کئی ماہ کی جستجو کے بعد بالآخراس اہم ترین شخصیت سے ون آن ون ملاقات کا شرف حاصل ہوہی گیا۔ میں اس راز کا متلاشی تھا کہ وہ صاحب گزشتہ 20 برس میں وزرائے اعظم اور دوسرے اہم ترین عہدوں پر براجمان ہر شخص کی آنکھ کا تارا بن جاتے تھے۔ کسی وزارت کا قلمدان ملا ہویاکوئی بھی ٹاسک‘چند ہی دنوں میں نقاد تک ان کے گرویدہ ہوجاتے۔ کھیل‘ تعلیم‘صحت اور توانائی کے شعبوں میں اہم پوزیشن حاصل کرنے میں ہمیشہ کامیاب جبکہ مطلوبہ اہداف کے حصول میں اکثر ناکام رہے۔ کسی سیاسی جماعت کے قائد سے بھلے پہلی ملاقات ہو‘ دہائیوں پر مبنی رفاقت اور قربانیاں دینے والوں پرفوقیت انکا مقدرٹھہرتی۔اسی سر بستہ راز کی تلاش میںایک سرد شام ان کی مسکراہٹوں اور قہقہوں کی گونج میں بالآخرمیں نے سوال داغ دیا:’’اہم ترین عہدوں اوروزرائے اعظم کے دلوں پر راج کرنے کا ہنر آخر کیا ہے‘‘؟ انہوں نے بلاتوقف کندھے اچکائے اور چمکتی آنکھوں سے جواب دیا’’رنگ بازی‘‘ ۔ اس انکشاف انگیز ملاقات کو تین برس سے زائد کا عرصہ بیت چکا مگر مجال ہے کہ ان کا جواب کسی ایک بھی دن میری یادداشت سے محو ہوا ہو۔تبدیلی کے دعوے ‘ غربت کے خاتمے‘یکساں تعلیم و انصاف‘پروٹوکول کا خاتمہ‘ میرٹ کی پاسداری‘مافیا ز کے خاتمے اورخوشحالی کے متمنی عوام نے عمران خان کی جماعت کو بام اقتدار تک پہنچایا مگر کپتان کی ٹیم میں موجود ’رنگ بازوں‘ کے باعث ہر گزرتے دن کے ساتھ عوام کے خواب چکنا چور ہورہے ہیں۔ میدان میں مضبوط قوت ارادی کے ساتھ ہر چیلنج کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا عمران خان کا خاصا رہا ہے مگر اس مرتبہ قومی محاذپر انہیں بیک وقت کئی چیلنجز درپیش ہیں‘ چیلنجز بھی ایسے جن کا تجربہ عمران خان کو تھا ہی نہیں۔ بلا شبہ وزیراعظم عمران خان خلوص نیت کیساتھ منجدھار میں پھنسی قوم کی کشتی نکالنے کیلئے حتیٰ المقدور کوشش کررہے ہیں مگر انکی ٹیم میں شامل کچھ ’رنگ باز‘ نہیں چاہتے کہ کشتی پارلگے۔ہر چند کابینہ کا کینوس رنگ بازی کے بہت سے رنگوں سے مزین ہے لیکن آجکل مہنگائی کا بے قابو جن اس ذکر پر مجبور کر رہا ہے۔ وفاقی کابینہ کی کچھ خفیہ دستاویزات پڑھنے کا موقع ملا تو حیران رہ گیا کہ مہنگائی پر قابو پانے اورکسانوں کو ریلیف دینے کیلئے وزیراعظم کے احکامات پر عملدرآمد نہیں ہورہا۔بیشتر متعلقہ وزیر ،مشیراور سیکرٹری ڈنگ ٹپاؤ پرپالیسی پر عمل کرنے کی کوشش میں ہیں۔ مشیروں کے روپ میں کچھ ایسے رنگ باز بھی موجود ہیں جو وزیراعظم کے اعتماد کے باعث مسلسل ایسے فیصلے کررہے ہیں جس کے باعث حکومت کو ہزیمت اور عوام کواذیت برداشت کرنا پڑرہی ہے۔ صحت کے شعبہ کا جائزہ لیں تو وفاقی حکومت کے ہسپتال جہاں 2017ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان کی ایک سال کی کوششوں کے نتیجے میں قابل قدر بہتری آئی تھی جس کی سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور وزیراعظم عمران خان تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے۔پھراصلاحات کے نام پر بہتری کے سفر کو بریک لگ گئی۔ وفاقی حکومت کے ہسپتال اورمیڈیکل تعلیم کے ریگولیٹر پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کو تجربہ گاہ بنایا جاچکا ہے۔24گھنٹوں میں سربراہان کی تبدیلی اور پھر احکامات کی واپسی، راتوں رات آرڈیننس کے ذریعے پی ایم ڈی سی تحلیل اور ملازمین برطرف کئے گئے ۔ میڈیکل کالجز میں داخلہ لینے والے طلبا اور ملک بھر میں پریکٹس کرنے والے ڈاکٹرز حضرات خوا ر ہوکررہ گئے ہیں۔ پی ایم ڈی سی اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے باوجود سیل ہے جبکہ 20سالوں سے پریکٹس کرنے والے ڈاکٹر ز کو ڈرگ انسپکٹر کی کاروائیوں کا سامنا ہے کیونکہ سینکڑوں ڈاکٹروں کی پی ایم ڈی سی سرٹیفکیٹ زائدالمیعاد ہوچکیں اور نئی سرٹیفکیٹ جاری کرنے والی اتھارٹی کا دفت سیل ، افسران اور ملازمین عدالتوں کے چکر کاٹنے پر مجبور ہیں۔ وفاقی ٹیکس محتسب مشتاق سکھیرا کو وزیراعظم کی ٹیم کے اہم رکن نے برطرف کروادیا تھا مگر چند ہفتوں بعد اسلام آبادہائیکورٹ نے برطرفی کے احکامات کو غیرقانونی قراردیتے ہوئے مشتاق سکھیرا کو بحال کردیا۔اداروں میں جاری مشیرگردی کا خمیازہ عوام اوروزیراعظم دونوں بھگت رہے ہیں جبکہ مشیران اصلاحات کے نام پر اپنے منظورنظرماہرین کی تعیناتیوں کی راہ ہموار کرنے میں مشغو ل ہیں۔ وزیراعظم مہنگائی کنٹرول کرنے اور حکومتی فیصلوں پر عمل نہ کرنے والی کمپنیوں کیخلاف ڈ ٹ چکے ہیں مگر متعلقہ وزارتوں اور مشیروں کی سپورٹ کے بغیر مطلوبہ اہداف کا حصول کافی مشکل ہوگا۔ منافع خوروں کے خلاف کاروائی اور مہنگائی کا توڑ مسابقی کمیشن بخوبی کرسکتا ہے مگروزیراعظم کو کون بتائے منافع خوروں کے خلاف حتمی کاروائی کیلئے ایپلٹ ٹربیونل کا کورم مکمل نہ ہونے کے باعث مسابقتی کمیشن کے فیصلے غیر مؤثر ثابت ہورہے ہیں ۔ جنوری 2019سے غیر فعال ٹربیونل کا ایک ممبرتعینات کرنے کی راہ میں ناجائز منافع خور رکاوٹ بن چکے ہیں اور’رنگ بازوں‘ نے وزیر اعظم عمران خان تک یہ معاملہ پہنچنے ہی نہیں دیا۔ وزیراعظم عمران خان نے پانچ بڑے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے جنہیں ذمہ داری سونپی وہ محض جمع تفریق اور اعداد و شمارکے ہیرپھیر سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ یہی وجہ ہے کہ گردشی قرضہ1600ارب روپے کو ٹچ کر رہا ہے۔بجلی گیس‘ چوری اور بھاری ٹیکنیکل لاسز سے بڑھتی قیمتوں کے باعث عوام کی دسترس میں نہیں۔ایکسپورٹ میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت کا حامل شعبہ ٹیکسٹائل مہنگی توانائی کے ہاتھوںحالت نزع میںہے۔بجلی کے کارخانوں کو فکس ادائیگیاں960ارب روپے سالانہ سے تجاوز کرچکیں جو دوسال قبل تک 300ارب روپے کے لگ بھگ تھیں۔ نئے پلانٹس آپریشنل مگر ان سے پیداہونیوالی سے بجلی سے ویلیوایڈیشن نہیں ہورہی۔قرضوں کا بوجھ 41ہزار ارب روپے تک پہنچ چکا۔ عالمی مالیاتی اداروں کے کاریگروں نے پالیسی ریٹ 13اعشاریہ 25فیصد پر پہنچا کر ہاٹ منی کے نام پر بیرون ملک سے اضافی قرضے دلواکر 13فیصد منافع حاصل کرنا شروع کردیا ہے ۔ برطانیہ اور چند دیگر ممالک میں پالیسی ریٹ 2سے 4فیصد ہونے کے باعث مفاد پرست مالی ادارے کم شرح سود پر قرض لے کرقرضوں کے چنگل میں پھنسے وطن عزیز سے 13فیصد منافع کما رہے ہیں ۔لیکن عمران خان اب بھی مافیا زسے لڑنے کیلئے پرعزم اور منجدھار میں پھنسی عوام کی کشتی نکالنے کیلئے کوشاں ہیں۔ ہرگذرتے دن کیساتھ چیلنجز میں اضافہ ہورہا ہے تو اب وزیراعظم نے بھی وزرا ء اور مشیروں کے ساتھ ناقص کارگردگی پر سختی سے پیش آنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ نیب کے خوف کے باعث سرکاری امور اور عوامی فلاح کے منصوبوں میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ اورفائل ورک کو طول دینے والوں کو واضح پیغام دیدیا گیا ہے کہ نیب قانون میں ترمیم کے ذریعے کرپشن کی تعریف اور نیب اختیارات کا دائرہ تبدیل ہوچکا ، لہذا اب کارگردگی دکھانے کا وقت آچکا ہے بصورت دیگر وزراء ہوں مشیر یا بیوروکریٹ ۔۔سب کو جوابدہی کیساتھ رخصت ہونا پڑے گا۔اگرچہ پانی سر کو چھونے لگا ہے تاہم میدان میں مضبوط قوت ارادی کے ساتھ ہر چیلنج کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا عمران خان کا خاصا رہا ہے ۔ وقت کی پکار ہے کہ سیاسی ومعاشی مسائل میں الجھا کپتان اپنی ٹیم میں ’رنگ بازوں‘ کو تلاش کرکے مہنگائی کے دیوتاؤںکو بے نقاب کرے۔