روہنگیامسلمانوں کی نسل کشی کے حوالے سے عالمی عدالت کے ابتدائی ریمارکس سے قبل 28دسمبر 2019ء کواقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے میانمار میں روہنگیا کی نسل کشی کے خلاف قرارداد منظورکرلیا۔یہ قرارداد 193رکن ممالک والی اسمبلی میں 134ممالک کی حمایت کے ساتھ منظور کی گئی ہے۔ نو ممالک نے اس کی مخالفت کی جبکہ 28ممالک نے ووٹنگ میں شرکت نہیں کی۔قرارداد میں میانمار سے انسانی حقوق کی پامالیوں کا شکار ہونے والے مسلمانوںکے تحفظ اور ان کو انصاف دیئے جانے کی بات کی گئی ہے۔ اس قرارداد میں میانمار سے کہا گیا ہے کہ وہ روہنگیا مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیزی کو روکے۔اقوام متحدہ میں منظور کی جانے والی قرارداد میں گزشتہ چار دہائیوں میں میانمارکی مسلح افواج اوربدھ انتہا پسندوں کی جانب سے ظلم و تشدد کے نتیجے میں روہنگیا مسلمانوں کے مسلسل بنگلہ دیش کی جانب ہجرت کرنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔اس میں ایک آزاد بین الاقوامی مشن کی جانب سے کی جانے والی تفتیش کے نتیجے پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ کس طرح روہنگیا مسلمانوں کے انسانی حقوق کی صریح پامالی میانمارکی سفاک فوج کے ہاتھوں ہوئی ہے اقوام متحدہ کے فیکٹ فائنڈنگ مشن نے اسے بین الاقوامی قانون کے تحت شدید ترین جرم قرار دیا ہے۔ بہرکیف !ہیگ میںقائم عالمی عدالت میںگیمبیا کے ابوبکر کیطرف سے جو دستاویزات جمع کرائی گئی انکے مطابق میانمارکی سفاک فوج نے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف اکتوبر 2016ء سے خاص طورپر بڑے پیمانے پر منظم طریقے سے آپریشن شروع کیا اس آپریشن کا مقصد بطور گروہ روہنگیا مسلمانوںکو مکمل طور پر یا حصوں میں قتل کرنا،انکی خواتین کا ریپ کرنا اور گھروں کوآگ لگاناشامل تھا۔عدالت میں ان الزامات پر سماعت ہو گی میانمارکی ملٹری کی طرف سے اس آپریشن کے ساتھ ہی لاکھوں روہنگیا میانمار چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ 30ستمبر2019ء کی رپورٹ کے مطابق اس وقت تک بنگلہ دیش کے کیمپوں میں رہنگیا پناہ گزینوں کی تعداد9لاکھ15ہزار تھی۔اب بنگلہ دیش کہہ رہاہے کہ وہ مزید روہنگیا کو قبول نہیں کرے گا۔بنگلہ دیش نے اپنی مرضی سے واپس لوٹنے والے روہنگیا کے لیے سکیم شروع کی لیکن کسی ایک روہنگیا نے بھی واپسی کا ارادہ نہیں کیا۔اقوام متحدہ کے فیکٹ فائنڈنگ مشن نے بظاہر بہت سے الزامات کی تصدیق کی ہے۔واضح رہے یہ مقدمہ کچھ حد تک 1991ء میں امن کا نوبیل انعام حاصل کرنے والی آنگ سان سوچی کے بارے میں بھی ہے۔سوچی اپریل 2016ء یعنی روہنگیا کی نسل کشی کے الزامات سے پہلے سے میانمار کی سربراہ ہیں۔ اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں نے ان پر فوجی آپریشن میں ساز باز کا الزام عائد کیا ہے۔دوسری طرف آنگ سان سوچی نے دی ہیگ میں اعلان کیا تھا کہ وہ ملکی دفاع کے معاملات کی ذاتی طور پر بحیثیت وزیر دفاع سربراہی کریں گی۔یادرہے کہ ابھی گیمبیا صرف عدالت سے یہ کہہ رہا ہے کہ وہ روہنگیا کے لیے میانمار اور جہاں بھی وہ ہوں کو مزید خطرات اور تشدد سے بچانے کے لیے اقدامات کا حکم دیں جن پر عمل درآمد لازمی ہو گا۔ جیساکہ عرض کیاکہ ایک زمانے میں خود ظلم کا شکار ہونے والی نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کو اب میانمار کی اقلیت روہنگیا کے قتلِ عام کے الزامات کا دفاع کرتے دیکھنا کسی حیران کن ستم ظریفی سے کم نہیں ہے۔اس کے بجائے گریٹ ہال آف جسٹس کے رنگین شیشوں سے اندر آنے والی روشنی اکثر ایک آسیب زدہ دکھنے والی شکل پر پڑتی جنھوں نے انتہائی ناقابل تصور حد تک لرزہ خیر مظالم کی تفصیلات خود آ کر سننے کا فیصلہ کیا۔ ایسے افعال جو ان کی نگرانی میں ان کے ملک میں ہوئے۔ یہ مقدمہ International Courts and Public Opinion) میں دو سال تک چلتا رہا اور اب میانمار کی اس فوج کی کارروائیوں کا دفاع کر کے آنگ سان سو چی انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں 17ججوں کے دل جیتنے کی کوشش کر رہی تھیں۔یہ دن بھی آئے گا۔۔۔ پوری دنیا سمیت خود آنگ سان سوچی نے سوچا بھی نہیں ہوگا۔ جب وکلا نے دا گیمبیا کے روہنگیا پناہ گزینوں جس میں حاملہ خواتین کو مار مار کر ہلاک کرنے، بڑے پیمانے پر ریپ اور بچوں کو آگ میں جھونکنے جیسے واقعات کی تفصیلات پڑھنا شروع کیں تو کمرے میں اداسی سے لوگوں کے سر ہلنے لگے اور ہلکی آہوں کی آوازیں آنے لگیں۔ہم نے بڑے ٹیلی وژن پر سو چی کا چہرہ دیکھا جو میانمار کے خلاف الزامات سنتے ہوئے اکثر منجمد ہو جاتا۔آنگ سان سو چی شاید اپنی قانونی ٹیم اور وفد کے ساتھ بیٹھی ہوں مگر اکثر وہ بہت تنہا لگتیں۔یہ میانمار کے مبینہ جرائم کے حوالے سے کسی بھی ووٹ پر چین کی ویٹو طاقت ہی ہے جس نے روہنگیا برادری کے لیے انصاف کا سب سے اہم راستہ بند کیا ہوا ہے۔میں کورٹ کے باہر سو چی کی حمایت اور مخالفت میں کھڑے ہجوم کو یاد رکھوں گا۔ پانچ ہزار میل دور میانمار سے آئے 100 سے زائد حمایتیوں نے ہاتھوں میں بینر اٹھا رکھے تھے اور وہ (مدر سو والدہ سو)کے نعرے بلند کر رہے تھے۔ میانمار کے مبینہ جرائم کے حوالے سے گیمبیا کی طرف سے کورٹ میں تین تصاویرپیش کی گئیںاِن دِن نامی گائوں میں قتل کیے گئے 10روہنگیا مسلمانوں کی قبر میں لی گئی تصویر بھی تھی۔ یہ قتلِ عام روئیٹرز کے نامہ نگار یا سو او اور وا لون نے فاش کیا۔ انھیں پولیٹزر پرائز سے نوازا گیا لیکن میانمار نے انھیں جیل میں 500دن سے زیادہ کی سزا سنائی۔(ختم شد)