پروفیسر آر تھر لیوس کے مطابق سیاست اور معیشت کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے کسی ملک میں معاشی خوشحالی تبھی ممکن ہے اگر اس ملک میں سیاسی استحکام اور تمام اداروں میں مکمل ہم آہنگی ہو چین اور ہندوستان میں اگر چہ الگ الگ قسم کے سیاسی نظام ہیں مگر ان کی مضبوط بنیادوں اور تسلسل کی وجہ سے معاشی طور پر مستحکم ہیں اور اربوں آبادی ہونے کے باوجود اپنے ملکوں میں غربت کم کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں پاکستان آغاز میں بہتر معاشی کارگر دی کا مظاہرہ کر رہا تھا دوسرے پانچ سالہ منصوبے کے دوران ہماری معاشی ترقی کی شرح 5?5 فیصد تھی اور جا پان کے بعد ایشیا میں ہمارے میکرو اکنامکس انڈیکیٹرز بے حد مثبت تھے مگر بدقسمتی سے ہم اس کے بعد 1965 میں ہندوستان کے ساتھ جنگ کرنے پر مجبور ہو گئے حالانکہ اگر ہم آپریشن جبرالٹر نہ کرتے تو اس سے بچ سکتے تھے اور ہم جاپان، چین اور کوریا کی طرح معاشی سیاست کے چال چلن اختیار کر تے تو ہم بھی آج ایشیائی ٹائیگر ہوتے ہمارے حکمرانوں اور فیصلہ سازوں کو آج بھی اس حقیقت کا ادراک کرنے میں تامل کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے کہ یہ دورمعاشی سیاسیات کا ہے اس دور میں حاکمانہ سیاسی رویوں کا چال چلن ناکارہ ہو چکا ہے اسحاق ڈار نے IMF کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کیا حاصل کیا 22 کڑور عوام کو معاشی بحران میں مبتلا کر دیا ع ہوے تم دوست جس کے، دشمن اس کا آسمان کیوں ہو۔ آج غیر ترقی یافتہ اور ترقی یافتہ ممالک میں خط امتیاز یہی ہے اول الذکر حاکمانہ طریقوں سے معیشت کو چلانے کی کوشش کرتے ہیں جب کہ ثانی الذکر نے حکمرانی کے معاشی طریقے دریافت کر لیے ہیں حا کمانہ طریقوں سے معیشت چلا نے کا دور انگریزی سامراج کے زوال کے ساتھ اپنی بساط لپیٹ چکا ہے اب وہی ممالک ترقی اور کامرانی کی منازل طے کر رہے ہیں جو اپنی داخلی اور خارجی قوت حکمرانی کے معاشی طریقوں سے حاصل کرتے ہیں اس دور میں کثیر الپہلو قومی اور بین الاقوامی تعلقات میں پائیداری کا انحصار معاشی ترقی پر ہے اگر کسی ملک میں جمہوریت ہے تو اس کے تمام کل پرزے معاشی اعشاریوں کے تابع ہوتے ہیںاگر مغربی ممالک جمہوریت کے ثمرات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ معاشی طور پر مستحکم اور خوشحال ہیں وہاں انسانوں کی بہبود پر بجٹ کا زیادہ حصہ خرچ ہوتا ہے حکمران سادہ طرزِ زندگی اور کم سے کم دفاعی اور انتظامی اخراجات پر خرچ کرتے ہیں جبکہ پاکستان جیسے ممالک میں کل بجٹ کا 95 فیصد دفاع، ڈیٹ سروسنگ اور غیر ترقیاتی اخراجات پر خرچ کیا جاتا ہے اور باقی 5 فیصد جو ہیومینٹیز کے لئے مختص ہوتا ہے اسکا بیشتر حصہ کرپشن کی نذر ہو جاتا ہے شاہد خاقان کا کہنا کہ 82 ارب کے مفت آٹے کی تقسیم میں 20 ارب روپے خرد برد کر لیے گئے ہیں کس حد تک درست ہے بیوروکریسی اور ہر انتظامی محکمے میں کمیشن اور کک بیکس جاہز سمجھے جاتے ہیں اس لیے بدعنوانی آج کے دور کا سنگین مسئلہ ہے ہمارے وزیراعظم کا کہنا ہے یہ قیامت تک نہیں ختم ہو سکتی ہے کرپشن اور بدعنوانی اپنے معاشی علت کے حکم کی پاپند ہے جتنی زیادہ مہنگائی ہو گی تو کرپشن کا ریٹ سرکاری محکموں میں اتنا ہی زیادہ ہو جاتا ہے اور پھر یہ ناجائز کالا دھن ما رکیٹ میں طلب کو رسد کی نسبت بڑھا کر افراط زر کو مزید بڑھا دیتا ہے لہٰذا ہمارے ملک میں رشوت کو ذرائع آمدنی پر ایسے ٹیکس کی حیثیت حاصل ہے جو رشوت خور سرکاری ملازموں اور ان کے سیاسی آقاؤں کی جیبوں میں چلا جاتا ہے آخراجات زندگی جب جاہز ذرائع آمدنی سے بڑھ جاہیں تو ناجائز آمدنی معیار زندگی برقرار رکھنے کے لیے معاشی ضرورت بن جاتی ہے اور اس طرح کرپشن بے لگام گھوڑے کی طرح بے قابو ہو جاتی ہے لہٰذا اگر ملک کے معاشی منجرز باصلاحیت او ایماندار ہوں اور افراط زر کو قابو میں لانے کی معاش صلاحیتیں پیدا کر لیں تو کرپشن میں گڈ گورنس اور ٹیکنالوجی کے استعمال سے کافی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔ اسی طرح سمگلنگ ایک سماجی برائی ہے اسکو اخلاقی وعظ اور سزاؤں کے ذریعے کنٹرول کرنا مشکل ہے اسکا اقتصادی علاج یہ ہے کہ سمگل کی جانے والی اشیاء کی قیمتیں سرحد پار ممالک سے زیادہ کر دی جاہیں یہ دور ایک کمرشل دور ہے یہ مارکیٹ کلچر کا دور ہے اس میں سودا کاری کے لیے قوموں کے درمیان اخلاقی، سیاسی اور فوجی دباؤ صرف اقتصادی قوت سے پیدا ہوتے ہیں چین نے تمام دنیا میں بیلٹ اور روڈ کے نیٹ ورک سے دنیا کی پچھتر فیصد آبادی پر معاشی اور سیاسی غلبہ حاصل کر لیا ہے اور جس کی امریکہ بے حد تکلیف ہے آج چین نے یہ ثابت کر دیا ہے ک کہ یہ دور غیر ممالک کے معاشی وسائل میں سرمایہ کاری کر کے وہاں کے عوام اور حکومت کو عملاً اپنا خدمت گار بنانے کا دور ہے ہم چین کے بلند شرح سود پ مختصر مدت کے لیے 35 ارب ڈالرز کے مقروض ہیں آپ ہماری معاشی شہ رگ چین کے ہاتھوں میں ہے جسکو 1948 میں آزادی ملی افیون کھانے والی قوم کے پاس 50 ملین ڈالرز تھے اور ہمارے پاس 55 ملین ڈالرز تھے انہیں ماوزے تنگ، ڈینگ زیاؤ پنگ اور موجودہ موجودہ صدر زی شنگ پنگ مل گئے مگر ہماری بدقسمتی کہ ہم ان منصوبوں پر بھی عمل نہ کر سکے جن کو ہو بہو جنوبی کوریا نافذ کر کے معاشی طاقت بن گیا آج کے دور میں دنیا ایک گلوبل مارکیٹ بن گئی ہے بنگلہ دیش اور بھارت کی کرنسی اور معاشی حیثیت ہم سے مضبوط تر ہے ہم لاکھ دل کو تسلی دیں کہ غیرملکی طاقتوں نے ہمیں سازشوں سے اس حال میں پہنچایا ہے مگر میرے خیال میں ہم نے اپنی نااہلیوں اور نا اتفاقیوں اور باہمی چپقلشوں سے اس ملک کو تباہ کیا ہے۔ میں خود تھا اپنی جان کے پیچھے پڑا ہوا میرا شمار بھی تو میرے دشمنوں میں تھا