چند ماہ قبل ممتاز کالم گار جناب عرفان صدیقی کو آدھی رات کے وقت ان کے گھر سے گرفتار کیا گیا اور دوسرے روز انہیں ہتھکڑی لگا کر عدالت میں پیش کیا گیا۔ عرفان صدیقی نے ہتھکڑی والے ہاتھ میں نہ صرف قلم تھام رکھا تھا بلکہ اسے بلند کر رکھا تھا۔ یہ تصویر وائرل ہوئی تو کچھ بے تکلف دوستوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تمہیں بھی کبھی ہتھکڑی لگی ہے۔ ایوب خان کے آخری دور میں 1960ء کی دہائی کے آخری سالوں میں ان کے خلاف دوسرے طلبہ کے ساتھ مجھے بھی گرفتار کیا گیا دو روز حوالات میں بند رکھنے کے بعد سٹی مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا گیا۔…سردار باقر حسین نہایت باذوق اور صاحب علم جج تھے۔ میری کلائی میں گھومتی ہوئی ہتھکڑی دیکھ کر میری طرف متوجہ ہوئے اور انہوں نے یہ مصرع پڑھا کہ ع اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے ہمارے گھر میںہتھکڑی ‘ حوالات اور جیل کوئی نئی بات نہ تھی۔ والد گرامی مولانا گلزار احمد مظاہری کی زندگی ایسی تھی کہ ان کی عمر عزیز کے چار دنوں میں سے دو ریل میں کٹ گئے دو جیل میں۔ والد صاحب 1922ء میں پاکستان کے تاریخی شہر بھیرہ میں پیدا ہوئے اور 10ستمبر 1986ء کو لاہور میں ان کی زندگی کی شمع گل ہو گئی۔ یہ ایک ایسی شمع تھی جس نے اپنی ضیاپاشیوں سے کئی گم کردہ راہ مسافروں کو نہ صرف شعور منزل بخشا تھا بلکہ منزل تک پہنچایا تھا۔ والد صاحب 1950ء ہی کی دہائی میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی معجز بیاں تحریروں کے اسیر ہو چکے تھے اور علی گڑھ یونیورسٹی اور پھر احراری پس منظر کو خیر باد کہہ کر مولانا کی دعوت پر لبیک کہا اور جماعت اسلامی کے رکن بن گئے۔ شاید مولانا مودودی کی مدت اسیری کے بعد جماعت کے قائدین میں والد صاحب کی قید سب سے طویل تھی۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں ان کی دھواں دھار اور باغیانہ تقریروں کی بنا پر آئے روز ان کے وارنٹ جاری ہوتے اور انہیں پس دیوار زنداں پہنچا دیا جاتا۔ البتہ والد صاحب اور ہماری والدہ نے ہم بچوں کو یہ بات سمجھا دی تھی کہ ہمارے والد گرامی کی قید و بند ہمارے لئے باعث ندامت نہیں باعث اعزاز ہے اور یہ قید ہمارے لئے سرجھکا کر نہیں سر اٹھا کر چلنے والی بات ہے۔ خطیب اسلام مولانا گلزار احمد مظاہری تحریک اسلامی کے صف اول کے رہنما و ممتاز عالم دین تھے ۔ جمعیت اتحاد العلماء پاکستان کے بانی صدر اور جماعت اسلامی پاکستان کے برسوں رکن شوریٰ رہے۔1953ء کی تحریک ختم نبوت کے دوران عین عنفوان شباب میں شاہی قلعہ لاہور میں بھی قید رہے۔1964ء میں جب ایوب شاہی نے جماعت اسلامی پاکستان کو خلاف قانون قرار دیا تو انہیں بھی لائل پور جیل میں اپنے تین ساتھیوں سمیت نظر بند کر دیا گیا جبکہ مولانا مودودی سمیت جماعت اسلامی کے تقریباً 60سے اوپر ارکان شوریٰ کو گرفتار کر کے ملک کی مختلف جیلوں میں رکھا گیا۔ یہ جماعت اسلامی کا دور اول تھا جب جماعت کے پاس وسائل کم اور اخلاص بہت زیادہ تھا۔ یہ وہ دور تھا کہ جب 1950ء کی دہائی میں مولانا مودودی نے والد صاحب کو حکم دیا کہ وہ سرگودھا میں اپنا کاروبار چھوڑ کر میانوالی کے بے آب و گیاہ صحرا میں جماعت اسلامی کی دعوت پھیلانے کے لئے چلے جائیں تو والد صاحب کے لئے اپنے مرشد کا یہ فرمان باعث صد افتخار تھا۔ لائل پور (اب فیصل آباد) کی جیل میں والد صاحب ایام اسیری کے دوران تفصیلی ڈائری رقم فرماتے رہے۔ مولانا گلزار احمد مظاہری کی روداد قفس کی چند جھلکیاں نذر قارئین ہیں۔ 6جنوری 1964ء میں ایک تقریر کے مقدمے کی پیشی کے لئے دیپالپور تھا جہاں مجھے ہوم سیکرٹری مغربی پاکستان کے حکم پر گرفتار کر لیا گیا۔ میں نے پوچھا کہ وارنٹ، کوئی احکام نظر بندی؟ اس نے کہا یہاں احکام فون پر ہی چلتے ہیں۔ جیل کے گیٹ پر ہی حکیم عبدالرحمن ہاشمی صاحب اور حکیم مشتاق احمد اصلاحی صاحب مل گئے ہمیں معلوم ہوا کہ سید اسعد گیلانی صاحب بھی یہاں لائے جائیں گے۔ جیل سپرنٹنڈنٹ شیخ محمد شریف صاحب اچھی طرح سے پیش آئے۔ کہنے لگے کہ کوئی تکلیف آئے تو برملا کہیے گا۔ میں نے کہا کہ ہم تو صبر کے خوگر ہیں۔ انشاء اللہ صبرکریں گے۔ ہم نے احاطہ بی کلاس میں رات گزاری۔ میرا بستر نہیں آیا تھا جیل کے کمبل سے ہی گزارا کیا۔ موسم ابر آلود تھا۔ رات بھر بارش ہوتی رہی اور سردی بڑھتی رہی۔ آج 7جنوری 1956ء ہے ۔ آج جیل میں پہلا دن ہے۔ بارش میں ہی سپرنٹنڈنٹ تشریف لائے یہ پریڈ کا دن تھا۔ جیل کے قیدی دم سادھے بے حس و حرکت کھڑے تھے کہ یہ بھی آداب غلامی کا ایک حصہ ہے۔ انگریزوں کے دور سے ہی سپرنٹنڈنٹ کی دہشت اتنی طاری کی گئی ہے کہ اس کے دورے کے دوران پتے بھی نہیں کھڑکتے اور پرندے بھی پر نہیں مارتے۔ 17جنوری 1964ء جیل کی اپنی دنیا ہے۔ آج جس نمبردار سے اس کا دردناک قصہ سنا یہ ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھتا ہے۔ سمجھدار ہے اور مزاج دھیما ہے۔ بہت غریب آدمی ہے۔ اپیل کے لئے فیس وغیرہ کی رقم اس کے پاس نہیں۔ آج چھ ماہ ہو گئے ہیں۔ ابھی اس فیصلے کی نقل بھی نہیں ملی اور نہ اپیل دائرہوئی ہے۔ ہم نے مشورہ کیا ہے کہ اپیل کے سلسلے میں اس سے تعاون کریں گے۔ آج شفیق ڈسپنسر کا ہاتھ دیکھا تو اسے بتایا کہ تیرے خاندان میں کوئی سونا بنانے کے جنون میں مبتلا تھا۔ حیران ہو کر کہنے لگا بالکل درست ۔ میرے دادا کو یہ جنون تھا۔ اس نے اس کام کے لئے اپنی زمین بھی بیچ دی۔ 25فروری 1964ء آج کے دن بھی ڈسٹرکٹ جیل لاہور میں ملک کے مختلف حصوں سے اسیران دعوت وتحریک کے قافلے پہنچ رہے ہیں بتایا گیا کہ کل سے نظرثانی بورڈ کے سامنے پیشی شروع ہو گی۔ آج 28فروری 1964ء ہے آج بورڈکے سامنے مولانا مودودی صاحب پروفیسر غلام اعظم، ملک نصراللہ خان عزیز اور چودھری غلام جیلانی صاحب کے بیانات ہوئے رات کو مولانا مودودی صاحب کے سر میں تیل لگایا اور مالش کی۔ کہنے لگے میں خود سر میں تیل لگانے کا ماہر ہوں اس لئے آپ کی مہارت کا بھی قائل ہو گیاہوں۔ 2مارچ 1964ء آج نظرثانی بورڈ کے سامنے پروفیسر خورشید احمد‘ مولانا وصی پروفیسر غفور صاحب‘ ڈاکٹر نذیر صاحب اور میرے بیانات ہوئے۔ میں نے اپنا بیان ایک گھنٹے میں مکمل کیا اور تمام باتیں کہہ ڈالیں۔ جج نے بیان کی تعریف کی۔ پروفیسر خورشید احمد صاحب نے 3گھنٹے میں نہایت مفصل و مدلل بیان دیا۔ 19مارچ 1964ء آج جیل میں سیر کے دوران میں نے مولانا مودودی صاحب سے عرض کیا کہ بعض اوقات نامساعد حالات یہ سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں کہ ہمیں قیادت کے لئے متبادل رستوں پر بھی غور کرنا چاہیے۔ مولانا نے کہا کہ راستہ تو جمہوری‘ انقلابی اور قانونی ہی درست ہے انشاء اللہ جب بھی تبدیلی آئے گی۔ اسی راستے سے آئے گی۔ والد گرامی مولانا گلزار احمد مظاہری کی ’’روداد قفس‘‘ دلچسپ بھی ہے اور طویل بھی۔ انشاء اللہ جلد ہی قارئین کے سامنے کتابی شکل میں پیش کریں گے۔