شریعت اسلامی میں ، ہماری اکثر عبادات اور اسلامی تہوار ۔قمری تقویم یعنی چاند کی تاریخ سے متعلق ہیں ۔جیسے عید الفطر ،عید الضحیٰ،روزے ،حج وغیرہ اسی وجہ سے اسلامی ملکوں میں رویت ہلال کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔جس کے لیے باقاعدہ کمیٹیاں تشکیل شدہ ہیں،جو تمام ذرائع بروئے کار لا کر چاند کے ہونے یا نہ ہونے کا اعلان کرتی ہیں ۔اختلاف مطا لع کی بنا پر مختلف ممالک میں ،چاند مختلف دنوں میں مختلف نظر آتا ہے ،جسکی وجہ سے ،با لخصوص رمضان اور عیدین کے موقع پر ، بعض اختلافات بھی سامنے آ جاتے ہیں ،اگر چہ یہ اختلاف قرون اولیٰ سے ہی چلا آرہا ہے لیکن دور حاضر میں ذرائع و ابلاغ کی ترقی کے سبب یہ سلسلہ زیادہ ہی حساسیت کا حامل ہو گیا ہے ، ہمارے ملک میں ایوب خان کے عہد حکومت میں اس پر بعض تنازعات شدت کے ساتھ بھی آئے ،تاہم رویت ہلال پرباقاعدہ سرکاری عملداری کا آغاز اس وقت ہوا‘ جب ملک میں چاند کی رویت کے نزاع نے بہت بے چینی پیدا کر دی‘ چنانچہ 23جنوری 1974ء کو قومی اسمبلی نے ایک قرار داد کے ذریعے ’’مرکزی رویت ہلال کمیٹی‘‘ کے قیام کی تجویز کی منظوری دی۔ جس میں اس امر کی بھی صراحت کی گئی کہ کمیٹی مسلمہ مکاتب فکر کے معتبر علماء پر مشتمل ہو گی۔ وفاقی وزیر حج و اوقاف کمیٹی کے کنونیئر اور ممبران کی نامزدگی‘ اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے کریںگے جن کی تعداد 9سے زیادہ نہیں ہو گی۔ گزشتہ پینتالیس سال سے یہ عبوری انتظام‘ کسی "Legal Mechanism"کے بغیر روبہ عمل ہے ۔ وفاقی سطح پر مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے ساتھ صوبائی سطح پر زونل/صوبائی رویت ہلال کمیٹیاں اور ضلعی سطح پر ڈسٹرکٹ رویت ہلال کمیٹی بھی اس نظام کا حصہ ہیں۔ جبکہ محکمہ موسمیات سمیت دیگر متعلقہ محکمہ جات کی معاونت و مشاورت بھی کمیٹی کو دستیاب ہوتی ہے۔ یکم اپریل 2016ء کو سینٹ آف پاکستان کی قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امور نے وفاقی وزارت مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی کو مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے امور کی ضابطہ بندی کے لئے قانون سازی کی ہدایت کی، جس کی تعمیل میں ’’پاکستان رویت ہلال کمیٹی ایکٹ2017ئ‘‘ کا مسودہ تیار کیا گیا۔ جس کے مطابق وفاقی سطح پر 15رکنی’’ مرکزی رویت ہلال کمیٹی ‘‘کی تشکیل عمل میں لائی جانا قرار پائی‘ جس میں تمام مکاتب فکر کے علماء کے ساتھ، میٹریالوجیکل ڈیپارٹمنٹ‘ سپارکو اور وزارت مذہبی امور اور بین المذاہب ہم آہنگی کے نمائندگان بھی شامل ہوں گے جس کے مطابق ہر صوبہ سے دو، دو ممبران /نمائندگان جبکہ آزاد کشمیر‘ گلگت بلتستان ‘ فاٹا اور وفاقی دارالحکومت سے ایک، ایک ممبر کمیٹی میں شامل ہو گا۔ مذکورہ کمیٹی تین سال کے لئے تشکیل دی جائے گی۔ اسی طرح کمیٹی کے چیئرمین بھی تین سال کے لئے مقرر ہوں گے۔ کمیٹی کا اجلاس ہر قمری مہینے کی 29تاریخ کو منعقد ہو گا۔ ناگزیر حالات میں یہ اجلاس چاند کی اٹھائیس تاریخ کو بھی منعقد کیا جا سکے گا۔ جبکہ پرائیویٹ چینل۔ رویت ہلال کی سرکاری سطح پر رسمی انائونسمنٹ سے قبل‘ کسی نوعیت کا اعلان نہ کر سکیں گے۔ بصورت دیگر ایک ملین تک جرمانے کے ساتھ لائسنس کی تنسیخ بھی بطور سزا ہو گی۔ اسی طرح کوئی پرائیویٹ کمیٹی بھی رؤیت ہلال کے اعلان کی مجاز نہ ہو گی۔ چاند کی رؤیت اور عدم رویت کا فیصلہ کرنے کا اختیار صرف وفاقی/مرکزی رویت ہلال کمیٹی ہی کو ہو گا‘ مزید یہ کہ پاکستان بھر میں کسی نجی کمیٹی کو کام کرنے کی اجازت بھی نہ ہو گی۔ وغیرہ وغیرہ۔ گزشتہ دور حکومت میں اس وقت کے وفاقی وزیر مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی نے، وزیر اعلیٰ پنجاب کو بذریعہ مراسلہ تحریر کیا تھا کہ ’’عیدین اوررمضان المبارک کے مواقع پر’’رویت ہلال‘‘ ایک تنازع کی صورت اختیارکر لیتا ہے، مگر اس تنازع پر قابو پانے کے لئے ابھی تک قانون سازی نہ ہو سکی۔ جس کی بڑی وجہ ’’رویت ہلال ‘‘کی ’’فیڈرل لیجسلیٹولسٹ‘‘ میں غیر موجودگی ہے۔ جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ قومی سطح پر اس مقصد کے لئے باقاعدہ قانون سازی ہو۔ اور یہ مقصد تب حاصل ہو سکتا ہے جب آئین کے آرٹیکل 144کے تحت صوبائی اسمبلیاں ’’رویت ہلال‘‘ پر پارلیمنٹ سے قانون سازی کے لئے قرار دادیں منظور کریں۔ ‘‘ مذکورہ صورت حال پر پنجاب کے ارباب بست و کشاد و احباب حل و عقد کا خیال تھا کہ ایسی قانون سازی پر مختلف نوعیت کی سماجی و مذہبی پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں اور یہ کہ… اس قانون کی خلاف ورزی کو عملی سطح پر روکنا بھی قدرے مشکل اور ایسے خوشگوار اور مبارک موقعوں پر سزائوں کا عمل اچھا تاثر پیدا نہیں کرے گا۔ ان کا خیال تھا کہ انتظامی حکم "Executive order"کے تحت عرصہ دراز سے ’’رویت ہلال کمیٹیاں‘‘ کام کر رہی ہیں، ماسوائے چند ایک چھوٹے علاقائی گروہوں کے، ملک کی بڑی اکثریت سے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے فیصلے کو تسلیم کرتی ہے۔ جو کہ ایک صائب امر ہے۔ چنانچہ اس معاملہ پر پنجاب کے اکابر علماء جن میں مولانا فضل الرحیم مہتمم جامعہ اشرفیہ‘ جو کہ اس وقت متحدہ علماء بورڈکے چیئرمین بھی تھے‘ مولانا غلام محمد سیالوی چیئرمین پنجاب قرآن بورڈ‘ ڈاکٹر محمد حسین اکبر پرنسپل ادارہ منہاج الحسین‘ مولانا زبیر احمد ظہیر مرکزی راہنما جمعیت اہلحدیث ‘ ڈاکٹر راغب حسین نعیمی پرنسپل جامعہ نعیمیہ سمیت معتبر علمی اور دینی شخصیات نے اپنی متفقہ رائے میں اس امر پر زور دیا کہ محض قانون سازی کی بجائے رویت ہلال کے مجموعی نظم کو بہتر بنایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ قانون سازی میں کوئی امر مانع نہ ہے… تاہم عیدین جیسے خوشگوار موقع پر، ایسے قوانین جس میں قید اور جرمانہ کی سزا ہو، سے احتراز کیا جائے۔ مزید یہ کہ’’ قانون شمارت‘ ‘کو موثر بنایا جائے تاکہ اس کی روشنی میں عیدین اور رمضان کے حوالے سے اجتماعی اور متفقہ فیصلہ ہو سکے جبکہ پشاور کی مرکزی مسجد قاسم خان کے علماء سے ،مرکزی سطح پر مشاورت کے عمل کو مضبوط بنایا جائے۔ تاکہ قومی یکجہتی کی فضا مستحکم ہو سکے۔ زیر نظر معاملہ ابھی کسی حتمی اور منطقی نتیجہ تک نہیں پہنچا۔ ملک میں چونکہ عیسوی تقویم رائج ہے۔ اگر ’’ قمری تقویم‘‘ رائج ہو اور اسی کے مطابق سرکاری اور ریاستی امور وقوع پذیر ہوں اور تعطیلات اور تنخواہوں کے نظام ترویج پائیں تو یقینا اس کے لئے بہتر انتظامی ڈھانچہ بھی تشکیل پا سکے گا۔ سردست وفاقی وزارت مذہبی امور اور اس کے ساتھ صوبائی وزارت اوقاف، سپارکو اور محکمہ موسمیات کے اشتراک سے جو امور روبہ عمل ہیں وہ ایسے بھی عدم اطمینان بخش نہیں۔ تاہم ان کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ کمیٹی کے فیصلے میں بعض اوقات تاخیر یا دیگر انتظامی دشواریاں حائل رہتی ہیں۔ جس کے سبب کمیٹی ہدف تنقید بھی بنتی ہے۔ تاہم اس خطے کی غالب اکثریت مذہب پسند اور ان امور پر محراب و منبر کی راہنمائی ہی کو معتبر جانتی ہے۔ اس لئے علماء اور مذہبی شخصیات کو نظر انداز کئے جانے سے مزید مسائل پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔