پیپلزپارٹی سندھ کی رہنما نفیسہ شاہ نے اگلے روز یہ بیان دیا کہ پی ٹی وی پر ڈرامہ ارطغرل نشر نہیں ہونا چاہیے تھا۔ انہوں نے فرمایا کہ مقامی ہیروز پر ڈرامے دکھانے چاہئیں۔ ہارون الرشید صاحب نے گزشتہ روز اس پر کالم لکھا ،عمدگی سے انہوں نے بات کی۔مقامی اور غیر مقامی ہیرو کے حوالے سے بات آگے بڑھانا چاہتا ہوں۔ ایک بات سمجھ لیں کہ ہیرو مقامی یا غیر ملکی نہیں ہوتا۔ ہیرو وہ ہے جو دل میں اترجائے۔، کسی رنگ ، قوم، نسل کی عصبیت سے بے نیاز۔ جان بوجھ کر، سوچ سمجھ کر، حساب کتاب سے ہیرو نہیںچُنے جاتے۔یہ ریاضی یا فزکس کی کوئی مساوات نہیں جس میں ایکس، وائی کی قیمت درج کی جائے اورحساب کتاب کے بعد ایک خاص نتیجہ نکل آئے۔نہیں جناب، ہیرو ایسے نہیں بنائے جاتے۔ یہ تو اچانک سے کوئی کردار، کوئی شخصیت دل میں اتر جاتی ہے۔اس کے بعض پہلو اپنے آپ سے ہم آہنگ لگتے ہیں، دل کو چھوتے ہیں۔ شعوری ، لاشعوری طور پر آپ اسے پسند کرنے لگتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ آپ کسی مشہور مقامی شخصیت کو ، کسی مقامی ہیرو کو نہ پسند کریں اور دورپرے کے کسی ان دیکھے ہیرو سے متاثر ہوجائیں۔ کسی خاص فریکوئنسی پر ایک ساتھ ہونے کا معاملہ ۔ ہر شخصیت کی اپنی کیمسٹری ہے، اسی کے مطابق وہ اپنا ہیرو منتخب کرتا ہے۔ اس کا ایک پہلو البتہ اور ہے۔ ہم اپنے بچوں میں بسا اوقات مخصوص اوصاف پیدا کرنا چاہتے ہیں ، ان کی تربیت کرتے ہیں۔ اسی مناسبت سے بعض مخصوص شخصیات اور تاریخی کرداروں کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ مقصد یہی ہوتا ہے کہ ہمارے بچے ان کرداروں سے محبت کریں، انہیں اپنا ہیرو سمجھیں۔ جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ ارطغرل کے بجائے مقامی ہیروز پر فلمیں، ڈرامے بننے چاہئیں، وہ بھی دراصل نئی نسل کو چند مخصوص کرداروں کی طرف متوجہ کرنا چاہ رہے ہیں، اپنی سوچ اور فکر سے ہم آہنگ کرداروںکی جانب۔آگے بڑھنے سے پہلے ایک اور اہم نکتہ سمجھ لینا چاہیے کہ اس کے بعد ابہام نہیں رہے گا۔ دنیا میں بنیادی طور پر دو طرح کے لوگ ہیں ۔ ایک وہ جو اللہ پر یقین رکھتے ہیں، آسمانی مذہب کے پیروکار ہیں اور روزآخرت کو تسلیم کرتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ روز آخرت ہر ایک کا حساب کتاب ہوگا، نیک لوگوں کو بہت اچھی ، مثالی جگہ (جنت، ہیون وغیرہ)بھیجا جائے گاجبکہ برے لوگوں کا ، حساب کتاب میں ناکام ہونے والوں کا ٹھکانہ بہت برا، بدترین ہوگا۔ دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو خدا کو نہیں مانتے، کسی آسمانی مذہب یا روزِ آخرت کوتسلیم نہیں کرتے۔ ان کے خیال میں جو مر گیا وہ مرگیا، مٹی ہوگیا، کسی نے دوبارہ نہیں اٹھنا، مذہبی اخلاقیات کی کوئی اہمیت نہیں، مذہب انسانوں نے وضع کیا وغیرہ وغیرہ۔ میں نے سادہ الفاظ میں کچی پکی، موٹی سی تقسیم کی ہے۔ مابعدالطبعیات کو ماننے والے اور نہ ماننے والے۔ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ دنیا ہے ہی مادہ۔ روح یا روحانیت نام کی کوئی چیز نہیں، یہ کائنات ازخود تخلیق ہوگئی اور ارتقا کے ذریعے آگے بڑھی ہے وغیرہ وغیرہ، ان سب کا دنیا کے حوالے سے بھی بہت مختلف نقطہ نظر ہے۔ظاہر ہے سزا اورجزا کے نظام کو وہ نہیں مانتے۔ آخرت ہی نہیں تو پھر اس کے لئے محنت کیا کرنی ،ان کے نزدیک دنیا وی زندگی ہی سب کچھ ہے، اسے بہتر طریقے سے گزارنا چاہیے۔ اب اس سوچ رکھنے والوں میں بھی کئی کیٹیگریز ہیں، ایسے بھی جو کسی اخلاقی ضابطوں کے بغیر زندگی گزارتے ہیں، شراب، عورت، دولت ،طاقت ،نشہ اور نجانے کیا کیا کچھ۔ ان میںایک خاص انداز میں بہتر لوگ بھی مل جائیں گے، جو اپنے معاملات میں دیانت دار ہیں، خوش اخلاق، خواتین، بچوں ، بوڑھوں پر مہربان، چیریٹی کرنے والے ۔ انہوں نے البتہ اپنی اخلاقیات خود وضع کی ہوتی ہے، اس میں الہامی قوانین یا ہدایات کا کوئی عمل دخل نہیں،اسی لئے ہمیں زندگی میں ایسے کئی کردار نظر آتے ہیں جو ویسے اچھے نظر آتے ہیں، جینٹل مین ،مگر ان کی شخصیت میں کہیں خلا، کجی یا ٹیڑھ پن رہ جاتا ہے۔ وجہ یہ کہ اپنا اخلاقی ضابطہ خود بنایا، اس لئے جو چیزیں سوٹ کرتی ہیں وہ ڈال لیں، کچھ نکال دیں۔ ایک تیسری قسم اس حلقے کی بھی ہے جو مابعدالطبعیات کو مانتے ہیں، وہ ملحد نہیں، اللہ اور رسول ﷺ کو مانتے ہیں۔ روز آخرت کے بھی قائل ہیں، مگر مذہب ان کے نزدیک ذاتی معاملہ ہے۔ انہیں مذہبی اخلاقیات سے کوئی دلچسپی نہیں۔ سماج مذہبی ہو یا نہ ہو، وہ اس سے بھی بے نیاز ہیںبلکہ ان کے نزدیک ریاستی نظام غیر مذہبی ہو، قوانین میں مذہبی احکامات کا کوئی عمل دخل نہ ہو، انفرادی طور پر لوگ بے شک عبادت کرتے رہیں ۔ یہ سیکولرحلقہ ہے۔میں انہیں لادین نہیں کہتا، البتہ یہ ضرور ہے کہ آخری تجزیے میں یہ لادین کیمپ کے ہی فطری اتحادی بنتے ہیں۔ اہل مذہب کا رویہ مختلف ہوتا ہے۔ وہ اپنے اخلاقی ضابطے میں الہامی قوانین کے پابند ہیں، اچھا لگے یا برا، پابندی لازمی ہے۔اس کے ڈوز اور ڈونٹس (do's and don't's)اللہ کی طرف سے طے شدہ ہیں۔جن کاموں سے اللہ نے روک دیا، ان میں کوئی انسان تبدیلی نہیں کر سکتا۔اہل مذہب سب نیک نہیں ، خیر وشر ہر جگہ ہے، شیطان کے بہکاوے اور وار بھی چلتے ہیں۔ کسی کو شراب میں لذت محسوس ہوتی ہے،جنسی ترغیبات ہوں، حرام مال کمانا ، کسی کا حق مارنا یا کسی اور حوالے سے وہ اپنے کمزور لمحوں میں بہک جائے، غلطی کر بیٹھے ۔اس کے لئے واپسی کا راستہ مگر انہی ڈوز اینڈ ڈونٹس والا ہی ہے۔ اپنی غلطی کو درست کر کے، توبہ کر کے ہی وہ واپس آسکتا ہے۔گناہ کی معافی ہے، عذر گناہ البتہ سرکشی میں شمار ہوتا ہے۔ یہ بحث بعض قارئین کو غیرمتعلق لگی ہو، مگر یہ نہایت متعلق (Relevent)ہے۔ اہل مذہب کے نزدیک اخلاقی زندگی بہت اہم ہے۔ وہ ایمان اور مذہبی اخلاقیات کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔یہ بہت اہم ہے کہ اپنے رب سے کون کس قدر جڑا ہوا ہے؟بہادری، جرات، عزیمت اور مزاحمت اہم اخلاقی قدریں ہیں، ان کو ہر سماج میں سراہا جاتا ہے۔فاتح ہونا بھی اہم بات ہے۔ تاریخ میں ہمیشہ فاتحین کو ہیرو بنایا جاتا ہے، ہارنے والے کم ہی ممتاز ہوپاتے ہیں۔ٹیپو سلطان ہماری پچھلی دو تین سو سالہ تاریخ میں ایک استثنا ہے۔اس دلیری ،بہادری اور مزاحمت کے باوجود اگر کوئی کردار ایمان کی دولت سے مالا مال نہیں تو وہ ایک مذہبی ، نظریاتی معاشرے میں غیر متنازع ہیرو نہیں بن سکتا۔اپنی تمام تر عقل ودانش اور فوک وزڈم کے باوجود اس نے رب کو نہیں پہچانا، اللہ کے آخری رسول ﷺ کی منور بابرکت شخصیت کو وہ رول ماڈل نہیں سمجھتا تو پھر وہ اپنی کشش کھو بیٹھتا ہے۔ اس کی بہادری، شجاعت ، شاعری اور انسان دوستی کو سراہا جائے گا، مگر اس کے مقابلے میں اس کردار کو ترجیح دی جائے گی جس میں ان اوصاف کے ساتھ ایمان کی قوت بھی شامل ہو۔ جو اللہ اور اس کے پیغمبر کا غلام ہو،اسے پاکستان جیسے مذہبی معاشرے میں ایکسٹر ا ایڈوانٹیج حاصل ہوجاتا ہے۔ وہ اناطولیہ کا ارطغرل ہو ، کرد صلاح الدین ایوبی ہو، مملوک رکن الدین بیبرس ہو ، عرب محمد بن قاسم ہو، افریقہ کا یوسف بن تاشفین ہو یا کوئی بھی۔ جس کا رب سے تعلق جڑا ہے، جو اس کے آخری رسول کو اپنا رول ماڈل سمجھتا ہے، وہ مقامی لادین یا سیکولرٹائپ ہیروز سے افضل ہے۔ اورنگ زیب عالمگیر میں کئی خامیاں ہوں گی، اپنے بھائیوںکو اس نے جنگ میں قتل کردیا، اس کے باوجود اس کا مذہبی ہونا ، مذہبی اخلاقیات کو ماننا، اسے رائج کرنے کے لئے خواہاں ہونا ہی اسے دیگر مغل حکمرانوں پر فوقیت بخشتا ہے۔ شراب کے نشے میں دھت جہانگیر یا دین الٰہی ایجاد کرنے والے اکبر یا افیون کی چسکی میں سیڑھیوں سے نیچے گر کر مر جانے والے ہمایوں کی نسبت اورنگ زیب کو اہل مذہب اسی لئے پسند کرتے ہیں۔ ویدوں پر ایمان رکھنے والے، ہندو جوگیوں کے فلسفے سے متاثر، کمر میں مورتی باندھ کر نماز جمعہ پڑھنے جانے والے داراشکوہ سے ہمدردی صرف سیکولرز ہی کو ہوسکتی ہے۔ ہندو راجوں کو ہرانے والے غوری اور غزنوی اسی لئے پاک وہند کے مسلمانوں کو اچھے لگتے ہیں۔ ارطغرل میں کشش ہمیں اس کے اخلاقی ضابطوں کی وجہ سے محسوس ہوئی۔ جب ترک کمانڈر اللہ کے خوف سے زیادتی کرنے سے رک جاتے ہیں، غصے کی حالت میں بھی زیادتی نہیں کرتے کہ اس کا حساب دینا پڑے گا، تب یہ ادا دل کو چھو لیتی ہے۔ ان کرداروں کی شجاعت، مزاحمت، مہمان نوازی اور جنگجویانہ صلاحیتیں انہیںمزید پرکشش بنا دیتی ہیں۔مقامی ہیروز پر فلمیں ، ڈرامے ضرور بننے چاہئیں۔ یہ مگر یاد رکھیں کہ بھگت سنگھ جیسے کردار مسلم پاکستانی سماج کے ہیرو نہیں بن سکتے۔بے دین شاعروں کا کلام گایا تو جا سکتا ہے، مگر کوئی باپ یہ آرزو نہیں کرے گا کہ میرا بیٹا ایسا ہی بنے۔ہم جیسے لوگ البتہ یہ ضرور چاہتے ہیں کہ ہمارا بیٹا محمد بن قاسم جیسا بہادر ، ٹیپو سلطان جیسا بے جگراور ارطغرل جیسا جانباز بنے ۔مقامی ہیروز بھی اہم ہیں، مگر وہ جو دینی اخلاقیات، دینی جذبے سے جڑے ہیں۔میرے سات سالہ بیٹے عبداللہ کا ہیرو حسن صدیقی ہے، وہ جانباز پائلٹ جس نے بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو شکست دی۔وہ قائداعظم جیسا سیاستدان، اقبال جیسا دانشور ، عزیز بھٹی شہید کی طرح اپنے وطن کی حفاظت کرنے والا، ایدھی اور ڈاکٹر امجد ثاقب جیسا سوشل ورکر بننا چاہتا ہے۔ یہ ایک مسلم نظریاتی سماج کے بچے کی سوچ ہے۔سیکولر سیاستدانوں کو یہ زمینی حقیقت سمجھنی چاہیے۔