معزز قارئین!۔ دو قومی نظریہ کی بنیاد پر 1947ء میں پاکستان قائم ہُوا۔ صوبہ پنجاب ( مشرقی اور مغربی پنجاب ) بھی ’’ پاک پنجاب اور ’’ بھارتی پنجاب‘‘ کہلایا لیکن، بھارت سمیت کئی دوسرے ملکوں میں آباد سِکھ قوم اور پاک پنجاب میں آباد، سِکھوں کے ہمنوا شاعر، ادیب، صحافی اور دانشور ( علاّمہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے نظریۂ پاکستان کے خلاف) ’’ سانجھا پنجاب‘‘ کا راگ الاپنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے؟۔ جون کو پنجاب کے سِکھ حکمران مہاراجا رنجیت سِنگھ کی لاہور میں برسی کی تقریبات میں حِصّہ لینے کے لئے بھارت سمیت کئی ملکوں سے تقریباً سِکھ یاتری پہنچے تو پاک پنجاب کی حکومت اور متروکہ وقف املاک بورڈ کے افسران اور اہلکاروں نے اُن کا خیر مقدم کِیا۔ یہ اُن کا اِنسانی، اخلاقی اور سفارتی فرض تھا اور کافی تھا؟۔ ’’شیر پنجاب رنجیت سنگھ؟‘‘ بھارت کی طرف جھکائو رکھنے والے ایک انگریزی انگریزی اخبار نے جو اپنے 30 جون کے شمارے کے صفحہ 2 پر شاہی قلعہ لاہور کے باہر نصب سِکھ گیلری میں گھوڑے پر سوار مہاراجا رنجیت سنگھ کے کانسی کے مجسمہ کی نقاب کُشائی کے بعد اُس کی "Four Colour" تصویر شائع کی ہے اور "Caption" (تعارفی الفاظ) میں یہ بھی لِکھا کہ ’’ شیر پنجاب‘‘ مہاراجا رنجیت سنگھ نے افغان حملہ آوروں سے لاہور کو بچایا اور مغلیہ دَور کی خستہ عمارتوں کی بحالی میں بھی اہم کردار ادا کِیا‘‘۔ معزز قارئین!۔ ہم مسلمان، سِکھوں کے پہلے گرو ، گرو نانک جی کی بہت عزّت کرتے ہیں۔ ’’ نانک‘‘ کے عنوان سے اپنی ایک نظم میں علاّمہ اقبالؒ نے کہا تھا کہ… پھر اُٹھی ، آخر صدا توحید کی ، پنجاب سے! ہند کو، اِک مردِ کامل نے، جگایا خواب سے! …O… مردِ کامل حق سے مراد، بابا گرو نانک جی تھے / ہیں۔ سِکھوں کے پانچویں گرو، گرو ارجن دیو جی، تک سِکھوں سے مسلمانوں کے تعلقات بہت اچھے رہے۔ گرو ارجن دیو جی ہی کی درخواست پر 588 میں قادریہ سِلسلہ کے ولی حضرت میاں میر صاحب لاہوریؒ نے امرتسر جا کر سِکھوں کے ’’ہرمندر‘‘ (Goledn Temple) کا سنگِ بنیاد رکھا تھا لیکن، جب رنجیت سنگھ کا دَور آیا تو ، اُس کے حکم سے لاہور کی شاہی مسجد میں نصب قیمتی پتھر،اُ کھڑوا کر انہیں ’’گولڈن ٹمپل‘‘ میں جڑوا دِیا گیا تھا؟۔ سِکھوں کی اپنی تاریخ کے مطابق ’’ مہاراجا نے اپنی سگی ماں ، راج ؔکور کو، بدچلنی کی وجہ سے خود قتل کردِیا تھا۔ مہاراجا کے حرم میں 46 عورتیں تھیں۔ جن میں سے 9 عورتوں سے مہاراجا نے سِکھ رسم و رواج کے مطابق شادی کی تھی اور 9 عورتوں کے سروں پر چادریں ڈال کر انہیں اپنی پتنیاں (بیویاں) بنا لِیا تھا۔ 7 مسلمان اور ہندو طوائفوں کے ساتھ شادی کی تھی۔ اُن سب کو مہارانیوں کا درجہ حاصل تھا۔ 20 عورتیں داشتائیں تھیں۔ مہاراجا کے مرنے پر چار مہارانیاں اور سات کنیزیں اُن کے ساتھ چِتا ؔمیں جل کر مر گئی تھیں ۔ اُن کی سمادھِیاں کہاں ہیں؟ ۔ ’’ سانجھا پنجاب‘‘ کے علمبردار ہی جانتے ہوں گے؟۔ معزز قارئین!۔ قیام پاکستان سے قبل قائداعظمؒ نے سِکھ لیڈروں کو پاکستان میں شامل ہونے کی دعوت دِی تھی لیکن ، وہ نہیں مانے۔ 1947ء میں اُنہوں نے مشرقی پنجاب میں دس لاکھ مسلمانوں کو شہید کردِیا اور 55 ہزار مسلمان عورتوں کو اغوا کر کے اُن کی آبرو ریزی کی۔ جون 1984ء میں سِکھوں کو عقل آ گئی جب ، بھارت کی آنجہانی وزیراعظم مسز اندرا گاندھی کے حکم پر ، بھارتی فوج نے "Golden Temple" پر چڑھائی کردِی۔ ہزاروں سِکھوں کو موت کے گھاٹ اُتار دِیا ۔ پھر بے شمار سِکھ بھارت سے فرار ہو کر ، کینیڈا ، امریکہ اور کئی یورپی ملکوں میں سیٹل ہوگئے۔ پھر اُنہوں نے ’’ آزاد خالصتان ‘‘ کی تحریک شروع کردِی اور اُن کی میلی نظریں ’’ پاک پنجاب‘‘ پھر بھی پڑنے لگیں ۔ مَیں پہلی اور آخری بار دسمبر 2004ء میں پٹیالہ گیا تھا ۔ کانفرنس میں سِکھ ، ادیب، شاعر اور صحافی پنجاب کی سرحدی لکیر کو مٹانے کی باتیں کر رہے تھے اور پاک پنجاب کے کُچھ ’’ جھولی چُک‘‘ شاعر ، ادیب اور صحافی بھی لیکن، مَیں نے اپنی تقریر میں اپنے مُنہ پر ہاتھ پھیرتے ہُوئے کہا تھا ’’ پنجاب دِی سرحدی لکِیر وِچّ میرے وَڈکیاں دا لہو شامل اے۔ مَیں ایس لکِیر نُوں کدے وِی نئیں مِٹن دیاں گا‘‘۔ ’’نظریۂ صدیق اُلفاروق‘‘ معزز قارئین!۔ 2 سال پہلے ( مہاراجا رنجیت سنگھ کی برسی کے موقع پر ) اُن دِنوں ، چیئرمین متروکہ وقف املاک بورڈ ، مسٹر صدیق اُلفاروق نے 30 جون کی شب ایک مقامی چینل کو انٹرویو دیتے ہُوئے کہا تھا کہ ’’ قطع نظر سرحدوں کے ’’ ہم اور سِکھ ایک قوم ہیں ‘‘۔ اینکر پرسن نے یہ نہیں پوچھا تھا کہ’’ اِس ہم میں وزیراعظم نواز شریف بھی شامل ہیں یا نہیں؟‘‘۔ 2 جولائی 2017ء کوروزنامہ ’’92 نیوز‘‘ میں ’’ مُسلم ، سِکھّ ۔ ایک قوم ‘‘۔ نظریۂ جہالت!‘‘ کے عنوان سے مَیں نے اپنے کالم میں لکھا کہ ’’ کیا مسلمانوں اور سِکھوں کو ایک قوم‘‘ سمجھنے والا کوئی بھی ’’Siddique -Ul- Farooq School of Thought‘‘ کا حامل سِکھوں کو اپنا ’’ہم قوم‘‘ سمجھنے والا مسلمان کسی بھی سِکھ یاتری کے ساتھ اپنی بہن یا بیٹی کی شادی کرسکتا ہے؟ ‘‘لیکن، مجھے آج تک میرے اِس سوال کا جواب نہیں ملا؟۔ ’’شیر پنجاب ‘‘احمد خان کھرلؒ! معزز قارئین!۔ میرٹھ سے جنگِ آزادی کا آغاز ہُوا توراجپوتوں کی پنوار شاخ(کھرل) کے رائے احمد خان کھرلؒ نے دریائے سْتلج سے دریائے راوی تک راجپوتوں کے بڑے قبائل فتیانہ، کاٹھیا اور وٹو کو ساتھ مِلا کر اور گو گیرہ کو ہیڈ کوارٹر بنا کر انگریز کے خلاف علم ِ بغاوت بلند کر دِیا۔8جولائی 1857ء کو پاک پتن کے ایک گائوں سِکھو کا سے جنگِ آزادی کا آغاز ہُوا جہاں کے جوئیہ (راجپوت)قبائل نے لگان دینے سے انکار کر دیا۔رائے احمد خان کھرل کے مجاہدوں نے پنجاب کے انگریز لیفٹیننٹ گورنر لارڈ برکلے کو لاٹھیاں مار ما ر کر موت کے گھاٹ اُتار دِیا۔26جولائی 1857ء کو رائے احمد خان کھرلؒ نے گوگیرہ جیل میں ہنگامہ کر دِیا۔قیدی پھاٹک توڑ کر جیل سے باہر نکلنے کی کوشش کر رہے تھے کہ انگریزی فوج کی اندھا دھْند فائرنگ سے 40قیدی جاں بحق ہو گئے۔17ستمبر1857ء کو گوگیرہ سے بہت بڑی تحریک کا آغاز ہُوا۔گوگیرہ کے زمیندار رائے ساون خان اوراُن کا بیٹا رائے سادُو خان انگریزی فوج سے لڑتے ہُوئے شہید ہوئے۔ 19ستمبر کو انگریز افسر کی کمان میں سکھ بٹالین گوگیرہ پہنچ گئی۔ اُ س کے بعد مزید فوج آگئی۔انگریزی فوج نے رائے احمد خان کھرل اور اُن کے ساتھیوں کو جنگل میں محصُور کر دیا۔دونوں طرف سے خُون ریز جنگ ہُوئی۔ انگریزی فوج کے بہت سے سپاہی مارے گئے۔کمالیہ کا رائے سرفراز خان کھرل اور سکھ سردار ،دھاڑا سنگھ نہال سنگھ اور سمپورن سنگھ۔بظاہر رائے احمد خان کھرلؒ کے ساتھ تھے لیکن دراصل انگریزوں کے مْخبر۔ عین نماز کے وقت حالتِ سجدہ میں مسلمانوں کے ہیرو رائے احمد خان کھرل ؒکا سر تن سے جْدا کر کے اْنہیں شہید کر دِیا گیا۔شہید رائے احمد خان کھرلؒ اور اْن کی گھوڑی’’ساوی‘‘ کے گِیت بیاہ شادی کے موقع پراب بھی پنجاب کے بہت سے دیہات میں گائے جاتے ہیں۔ نامور شاعر جناب فیض احمد فیض نے کہا تھا کہ۔ ’’جِس دھج سے کوئی مقتل کوگیا وہ شان سلامت رہتی ہے یہ جان تو آنی جانی ہے اِس جاں کی تو کوئی بات نہیں‘‘ …O… ’’مزارِ شیر پنجاب پر حاضری!‘‘ معزز قارئین!۔ 5 فروری 2014ء کو مجھے (اُن دِنوں) پِیر مہر علی شاہ ایرِڈ ایگری کلچر یونیورسٹی راولپنڈی کے وائس چانسلر رائے نیاز احمد خان کھرل ، قومی اسمبلی کے رُکن رائے منصب علی خان کھرل، وزیراعلیٰ پنجاب کے مشیر تعلیم رائے حیدر علی خان کھرل ، ننکانہ صاحب کے رائے رضوان سُلطان کھرل اور کھرل برادری کے کئی دوسرے معتبر اصحاب کے ساتھ جھامرہ میں ’’ شیر پنجاب‘‘ رائے احمد خان کھرل ؒکے مزار پر حاضری کا موقع مِلا تو، مَیں ’’گیان ، دھیان ‘‘ میں چلا گیا اور یہ دو شعر ہوگئے… پُجّیا جدوں بہِشتّاں اندر، دھرتی ماں پنجاب ٗ دا جایا! لَے گئے فرِشتے ، وڈّی حویلی، امام حسین ؑ دے کول ٗ بِٹھایا! …O… فیر ، اُنہاں دے مُبارک ہتھّاں ، اوس دے سِر تے ، تاج سجایا! حُوراں تے غلِماناں، احمد خان کھرلؒ دا ، سہرا گایا ! …O…