درویش کے لیکچر میں گرمیٔ محفل عروج پر تھی۔ سوال کیا گیا ڈپریشن کیا ہوتا ہے؟ جواب آیا… اس وقت اتنا سمجھ لو کہ اطاعت کے باغی کو ڈپریشن ہوتا ہے۔ خواہشات کے غلبے میں ٹھوکریں لگیں تو ڈپریشن ہو جاتا ہے۔ ارادوں کے ٹوٹ جانے سے ڈپریشن ہوجاتا ہے۔ خدا کی مرضی کے برعکس مرضی رکھنے سے بھی ڈپریشن ہوجاتا ہے۔ روزِ الست سوال کیا گیا ’’اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ‘‘ تمہارا رب کون ہے؟ ’’بَلٰی‘‘ جواب آیا تو ہی تو ہے۔ تمام روحوں نے اقرار کیا کہ تو ہی تو ہمارا رب ہے۔ وہاں اقرار ہوا پھر عدم سے وجود میں آگئے۔ ساتھ ہمارے نفس کو بھی بھیج دیا گیا۔ وہی نفس جس کی بھول بھلیوں اور فریب کاریوں سے اچھے اچھے فریب کھا گئے۔ دنیا کے ان دھندلکوں میں روزِ الست کے عہد کا ہر دم امتحان ہوتا ہے۔ راستے بھی بنادیئے گئے ، منزلیں بھی سمجھادی گئیں۔ پھر ان منزلوں کو کھوٹا کرنے کے لیے دلکش مناظر اور پُرفریب اسباب بھی پیدا کردیئے گئے۔ حضرت انسان کو عقل ودیعت کردی گئی۔ حواسِ خمسہ کی مرہونِ منت عقل۔ دو اور دو کو چار ثابت کرکے تجزیے کرنے والی عقل۔ ظاہری اسباب سے نتائج اخذ کرنے والی بصارت۔ خواہشوں کا گھوڑا بے لگام دوڑتا ہے۔ سرپٹ بھاگتا ہے اور پھر ٹھوکر کھا کر گر پڑتا ہے۔ اسی لیے تو فرمایا گیا کہ جب خواہش کا بے لگام گھوڑا دوڑے دوڑتے زمان و مکان کی بندشوں سے ٹھوکر کھا کر گر پڑے تو … تو پھر یاد کرو اُن کو جو بڑے بڑے عالی شان محلوں میں رہتے تھے۔ ریشم و اطلس و کم خواب کے لباس پہنتے تھے۔ سونے اور چاندی کے برتنوں میں کھانا کھاتے تھے۔ بہترین سواریوں میں سفر کرتے تھے۔ طلب حسن میں خدا کے احکام کو فراموش کردیتے تھے۔ سوچو کہ اب وہ کہاں ہیں؟ تو ہمیں چند ٹوٹی پھوٹی بوسیدہ قبروں، سال خوردہ ڈھانچوں، شکستہ عمارتوں اور بے نام مقبروں کے سوا کچھ بھی نہ ملے گا۔ عصر حاضر میں روحانیت، طریقت اور شریعت پر کتابوں، لیکچر اور لٹریچر چار سو بکھرا ہوا ہے۔ مجھے ٹیلی ویژن پر ہر ہفتے ایک پروگرام کرنا ہوتا تھا۔ ایک ہفتے موضوع روحانیت طے پاگیا۔ ایک سوال نامہ ترتیب دیناتھا اور اس کی بنیاد پر اُن شخصیات سے اسے ڈسکس کرنا تھا جو اس ڈسپلن میں بولتی بھی ہیں اور لکھتی بھی۔ نام جو سامنے تھے ان میں پروفیسر احمد رفیق، بابا عرفان الحق، عبداللہ بھٹی، سرفراز شاہ، بابا یحییٰ اور ڈاکٹر اظہر وحید سے مکالمہ ہوسکتا تھا۔ پروفیسر احمد رفیق صاحب گجر خان میں ہوتے ہیں۔ ان سے رابطے کی سبیل نہ پید اہوسکی۔ بابا عرفان الحق صاحب اس وقت جہلم میں تھے۔ باقی شخصیات سے رابطہ ہوگیا۔ سوال یہ تھے کہ تقدیر کیا ہے؟ کیا یہ اٹل ہوتی ہے؟ دعا کیا ہے؟ دعا اور تقدیر میں کیا ربط ہے؟ لوح محفوظ کیا ہے؟ شریعت، طریقت اور حقیقت میں کیا تعلق اور کیا فرق ہے؟ تصوف کیا ہے؟ دنیائے تصوف میں یہ جو اصطلاحات ملتی ہیں … فنا فی الشیخ، فنا فی الرسول اور فنا فی اللہ ان کی آسان تشریح کیا ہے؟ انسان کی زندگی میں جبر کتنا ہے اور آزادی کتنی ہے؟ عمل اور نتیجے کا باہمی تعلق کیا ہے؟ غیب کیا ہے؟ کچھ سوالوں کے جواب آن دی سکرین تھے اور کچھ آف دی سکرین۔ کچھ سوالوں کے جواب مبہم تھے اور بعض جوابات جامع مگر ابلاغ ذرا مشکل تھا۔ اس مکالمے کو قلم بند کرلیا۔ جو ٹی وی پر دکھایا گیا وہ اصل کا عشر عشیر بھی نہ تھا۔ بات لمبی تھی۔ بحث دقیق … اکثر باتیں خواص باتیں تھیں۔ پس منظر اور پیش منظر کے بغیر بات آن ایئر زیادہ ابہام پید اکرنے کا سبب بن جاتی۔ حاصل کلام، حاصل بحث اور حاصل گفتگو کیا تھا؟ غیب وہی ہے جس کا آپ کو علم نہیں۔ اللہ چونکہ پوری کائنات کا رب ہے اس لیے علام الغیوب ہے۔ انسانی قلب کی سطح جس قدر پالش ہوتی چلی جائے اس کی علام الغیوب سے قربت بڑھتی چلی جاتی ہے۔ قربت کی ان منازل میں … بندہ میں سے میں نہیں سب تُوں کا مظہر بنتا چلا جاتا ہے۔ تو اس کے تصرفات میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ تصرف بڑھے تو بصارت … بصیرت میں ڈھل جاتی ہے۔ بصیرت کی رینج بڑھ جائے تو غیب … غیب نہیں رہتا۔ آشکار ہوجاتا ہے۔ مگر اس کی حد ہر ایک کی بساط کے مطابق ہوتی ہے۔ انسان کس قدر خودمختار ہے اور کس قدر بے بس؟ امام جعفر صادقؑ سے سوال کیا گیا کہ جبر و قدر میں حضرت انسان کس قدر آزاد ہیں اور کس قدر بے بس؟ آپ کا جواب تھا کہ انسان عمل میں مکمل آزاد ہے اور نتائج میں مکمل بے بس۔ اسی لیے باب العلم کا یہ ارشاد بطور سند پیش کیا جاتا ہے کہ میں نے ارادوں کے ٹوٹ جانے سے خدا کو پہچانا۔ ایک درویش دوران مکالمہ کہنے لگے کہ قضا و قدر … جبر و اختیار کا مسئلہ بہت پرانا ہے۔ پیغمبر، امام، ولی، درویش اور فلسفی اس پر اپنی اپنی عقلی اور روحانی گرفت اور تصرف کے مطابق اظہار خیال کرتے رہے۔ بات روحانی ہے۔ اللہ کا راز ہے …اسے بیان تو کیا جاسکتا ہے مگر ضروری نہیں کہ اسے سمجھا اور سمجھایا بھی جاسکے۔ عقل اور فہم کی رینج … سب کی مختلف ہے۔ ہر علم والے کے اوپر ایک اور صاحب علم ہے۔ پھر بات علم نافع اور غیر نافع کی بھی ہے۔ دعا کی ایک اپنی سائنس ہے جو تقدیر سے بڑی گہری وابستگی رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے مابعد طبیعاتی علوم ہیں جن میں نجوم اور جفر اپنی اپنی کنجیاں لگا کر تقدیر اور غیب کے میدان میں داخلے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ شریعت اگر ظاہر ہے تو طریقت باطن ہے ۔ حقیقت ایک بسیط راز جس تک رسائی ہڈ بیتی ہے نہ کہ جگ بیتی۔ فنا فی الشیخ، فنا فی الرسول اور فنا فی اللہ پر بات ہوئی مگر وہ کالم کی بساط سے زیادہ ہے۔ عصر کے ایک بہت بڑے درویش کے مطابق … یہ جو آستانے ہیں … یہ ٹیلی گراف آفس ہیں۔ ہر وقت خیال بھیجتے رہتے ہیں، ہر وقت ٹرانسمشن ہوتی رہتی ہے۔ اور … ڈپریشن خیال کا نام ہے … خیال اِدھر اُدھر آتا جاتا رہتا ہے۔ قربانی کرنے سے ڈپریشن ختم ہوجاتا ہے اور یہ کہ ساری روحیں ایک ہی عمر کی ہیں۔ ایک ہی وقت پر تخلیق ہوئی ہیں۔ روح مخلوق ہے … اس کا ایک کنارہ ہے۔ اللہ خالق ہے … وہ بے کنار ہے۔ اور یہ کہ جس نے انسان کو پیدا کیا … اسی نے خیال کو پید اکیا۔ آپ کے لیے خیال کا حصہ بھی زندگی کی طرح مقرر ہوگیا۔ آخری بات یہ کہ درویش نے یہ بھی کہا کہ رات کو ایک وقت ایسا آتا ہے جب ماضی، حال اور حال مستقبل بن جاتا ہے۔