موجودہ برق رفتار زندگی میں ڈائری یا روزنامچہ کا رواج تقریباً آخری سانسوں پر ہے ،حالانکہ اُمّت کے اکابرین بالخصوص علمی، دینی، ادبی اور روحانی دنیا کی بعض معروف شخصیات کے ہاں یہ التزام اور اہتمام بھرپور انداز میں موجودرہا، جس سے ،دنیا کو ایک وقیع ذخیرہ علم و حکمت بھی میسر آیا، اسی طرح گذشتہ ادوار میں خانقاہوں کے ساتھ مضبوط علمی روایت بھی وابستہ تھی، جس میں اہم خلفاء اور نمائندہ مریدین بھی،اپنے شیخ طریقت ،جن کا شمار اکابر صوفیاء میں ہوتا ، کے روزمرہ معمولات اوران کی زبان سے نکلنے والے ارشادات قلمبند کرتے ، جس کو’’ملفوظ‘‘کہا جاتا ، خواجہ نظام الدین اولیاء ، جن کے ملفوظات ’’فواد الفوائد‘‘کے نام سے معروف ہوئے ،نے اپنے پیرومرشد بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ کے ملفوظات’’راحت القلوب‘‘کے نام سے محفوظ کیے، حضرت بابا فریدؒ نے اپنے شیخ، حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ کے ملفوظ’’فوائد السالکین‘‘، انہوں نے، اپنے شیخ ،خواجہ معین الدین چشتی کے’’دلیل العارفین‘‘ اور انہوں نے اپنے پیرومرشد خواجہ عثمان ہارونی کے ملفوظ’’انیس الارواح‘‘کے نام سے مدون کیے، جو کہ اردو ترجمے کے ساتھ بھی موجود اور محفوظ ہیں۔ برصغیر میں روحانی لٹریچر اور ملفوظاتی ادب کے حوالے سے ایک اہم نام خواجہ حسن نظامی دہلوی کا ہے ۔ جنہوں نے دکن کے ایک ہندو شہزادے، راج کمار ہردیو کی فارسی کتاب’’چہل روزہ‘‘سے اخذ شدہ مضامین کو، سیر الاولیاء ،تاریخ فرشتہ ، تاریخ فیروز شاہی اور حضرت امیر خسرو کے جمع کر دہ ملفوظات کی روشنی ، اور اپنے حواشی سے آراستہ کر کے’’نظامی بنسری‘‘چشتی اولیاء نامہ کے نام سے شائع کیا ۔ راجکمار ہردیو ، دیو گڑھ (دولت آباد، اورنگ آباد، دکن) کا رہنے والا تھا، 697ھ میں دہلی آیا اور پھر حضرت خواجہ نظام الدین اولیائؒ کا عقیدتمند اورتقریباً اٹھائیس سال، آپ کی خانقاہ سے وابستہ رہا، گذشتہ سلسلہ تحریر ’’ہنوز دِلّی دور است‘‘کے واقعہ کی تفصیل اس کی زبانی یوں ہے : ’’ آج میںسلطان غیاث الدین تغلق کے ولی عہد ملک جونا الغ خاں کے دربار میں حاضر ہوا، تو اس نے حکم دیا کہ تغلق آباد کا جو نیا قلعہ اور شہر بن رہا ہے اس کا کام تمہارے سپر د کیا جاتا ہے اور تم کو شاہی عمارات کا ’’شحنۂ عمارت‘‘ بنایا جاتا ہے ۔ میں نے ولی عہد کے سامنے تعظیم ادا کی ۔ اس نے میرا نام پوچھا ۔ میں نے کہا میرا نام ’’ہر دیو‘‘ تھا مگر حضرتؒ نے مجھے’’احمدایاز‘‘نام عطا فرمایا ہے ۔ ولی عہد نے کہا : تو مسلمان ہو گیا ہے ؟ میں نے جواب دیا ’ خدا کا شکر ہے جس نے مجھے، میرے خواجہ ؒ کی برکت سے اسلام کا شرف عطا فرمایا ہے۔ ولی عہد نے کہا: اس کوسونے کے کنگن پہناؤ اور آئندہ اس کو’’احمد ایاز جہاں‘‘کہا کرو ۔ کچھ دیر کے بعد میں ولی عہد سے رخصت ہو کر باہر آیا اور اس کے آدمیوں نے مجھے قلعے اور شہر کی تعمیرات کا کام سمجھایا جس میں دن بھر مصروف رہتا تھا اور شام کو اپنے باپ کے پاس واپس آجاتا تھا اور کبھی کبھی حضرت ؒکی مجلس میں بھی حاضری دیتا تھا ۔‘‘ ایک روز حضرت ؒ نے قاضی سید محی الدین کاشانی ؒ سے فرمایا، جو حضرت ؒ کے مقبول خلفاء میں تھے اور میں روزانہ ان کو حضرت ؒ کی مجلس میں دیکھا کرتا تھا : ’’تم اور سید حسین کرمانی چبوترا یاراں کے قریب ایک باؤلی (بڑا پکا کنواں )بنانے کا انتظام کرو۔‘‘ قاضی صاحب نے زمین بوسی کے بعد عرض کی کہ احمد ایاز شاہی میرِ عمارت بن گیا ہے اگر اس کو بھی اس کام میں شریک کر دیا جائے تو مناسب ہو گا ۔حضرت ؒ نے فرمایا :احمد ایاز پر شہر اورقلعہ بنوانے کا بہت بڑا بوجھ ہے تم ہر قسم کی عقل رکھتے ہو اس لئے تم دونوں ہی یہ کام کرو ۔یہ جواب سن کر میں کھڑا ہو ا اور ہاتھ جوڑ کر عرض کی کہ اگر اجازت ہو تو میں شام کے وقت جب نوکری سے واپس آؤں تو باؤلی کا کام دیکھ لیا کروں۔ ارشاد ہوا : نہیں ، جوآنکھ اور عقل دنیا نے خرید لی ہے وہ ہم درویشوں کا کام نہیں کر سکتی ۔ یہ سن کر میں نے دوڑ کر حضرتؒ کے قدموں میںسر رکھ دیا اور رو کر عرض کی کہ میں نے مخدوم ؒ کی اجازت سے شاہی نوکری قبول کی ہے ۔ اگر مخدومؒ اس سے خوش نہیں ہیں تو میں آج ہی نوکری چھوڑ دوں گا ۔ فرمایا: نہیں ہم تیری نوکری سے خوش ہیں مگر حکمِ خدا یہی ہے کہ اب تواہلِ دنیا کے کام کرے گا مگر تیرا دل ہم سے جدا نہ ہو گا ۔اس کے بعد حضرت ؒ نے فرمایا : قاضی صاحب تم نصیر الدین محمود کو بھی اپنے ساتھ شریک کر لو ۔ پھر کچھ دیر تأمل کے بعد ارشاد ہوا کہ رفیع الدین ہارون اور سید محمد کو بھی اپنے ساتھ لے لو ۔ یہ پانچ آدمی باؤلی کھدوانے اور بنوانے کا انتظام کریں ۔ میں رات دن تعمیرات کے کام میں مصروف رہتا تھا۔ بادشاہ کے محل میںدیواروں پر سونے کے پترے چڑھائے گئے تھے۔جب سورج نکلتا تھا تو وہ دیوار خوب چمکتی تھی ۔ رات کو جب گھر میں آتا توبہت تھک جاتا تھا پھر بھی اپنے پرانے میزبان خواجہ سید محمد امام سے ضرور مل لیتا اور کبھی کبھی وہ بھی میرے پاس آجاتے تھے ۔ ایک رات انہوں نے مجھ سے کہا کہ آج بنگالے ( مغربی بنگال (بھارت ) اور بنگلہ دیش پر مشتمل سابق برطانوی ہند کا ایک صوبہ) سے سلطان کا خط، حضرتؒ کے نام ایک قاصد لایا ہے جس میں گستاخانہ انداز سے لکھا ہے کہ : ’’حضرت ؒ میری واپسی سے پہلے دہلی چھوڑ کر کہیںاور چلے جائیں ، میں نہیں چاہتا کہ دہلی میں آنے کے بعد ایک ایسے شخص کو وہاں دیکھوں جوانسان ہے اور انسانوں سے اپنے سامنے سجدے کراتا ہے اور جو حنفی ہے اور امام ابوحنیفہ ؒ کی فقہ کے خلاف گانا سنتا ہے اور گانے بجانے کی مجلسیں کھلم کھلا کرتا ہے۔‘‘ جب یہ خط حضرت ؒ کو میں نے سنایا تو حضرت ؒ نے مجھے حکم دیا کہ اس خط کی پیشانی پر لکھ دو :’’ہنوز دلی دور است‘‘(ابھی دہلی دور ہے ) اور خط قاصد کو واپس دے دو کہ وہ بادشاہ کے پاس بنگالے پہنچا دے ۔جب میں نے خواجہ سید محمد سے یہ بات سنی توبڑا خوفزدہ ہوا اور میں دیر تک سوچ میں گم رہا ۔ خواجہ سید محمد نے پوچھا : تم کیا سوچ رہے ہو ؟ یہ تو ایک معمولی بات ہے۔سب جانتے ہیں کہ بادشاہ حضرتؒ کے خلاف ہے اور اس کو سلطان قطب الدین سے سلطنت دہلی ملی ہے اور قطب الدین خلجی حضرت ؒ کے خلاف تھا اس واسطے وہ بھی حضرت ؒ کی مخالفت کو اپنی مضبوطی کے لئے ضروری سمجھتا ہے ۔ میں نے کہا : جی نہیں میں اور بات سوچ رہا ہوں ۔ واقعہ یہ ہے کہ ایک خط ولی عہد کے پاس بھی آیا ہے جس میں لکھا ہے کہ مجھے اطلاع دی گئی ہے کہ’’ تم درویشانہ لباس میں شیخ نظام الدین بدایونی ؒ کی مجلس میںگئے اور شیخ ؒ نے تم کو ہندوستان کا بادشاہ ہونے کی دعا دی ۔ اور تم نے شیخ ؒ کے ایک ہندو مرید کو ’’میرعمارت‘‘ کا عہدہ دیا ہے ، اس سے تمہاری بدخواہی ظاہر ہوتی ہے ۔آئندہ احتیاط سے کام لو ورنہ تم ولی عہدی سے محروم کر دئیے جاؤ گے ۔‘‘ اس خط کی اطلاع مجھے حسن ایرانی نے دی تھی اور وہ کہتا تھاکہ ولی عہد بادشاہ کے اس خط سے ڈر گیا ہے اور عجب نہیں کہ تم اب میر عمارت نہ رہو اور نوکری سے الگ کر دئیے جاؤ۔پس میں یہ سوچ رہا تھا کہ حضرتؒ کے نام جو خط آیا ہے وہ بھی اسی بناء پر ہے کہ ولی عہد حضرت ؒ کے پاس آیا تھا اور حضرت ؒ نے یہ فرمایا تھا کہ ’’ایک بادشاہ آتا ہے اور ایک بادشاہ جاتا ہے‘‘۔ (جاری ہے )