گھر سے کھانا منگوانے کی سہولت طلب کی اور نہ طبی بنیادوں پر رہائی کا مطالبہ کیا۔ قیام پاکستان کے بعد سول اور فوجی ادوار میں جتنے بھی سیاستدان اور صحافی حکومتی جبر و تشدد اور غیر قانونی اقدامات کا نشانہ بنے‘ گرفتار ہوئے جیلوں میں ہر طرح کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے۔ صرف خان عبدالقیوم پر الزام لگا کہ ایوبی آمریت کے خلاف انہوں نے پہلے تو پاکستان کی تاریخ کا سب سے طویل جلوس نکالا اور پھر گرفتار کے بعد اتنا ہی بڑا معافی نامہ دے کر جان چھڑائی۔نواب آف کالا باغ اور ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں سیاستدانوں اور سیاسی کارکنوں کو سب سے زیادہ مشکلات اور سختیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان میں عمر رسیدہ اور بیمار تھے اور سابق وزیر اعظم‘ وفاقی وزیر اور بیورو کریٹس بھی‘ مگر مجال ہے کسی نے اپنے سابقہ منصب کا حوالہ دے کر غیر معمولی مراعات طلب کیں یا طبی بنیادوں پر رہائی کا مطالبہ کیا ہو۔ ایک دوست نے جناب فیض احمد فیض کا حوالے دے کر لکھا ہے کہ بھٹو‘ نواب آف کالا باغ امیر محمد خان کی طرح جبر کی سائنس سے واقف نہیں تھے۔ معلوم نہیں فیض صاحب نے یہ بات کہی یا نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں جبر کی سائنس سے جتنے زیادہ ذوالفقار علی بھٹو واقف تھے امیر محمد خان شاید وباید۔ امیر محمد خان کے دور میں بلا شبہ سیاستدانوں اور سیاسی کارکنوں کو جبر و تشدد اور اذیت کا سامنا کرنا پڑا مگر اس عہد میں کبھی کسی سیاستدان اور صحافی کو یہ اندیشہ لاحق نہ تھا کہ اس کی ماں‘ بہن‘ بیٹی اور بہو کی عزت خطرے میںہے۔ سیاستدانوں اور صحافیوں کو یہ دھمکیاں بھٹو دور میں ملیں یا الطاف حسین کی ایم کیو ایم کی طرف سے کہ وہ مخالفت سے باز آجائیں ورنہ ہمیں پتہ ہے کہ اس کی بیٹی کس وقت‘ کس سکول جاتی ہے اور بیوی یا بہو کہاں ملازمت کرتی ہے۔ مخالف سیاستدانوں اور صحافیوں کی گرفتاریاں‘ اخبارات و جرائد کی بندش اس پر مستزاد۔خیر یہ جملہ معترضہ تھا۔ دونوں اذیت پسند اور جابر حکمرانوں کے دور میں کسی سیاستدان نے ہمت نہیں ہاری اور بحالی جمہوریت کی جنگ جاری رہی مگر اب قوم کو ان مجاہدین جمہوریت سے واسطہ پڑا ہے جو کبھی تو غیر ملکی حکمرانوں سے مدد طلب کرتے ہیں کہ وہ پاکستانی حکمرانوں اور طاقتور شخصیات پر اپنا اثرورسوخ استعمال کر کے انہیں رہائی دلائیں‘کبھی عدالتوں میں علاج کے بہانے بیرون ملک جانے کی درخواستیں دائر کرتے ہیں اور کبھی گھر کے مرغن کھانے کی فرمائش کے ذریعے مخالف حکمرانوں پر اپنی کمزوری کو عیاں فرماتے۔ پاکستان کی جیلوں میں اس وقت لاکھوں قیدی پڑے ہیں‘ جن میں سے بعض اعلیٰ تعلیم یافتہ اور کھاتے پیتے گھرانوں کے چشم و چراغ ہیں۔ زیادہ تر تعداد ان لوگوں کی ہے جو بکری چوری‘ موبائل چوری‘ جیب تراشی اور دوسرے معمولی جرم میں ملوث ہیں۔ قانونی طور پر ان چھوٹے بڑے مجرموں کو یکساں سہولتیں دستیاب ہیں۔ البتہ غیر قانونی طور پر طاقتور‘ بارسوخ اور امیر مجرموں کو جیلوں میں بھی عیش و عشرت کے اسباب میسر ہیں اور وہ خوب لطف اندوز ہوتے ہیں۔ سیاست دان عوام کے آئیڈیل اور رول ماڈل ہیں اور عام آدمی بجا طور پر یہ توقع کرتا ہے کہ وہ اپوزیشن کے زمانے میں ان کے حقوق کے لئے آواز بلند کرے اور برسر اقتدار آ کر ان تمام سہولتوں کی فراہمی کو یقینی بنائے جو ایک مہذب ملک کے عزت دار شہری کا بنیادی حق ہے اگر اسے جیل جانا پڑے تو صرف انہی سہولتوں سے فیضاب ہو جو دیگر قیدیوں کو حاصل ہیں مگر یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ اکبر الہ آبادی یاد آتے ہیں ؎ قوم کے غم میں ڈنر کھاتے ہیں حکام کے ساتھ رنج لیڈر کو بہت ہیں مگر آرام کے ساتھ مسلم لیگ(ن) کے لیڈر بُرا نہ مانیں تو حقیقت یہ ہے کہ میاں صاحب کی طبی بنیادوں پر رہائی کی درخواست ‘گھر سے کھانا لانے کے لئے عدالتوں سے رجوع کا عندیہ اور رعایت نہ ملنے پر مریم نواز کی طرف سے بھوک ہڑتال کی دھمکی نے اصلی اور نسلی سیاسی لیڈروں اور کارکنوں کی ناک کٹوا دی ہے۔2000ء میں انہوں نے شاہ عبداللہ اور رفیق الحریری کی منت سماجت کر کے فوجی حکمران سے رضاکارانہ جلاوطنی کا معاہدہ کر لیا اور اب خوش خوراکی کے ہاتھوں مجبور ہو کر گھر کے کھانے کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ روایتی قصیدہ گو دور کی کوڑی لاتے ہیں کہ یہ میاں صاحب کا قانونی حق ہے۔ لیکن کوئی ان سے پوچھے کہ بھائی اگر لیڈر نے عیش و عشرت کی زندگی بسر کرنی تھی تو سیاست میں مُنہ مارنے اور مزاحمت و تصادم کی راہ پر چلنے کی ضرورت کیا تھی۔ اقتدار کی جنگ میں صرف سرکاری وسائل پر عیش و عشرت ہی نہیں‘ جیلوں اور صعوبتوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ مردوں کی طرح جیل کاٹیں یا معافی مانگ کر سیاست سے الگ ہو جائیں۔ مرد مجاہد اورذوالفقار علی بھٹو بننے کا شوق ہے مگر اس کے انجام سے بھی ڈرتے ہیں یہ دو عملی کب تک چلے گی۔ مریم نواز ریاستی اداروں کو بلیک میل کرنے کے لئے آخری حد تک جانے کی دھمکی دے رہی ہیں لیکن ریاست نے ابھی پہلی حد کراس نہیں کی اور آپ رونے لگ گئے۔ سوچیں جب عام قیدیوں کی طرح سلوک ہوا تو کیا بنے گا؟